چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
زندگی ۔ ایمان اور تقویٰ کے زیر سایہایمان سے بے بہرہ قومیں کیوں خوش حال ہیں؟

۱۔ آسمان اور زمین کی برکتوں سے کیا مراد ہے؟:اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان بحث ہے، بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد نباتات کا کا روئیدہ ہونا ہے، بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد اجابت دعا اور حل مشکلات ہے، یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ برکات آسمانی سے مراد برکات معنوی اور برکات ارضی سے مراد برکات مادی ہوں، لیکن اگر گذشتہ آیات پر نظر کی جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے کیوں کہ:
گذشتہ آیات جن میں سرکشوں اور مجروموں کو شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیاہے ان میں کبھی آسمان سے سیلان نازل ہونے اور زمین سے چشموں کے ابلنے کاذکر ہے (جیسے طوفان نوح(علیه السلام) ) اور کبھی آسمانی بجلی گرنے اور کبھی صیحہ آسمانی، کبھی زمین کے ہولناک زلزلوں کا بیان ہے، زیر نظر آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ سب سزائیں ان لوگوں کے اعمال بد کا ر عمل تھیں، ورنہ اگر انسان پاک اور با ایمان ہو تو آسمان سے عذاب کے بجائے اللہ کی برکتوں کی بارش ہو، یہ خود انسان ہے جو برکتوں کو بلاؤں کی شکل میں بدلے جانے کا باعث ہوتا ۔
۲۔ ”برکات “ کا مفہوم:”برکات“ جمع ہے ”برکت“ کی اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ اس کلمہ میں ”ثبات“ اور ”استقرار“ کا مفہوم مضمر ہوتا ہے، جو نعمت دیر تک برقرار رہنے والی ہو اس کو برکت کہتے ہیں، اس کے مقابلہ میں وہ بے برکت چیزیں ہوتی ہیں جو زود گزر اور جلدی فنا ہوجانے والی ہوتی ہیں ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایمان وتقویٰ نہ صرف نزول برکات الٰہی کا سبب ہوتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے ہی جو نعمتیں انسان کے پاس ہوےی ہیں ان کو وہ برمحل صرف کرتا ہے، مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیںہیں کہ آج کل کتنی زیادہ انسانی طاقت اور اقتصادی وسائل ہیں، مگر یہ سب اسلحہ سازی کے مقابلوں اور طرح طرح کے نابود کرنے کے ہولناک آلات کی تیاری میں صرف ہورہے ہیں، یہ وہ قدرت کے عطیے ہیں جن سے ہر طرح کی برکت ختم ہوگئی ہے، یہ جلد ہی فنا ہوجائیں گے، ان سے نہ صرف یہ کہ کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ ان کی وجہ سے ہر طرف ویرانی وبربادی پیدا ہوگی لیکن اگر انسانی معاشرہ میں ایمان بخدا اور تقویٰ شامل ہوجائے تو یہ قدرت کے عطیے ایک دوسری طرح سے ان کے درمیان صرف ہوں جس کے نتیجہ میں ان کے آثار وبرکات دیر تک باقی رہیں اور اس طرح وہ برکات کا مصداق بن جائیں ۔
۳۔ اس آیت میں ”اخذ“ سے مراد:آیہ مذکورہ بالا میںلفظ” اخذ“ پکڑنے نے کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم ہے”سزا دینا“ یہ اس وجہ سے ہے کہ بالعموم جس کو بھی سزا دینا منظور ہوتا ہے اس کو پہلے پکڑاجاتا ہے، پھر اس کو باندھ دیتے ہیں تاکہ وہ بھاگ نہ سکے بعد ازاں اس کو سزا دیتے ہیں ۔
۴۔ خدا کا فیض اور عقاب کسی سے مخصوص نہیں:اگرچہ زیر بحث آیہ شریفہ کے مد نظر قومیں اور ان کے اعمال بد ہیں لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اس کا مفہوم وسیع، عام اور دائمی ہے جو کسی ایک قوم و ملت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور یہ ایک سنت الٰہی ہے کہ بے ایمان وکثیف وفاسد افراد اسی دنیا میں اپنے کیفر کردار میں گرفتار ہوجاتے ہیں، کبھی تو آسمان وزمین کی بلائیں ان پر برستی ہیں اور کبھی جنگ عظیم یا علاقائی جنگ کی آگ انھیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان کے اقتصادی اور جانی سرمائے کو خاک سیاہ کردیتی ہے اور کبھی جسمانی اور دماغی طور پر وہ ان دیکھے خطروں سے ایسے متاثر اور خوفزدہ ہوتے ہیں کہ ان کا سرمایہ سکون وقرار چھن جاتا ہے مختصر یہ کہ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ”جیسی کرنی ویسی بھرنی“ کا قانون کارفرما ہے ورنہ نہ تو خدا کا فیض کسی خاص فرد کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ اس کا عقاب، جو جیسا کرے گا ویسا پائے گا ۔

 
زندگی ۔ ایمان اور تقویٰ کے زیر سایہایمان سے بے بہرہ قومیں کیوں خوش حال ہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma