ایک سوال کا جواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ایک استثناءمسلک جبر کا بانی بھی ابلیس تھا

اردو

یہاں پر ایک سوال باقی رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ شیطان نے خدا سے کس طرح گفتگو کی ، کیا اس پر بھی وحی نازل ہوتی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا بات کرنا ہمیشہ وحی کا پہلو نہیں رکھتا، کیونکہ وحی کا مفہوم ہے ”پیام رسالت و نبوت“ اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ خدا کسی شخص سے، نہ بہ عنوان وحی و رسالت، بلکہ بطریق الہام درونی، کسی فرشتے کے ذریعے بات کرے، چاہے یہ شخص صالح افراد میں سے ہو جیسے مریم و مادر حضرت موسیٰ یا غیر صالح ہو جیسے شیطان۔
اب ہم باقی آیات کی تفسیر کی طرف کرتے ہیں ۔
چونکہ شیطان کا آدم کو سجدہ کرنے سے انکار، ایک عام اور معمولی انکار نہ تھا اور نہ تھا اور نہ تھا اور نہ ہی ایک عام گناہ شمار ہو سکتا تھا بلکہ یہ ایک سرکشی اور اعتراض تھا جس میں مقام پروردگار کا انکار چھپا ہوا تھا، کیونکہ وہ جو یہ کہتا ہے کہ : ”میں آدم سے بہتر ہوں“در حقیقت اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم کو سجدہ کرنے کا باعث ہے، اس وجہ سے، اس کے اس انکار کا رشتہ کفر سے اور پروردگار کی حکمت اور علم کے انکار سے ملا ہوا ہے اور اسی وجہ سے وہ اس مقام اور مرتبے سے گرگیا جو اسے بارگاہِ احدیت میں حاصل کیا تھا اور اس سے فرمایا: اس مقام و مرتبہ سے گر جا(قَالَ فَاھْبِطْ مِنْھَا) ۔
اس آیت میں ”مِنْھَا“میں میں جو ضمیر ہے اس کے بارے میں کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ”آسمان“یا بہشت کی طرف پلٹتی ہے جبکہ بعض مفسرین نے اس سے مراد ”مقام و مرتبہ“ لیا ہے، اگر چہ نتیجے کے لحاظ سے دونوں میں کوئی خاص فق نہیں ہے ۔
بعد ازان اس جملے کے ذریعے اس کے سقوط و تنزل کی اصل وجہ بیان فرمائی ہے: تجھے اس بات کا حق نہیں کہ تو اس مقام و مرتبے میں تکبر کا راستہ اختیار کرے (فَمَا یَکُونُ لَکَ اٴَنْ تَتَکَبَّرَ فِیھَا) ۔
ایک مرتبہ مزید تاکید کے لئے فرمایا: باہر نکل جا کہ تو پست و ذلیل افراد میں سے ہے (یعنی تو اپنے اس عمل کی وجہ سے نہ صرف کسی بزرگی کو حاصل نہ کرسکا بلکہ پستی و خواری کے گڑھے میں جاگرا)(فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِینَ) ۔
اس جملے سے بخوبی واضح ہوگیا کہ شیطان کی تمام بدبختی اس کے تکبّر کی وجہ سے تھی ۔ اس کی یہ خود پسندی اور غرور کہ اس نے خود کو اس مرتبے پر قرار دیا جس کا وہ حقیقت میں مستحق نہ تھا، اس امر کا سبب بنا کہ اس نے نہ صرف آدم کے لئے سجدہ نہ کیا بلکہ اس نے خدا کے علم و حکمت کا بھی انکار کردیا اور اس کے فرمان پر نکتہ چینی کی جس کے نتیجے میں اس نے اپنا مقام و مرتبہ کھودیا اور بجائے بزرگی کے ابدی پستی و ذلت کو خرید لیا ۔ یعنی نہ صرف یہ کہ وہ اپنے اپنے مقصد و مراد کو نہ پاسکا بلکہ اس کے بالکل برعکس دوسری سمت میں نکل گیا ۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ ”قاصعہ“ میں تکبّر ، خود پسندی اور غرور کی مذمت میں یوں فرمایا ہے۹
فاعتبروا بما کان من فعل اللّٰہ بابلیس اذا حبط عملہ الطویل وجھدہ الجھید، وکان قد عبداللّٰہ ستة آلاف---عن کبر ساعة واحدة فمن ذا بعد ابلیس یسلم علی اللّٰہ بمثل معصیّة؟! کلاّ ما کان اللّٰہ سبحانہ لیدخل الجنة بشراً بامر اخرج بہ منھا ملکا ان حکمہ فی اہل السمآء و اہل الارض لواحد۔(۱)
عبرت حاصل کرو اس بات سے جو اللہ نے ابلیس کے بارے میں کی، اس وقت جبکہ شیطان کے تمام اعمال اس کی، طول و طویل عبادتیں، پہیم زحمتیں جو اس نے چھ ہزار سال کی طویل مدّت میں خدا کی بندگی کی راہ میں انجام دی تھیں--- ایک گھڑی کے تکبّر کی وجہ سے اللہ نے ان سب کو برباد کردیا ۔ جب یہ کیفیت ہوتو ابلیس کے اس انجام کے بعد کس کی مجال ہے کہ وہی معصیت کرکے جو اس نے کی تھی عذاب الٰہی سے نجات حاصل کرے؟ نہیں ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے کہ خدا کسی انسان کو اس عمل کے ساتھ جنت عطا کرے جس کی وجہ سے ایک فرشتے(۲) کوجنت سے باہر نکال دیا ۔ اللہ کا حکم اہل آسمان و اہل زمین کے لئے ایک ہے ۔
نیز ایک حدیث میں امام زین العابدین علیہ االسلام سے اس طرح مردی ہے:
گناہوں کی کئی قسمیں اور کئی اسباب ہیں، لیکن معصیت پروردگار کا سب سے بڑا سبب تکبر ہے، جو ابلیس کا گناہ تھا، جس کی وجہ سے اس نے خدا کے فرمان سے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا ۔ اس کے بعد دوسرا گناہ ”حرص“ بنا، جس کی بنا پر حضرت آدم و حوا سے گناہ (اور ترک اولیٰ) سرزد ہوا ۔ اس کے بعد ”حسد“ہے، جو اُن کے بیٹے (قابیل) کے گناہ کا سبب بنا، جس نے اپنے بھائی (ہابیل) سے حسد کیا اور اسے قتل کردیا ۔(3)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
اصول الکفر ثلاثة: الحرص والا ستکبار والحسد، فاما الحرص فان آدم حین نہی عن الشجرة، حملہ الحرص علی ان اکل منہا، و اما الاستکبار فابلیس حیث امر بالسجود لاٰدم فاٴبیٰ، واما الحسد فانبا آدم حیث قتل احد ہما صاحبہ۔(4)
کفر و معصیت کی جڑیں تین ہیں: حرص، تکبر اور حسد۔ حرص اس بات کا سبب بنا کہ آدم نے شجر ممنوعہ سے کھایا، تکبر کی وجہ سے ابلیس نے خدا کے فرمان کو ماننے سے انکار کیا ۔ اب رہا حسد تو اس کی وجہ سے آدم کے ایک بیٹے نے دوسرے کو قتل کی ۔
لیکن شیطان کی داستان اسی جگہ پر ختم نہیں ہوتی، کیونکہ اس نے جب یہ دیکھا کہ وہ درگاہ خدا وندی سے نکال دیا گیا ہے تو اس کی سرکشی اور ہٹ دھرمی میں اور اضافہ ہوگیا ۔ چنانچہ اس نے بجائے شرمندگی اور توبہ کے اور بجائے اس کے کہ وہ خدا کی طرف پلٹےاور اپنی غلطی کی اعتراف کرے، اس نے خدا سے صرف اس بات کی درخواست کی کہ: ”خدایا! مجھے دنیا کے اختتام تک کے لئے مہلت عطا فرمادے اور زندگی عطا کر“ ( قَالَ اٴَنظِرْنِی إِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ) ۔
اس کی یہ درخواست قبول ہوگئی اور اللہ تعالےٰ نے فرمایا: تجھے مہلت دی جاتی ہے ( قَالَ إِنَّکَ مِنَ الْمُنظَرِینَ) ۔
اگر چہ اس آیت میں اس بات کی صراحت نہیں کی گئی کہ ابلیس کی درخواست کس حد تک منظور ہوئی لیکن سورہٴ حجر کی آیت ۳۸ میں ہے:
” اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ “
تجھ کو ایک روز معیّن تک کے لئے مہلت دی گئی یعنی اس کی پوری درخواست منظور نہیں ہوتی بلکہ جس مقدار میں خدا نے چاہا اتنی مہلت عطا کی ۔
انشاء اللہ ہم اس آیت کے ذیل میں اس بارے میں بحث کریں گے ۔
لیکن اس نے جو یہ مہلت حاصل کی وہ اس لئے نہیں تھا کہ وہ اپنی غلطی کا تدارک کرے بلکہ اس نے اس طولانی عمر کے حاصل کرنے کا مقصد اس طرح بیان کیا: اب جبکہ تونے مجھے گمراہ کردیا ہے، تو میں بھی تیرے سیدھے راستے پر تاک لگا کر بیٹھوں گا (مورچہ بناؤں گا) اور ان (اولاد آدم) کو راستے سے ہٹادوں گا ( قَالَ فَبِمَا اٴَغْوَیْتَنِی لَاٴَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیمَ) ۔
تاکہ جس طرح میں گمراہ ہوا ہوں اسی طرح وہ بھی گمراہ ہوجائیں ۔

 


۱۔نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ مطابق نہج البلاغہ صبحی صالح۔
۲۔یہاںشیطان پر لفظ ”فرشتہ“کا اطلاق اس بناپر کیا گیا کہ وہ فرشتوں کی صفوں میں شامل تھا، نہ کہ وہ خود فرشتہ تھا جیسا کہ اس سے سے قبل بھی اس کی طرف اشارہ ہوچکا ہے ۔
3۔ سفینة البحار جلد ۲ ص ۴۵۸ (مادّہ کبر)-
4۔ اصول کافی جلد ۲ ص ۲۱۹ باب اصول الکفر-
 
ایک استثناءمسلک جبر کا بانی بھی ابلیس تھا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma