قرآنی اسلوب میں ہم نے متعدد باریہ دیکھا کہ جب بھی قرآن نے کسی امر مباح یا امر لازم کے متعلق گفتگو کی ہے تو فوراً اس کے بعد اس کے نقطہٴ مقابل یعنی بد اعمالیوں اور محرمات کا بھی ذکر چھیڑ دیا ہے ۔ تاکہ دونوں بحثیں آمنے سامنے ہوکر ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بنیں ۔ چنانچہ اس مقام پر بھی عنایات الٰہی اور زینتوں کے استعمال کی اجازت اور ان کی نفیٴ تحریم کے بعد محرمات کا ذکر شروع کردیا ہے ۔ پہلے حرمت کی عمومی بات ہے اور اس کے بعد خاص طور سے چند اہم نکتوں کی نشاندہی کی ہے ۔ ابتداء میں ”فواحش“ کی تحریم کو بیان کیا گیا ہے، فرماتا ہے: اے پیغمبر! کہہ دو میرے پروردگار نے صرف بُرے کاموں کو حرام کیا ہے چاہے وہ آشکارا ہوں یا پنہان (قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّی الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ) ۔
”فواحش“ جمع ہے ”فاحشہ“ کی جس کے معنی ہیں ”انتہائی بُرا کام“ اور ہر بُرے کام کو ”فاحشہ“ نہیں کہتے ۔ اس بات کی تاکید کہ وہ گناہ چاہے آشکارا ہو یا پنہاں شاید اس وجہ سے کی گئی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا یہ دستور تھا کہ اگر وہ کوئی بُرا کام خلوت میں کرتے تو اس میں کوئی عیب خیال نہیں کرتے تھے لیکن وہ ظاہر ہو جاتا تو اس کو بُرا جانتے تھے ۔
اس کے بعد موضوع کو عام کرکے تمام گناہوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا (وَالْإِثْمَ) ۔
” إِثْمَ “اصل میں ہر اس کام کو کہتے ہیں جو نقصان دِہ ہو اور انسان کو اس کی حیثیت سے گرانے کا سبب بنے اور اسے ثواب اور جزائے خیر تک پہنچنے سے روکے ۔ اس بناپر ہر طرح کا گناہ ”اثم“ کے وسیع مفہوم میں داخل ہے ۔
لیکن بعض مفسرین نے ”اثم“ کے معنی اس مقام پر صرف ”شراب“ کے لئے ہیں اور شاہد میں یہ شعر پیش کیا ہے:
شربت الاثم حتی ضل عقلی کذاک الاثم یصنع بالعقول (۱)
میں نے اس قدر اثم (شراب) پی کہ میری عقل زائل ہوگئی ، اور شراب عقلوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے ۔
لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ معنی مفہوم ”اثم“ کا تمام مفہوم نہیں ہے بلکہ اس کا ایک اہم مصداق ہے ۔
بعد ازاں ایک مرتبہ پھر چند بڑے گناہوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے: اور ہر طرح کاستم اور دوسروں کے حقوق پر ناحق تجاوز کرنا (حرام ہے) (وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ) ۔
”بغی“ کے بعد مسئلہ شرک کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ارشاد ہوتا ہے: ا ے رسول! کہہ دو میرے پروردگار نے یہ بھی حرام کیا ہے کہ کسی چیز کو بغیر دلیل کے اس کا شریک بناؤ (وَاٴَنْ تُشْرِکُوا بِاللهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا) ۔
یہاں بھی یہ بات واضح ہے کہ ”مَالَم یُنَزِّل بِہ سُلْطَاناً“ اس بات کی تاکید اور توضیح کے لئے ہے کہ مشرکین نے جو خدا کے شریک بنائے ہیں ان پر کوئی دلیل منطقی یا تائید عقلی قائم نہیں ہے ۔ ”سلطان“ کے معنی ہر قسم کی دلیل اور گواہ کے ہیں جس کی وجہ سے انسان کو اپنے مخالف پر کامیابی حاصل ہو ۔
محرمات میں سے آخری چیز جس کا آیت نے ذکر کیا ہے وہ ہے”بغیر جانے بوجھے خدا کی طرف کسی بات کی نسبت دینا“ (وَاٴَنْ تَقُولُوا عَلَی اللهِ مَا لَاتَعْلَمُونَ) ۔
بغیر علم کے کوئی بات کہنا، اس کے متعلق ہم نے اسی سورہ کی آیت ۲۸ میں گفتگو کی ہے ۔ آیات قرآنی اور روایات اسلامی میں اس بات کی بڑی تاکید کی ہے کہ مسلمان کو ایسی بات نہیں کہنا چاہیےٴ جس کا علم نہ ہو یہاں تک کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی گئی ہے، آپ نے فرمایا:
”من افتٰی بغیر علم لعنتہ ملآئکة السموات والارض“۔
”جو شخص بغیر علم کے فتویٰ دیتا ہے اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں“۔(2)
اگر ہم انسانی معاشروں کی وضیعت اور ان بدبختوں کا بنظر غائر مطالعہ کریں جو بشریت کا دامن پکڑے ہوئے ہیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان بدبختوں کا زیادہ حصہ افواہ سازی، بغیر علم کے بات کہنے، ناحق گواہی دینے، بغیر مدرک و دلیل کے اظہار رائے کامرہون منت ہے ۔
۳۴ وَلِکُلِّ اٴُمَّةٍ اٴَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ اٴَجَلُھُمْ لَایَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلَایَسْتَقْدِمُونَ-
ترجمہ
۳۴۔ ہر قوم و ملت کے لئے ایک (معیّن) مدت اور زمانہ ہے، جب بھی ان کی مدت ختم ہو جائے گی تو وہ لوگ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے نہ آگے بڑھ سکیں گے ۔