اس آیہٴ کریمہ میں جو سورہٴ انعام کی آخری آیت ہے مقام انسانی کی اہمیت اور جہاں ہستی میں اس کی حیثیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ ان گزشتہ بحثوں کی تکمیل ہوجائے جن میں توحید کے ستونوں کو استوار کیا گیا ہے اور مسلک شرک و بت پرستی سے مقابلہ کیا گیا ہے، یعنی انسان بہ حیثیت اشرف المخلوقات اپنی حقیقی قدر و قیمت پہچان لے تاکہ پتھر، لکڑی اور دیگر طرح طرح کے بتوں کے سامنے اپنی پیشانی نہ جھکائے اور ان کا بندہ نہ بنے بلکہ ان کا امیر بنے اور ان پر حکومت کرے ۔
لہٰذا اس آیت کے پہلے جملے میں فرماتا ہے: وہ خدا وہ ہے جس نے تمھیں زمین پر جانشین (اور اپنا نمائندہ) بنایا ہے (وَھُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ الْاٴَرْضِ) ۔(۱)
وہ انسان ، جو روئے زمین پر خدا کا نمائندہ ہے (۲) ۔ جس کے ہاتھ میں اس کرہ زمین کی تمام قومیں اور خزانے سونپ دیئے گئے ہیں اور خدا کی طرف سے تمام موجودات پر اس کی حکومت کا فرمان صادر ہوا ہے، اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے کو اتنا گرادے کہ جمادات سے بھی پست ہوجائے اور انھیں سجدہ کرنے لگے ۔
اس کے بعد خدا اس امر کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ روحانی اور جسمانی لحاظ سے انسانوں کی صلاحیتیں مختلف ہیں اور یہ کہ اس اختلاف کی کیا مصلحت ہے، فرماتا ہے: تم میں سے بعض کو بعض پر برتری دی تاکہ ان قدرتی عنایتوں اور سہولتوں کی وجہ سے جو اس نے تمھیں عطا کی ہیں وہ تمھیں آزمائے
( وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ ) ۔
دوسراقول، جو قواعد تحقیق سے مطابقت رکھتا ہے، یہ ہے کہ ”خلائف الارض“ سے مراد یہ ہے کہ ہر آئندہ انسان پچھلے انسان کا اور ہر آنے والی قوم گزشتہ قوم کی خلیفہ ہے، کیونکہ خلف کے اصلی معنی ”پیچھے “ کے ہیں علامہ طبرسیۺ اپنی مشہور تفسیر ”مجمع البیان“ میں اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
”معناہ ان اہل کل عصر یخلف اہل العصر الذی قبلہ کلما مضیٰ قرن خلفہم قرن یجری ذلک علی النظام والساق حتّی تقوم الساعة وہٰذا لا یکون الّا من عالم مدبّر“
”یعنی ہر عصر کے لوگ گذشتہ اہل عصر کے پیچھے آتے ہیں، جب ایک صدی گزر جاتی ہے دوسری آحاتی ہے، یہ حمل بڑی خوش اسلوبی سے منظم طریقے سے جاری وساری ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا الّا یہ کہ اس نظام کے پس پردہ ایک عام اور مدبشر (انتظام کرنے والی) ہستی موجود ہو ۔
نیزایسا ہی تفسیر صافی میں بھی ہے ۔ مترجم-
اس آیت کے آخر میں یہ کہہ کر کہ ہر انسان کو خوش قسمتی اور بدبختی کے راستے کے انتخاب میں اختیار دیا گیا ہے، ان آزمائشوں کا نتیجہ اس طرح بیان فرمایاہے: تمہارا پروردگار ان لوگوں کے لئے جو ان آزمائشوں سے سیاہ رو اور ناکام کلیں گے ”سریع العقاب“ : جلدی سزا دینے والا ، ہے اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی غلطیوں کی اصلاح میں لگے رہے ہیں ۔ بخشنے والا اور مہربان ہے (إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
انسانوں میں فرق۔ اور عدالت کے تقاضے
اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ انسانوں کے درمیان کچھ ایسے درجاتی اختلاف بھی موجود ہیں جو انسان کے بنائے ہوئے ہیں کیونکہ انسانوں نے دوسرے انسانوں پر ستم روا رکھا ہے مثلاً کچھ لوگ بے حساب ثروت کے مالک ہیں جبکہ کچھ لوگ خاک نشین ہیں، کچھ لوگ ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے جاہل اور بے علم رہ گئے ہیں جبکہ دوسرے لوگ ذرائع ہونے کی وجہ سے علوم کے آخری درجوں پر فائز ہیں، اسی طرح ایک طبقہ وہ ہے جو خوراک کی کمی کے باعث اور حفظان صحت کے لوازم نہ ہونے کی وجہ سے علیل وبیمار نظر آتا ہے، جبکہ اس کے برخلاف ایک طبقہ وہ ہے جس کے پاس ہر طرح کے وسائل موجود ہیں اس لئے وہ تندرستی اور سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے ہے ۔
اس طرح کے فرق، دولت وفقر، علم وجہل، تندرستی اور بیماری زیادہ تر استعمار واستحصال دوسروں کو غلام بنانے اور آشکار وپنہاں، ظلم کی پیداوار ہیں ۔
یہ بات مسلّم ہے کہ اس طرح کے اختلافات کو خدا کے ذمہ نہیں ٹھہرایا جاسکتا، نہ اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ اس طرح کے اختلافات کو جائز ٹھہرا کر ان کی مخالفت نہ کی جائے ۔
لیکن اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانوں کے درمیان جتنا بھی بھی اصول عدالت کی مراعات کی جائے پھر بھی سب انسان آپس میں برابر نہیں ہوسکتے، کیونکہ استعداد، ہوش وذہانت اور ذوق وسلیقہ کی رُو سے فرق باقی رہے گا یہاں تک کہ کم از کم وہ اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے یکساں نہ ہوں گے ۔
لہٰذا سوال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے فکری اختلافات عدالت الٰہی کے خلاف ہیں؟ یا اس کے برخلاف حقیقی عدالت (یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ رکھنے) کا تقاضا یہی ہے کہ تمام انسان برابر نہ ہوں؟
اگر انسانی معاشرے کے تمام افراد یکساں اور برابر ہوں، جیسے کپڑے با برتن جو ایک کارخانے سے بن کر نکلتے ہیں اور یکساں ہوتے ہیں اسی طرح تمام انسان بھی ایک شکل کے ایک استعداد کے بالکل مساوی ہوتے تو انسانی معاشرہ باکل مردہ اور روح سے خالی ہوکر رہ جاتا، اس میں کسی طرح کی حرکت ہوتی اور نہ ترقی کی راہوں پر پیش قدمی نظر آتی ۔
ایک پودے کی طرف نظر کیجئے جس کی جڑیں تو مضبوط اور سخت ہوتی ہیں مگر اس تنا لطیف ہوتا ہے لیکن ٹہنیوں کی نسبت سخت ہوتا ہے، پھر اس کے پتّے ، پھول، شکوفے بالترتیب لطیف سے لطیف تر ہوتے چلے جاتے ہیں، بات یہ ہے کہ ان سب نے اپنے باہمی تعاون اور اجتماع سے ایک خوبصورت پودے کو جنم دیا ہے ان میں سے ہر ایک کے خلئے اپنے فرائض کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف اور مصروف عمل ہیں ۔
بالکل یہی حال دنیائے انسانیت میں نظر آتا ہے ۔ افراد انسانی بھی باہم مل کر ایک عظیم الشان اور بار آور درخت کی مانند ہیں جس میں ہر طبقے بلکہ ہر فرد کا اس درخت کو تشکیل دینے میں ایک خاص مقام ہے جو اس کی ساخت کے مطابق ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن نے کہا ہے کہ یہ اختلافات تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں، جیسا کہ سابقاً بھی ہم نے کہا کہ خدائی منصوبوں میں جہاں بھی لفظ ”آزمائش “ استعمال ہوا ہے اس کے معنی ترتیب و پرورش کے ہیں اور اس طرح اس شخص کا جواب مل جاتا ہے جو مذکورہ آیت سے کوئی غلط نتیجہ اخذ کرنا چاہے ۔