ہر گروہ کا ایک انجام ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
محرّما تِ اِلٰہیایک شبہ او ر اس کا جواب

اس آیت میں خداوند کریم قوانین آفرینش میں سے ایک اہم قانون، فنا و نیستی کا ذکر فرماتا ہے، فرزندان آدم کی روئے زمین پر زندگی سے متعلق جو بحثیں ہوئی ہیں پھر آخر امر میں گناہکاروں کا جو انجام بدگذشتہ آیات میں دکھلایا گیا ہے یہ سب اس بحث سے واضح ہوجائے گا ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: ہر امت کے لئے ایک زمانہ و مدت معیّن مقرر کی گئی ہے (وَلِکُلِّ اٴُمَّةٍ اٴَجَلٌ) ۔
اور جس وقت یہ مدت پوری ہوجائے گی تو پھر ایک لحظہ کے لئے وہ اس سے بڑھ سکیں گے نہ پیچھے ہٹ سکیں گے (فَإِذَا جَاءَ اٴَجَلُھُمْ لَایَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلَایَسْتَقْدِمُونَ) ۔
مطلب یہ ہے کہ دنیا کی تمام قومیں بھی افراد کی طرح قانون موت و حیات سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔ کچھ قومیں تو صفحہ ہستی سے نابود ہوجاتی ہیں پھر ان کے بجائے دوسری قومیں آجاتی ہیں ۔ لہٰذا قانون فنا سے نہ افراد الگ ہیں نہ قومیں بس فرق اتنا ہے کہ راستہ اختیار کرتے ہیں، شہوت رانی و خواہشات کے دریا میں غرق ہوجاتے ہیں، تجمل پرستی، تن پروری کی موجوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ جب دنیا کی کوئی قوم ان راستوں پر آنکھیں بند کرکے چل پڑے اور مسلم الثبوت قوانین فطرت کو پس پشت ڈال دے تو اس کا قہری نتیجہ یہ بر آمد ہوگا کہ وہ اپنے سایہ، ہستی کو کھوبیٹھے گی اور تباہی کے گڑھے میں ہمیشہ کے لئے جاگرے گی ۔ اگر مختلف قوموں کے تمدنوں کا مطالعہ کیا جائے جیسے بابل، فراعنہٴ مصر، قوم سبا، کلدانی، آشوری، مسلمانان اُندلس اور اسی طرح کی دوسری قومیں تو معلوم ہوگا کہ جب ان کی کج ردیاں اور شرکشیاں حد سے بڑھ گئیں تو ان کی نابودی کا فرمان آسمان سے نازل ہوگیا ۔ پھر ایک گھڑی کے لئے بھی وہ اپنی حکومت کے لرزان ستونوں کو باقی نہ رکھ سکے ۔
معلوم ہونا چاہیٴے کہ عربی میں لفظ ”ساعت“ کم از کم وقت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اگر چہ آج کل شب و روز کے چوبیسویں حصہ (ایک گھنٹہ) کو ”ساعت“ کہتے ہیں ۔

 

محرّما تِ اِلٰہیایک شبہ او ر اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma