تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
اس سورہ کی اہمیتوہ قومیں جو نابود ہوگئیں

اردو

اس سورہ کے آغاز میں ایک مرتبہ پھر ہمیں قرآن کے حروفِ مقطعات سے سابقہ پڑتا ہے ۔ یہاں چار جرف ہیں ، الف۔ لام۔ میم۔ صاد۔
ان حروف کے بارے میں سورہ بقرہ اور آلِ عمران کے آغاز میں ہم نے مفصل طور پر بحث کی ہے ۔ اس جگہ ان حروف کی ایک اور تفسیر جو قابلِ توجہ ہے اس بحث کی تکمیل کی غرض سے بیان کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے ان حروف کے اغراض ومقاصد میں سے بات یہ ہو کہ تلاوت قرآنی سے سننے والوں کی توجہ حاصل کی جائے اور انھیں خاموش رہنے کی دعوت دی جائے کیونکہ آغاز کلام میںان حروف کا ذکر کرنا عربوں کی نظر میںایک عجیب اور نئی چیز تھی جو اُن میں جستجو کا جذبہ ابھارتی تھی اور غالباً ایسا ہوتا تھا کہ ان حروف کو سننے کے بعد وہ بعد والے مطالب کو بھی دھیان کے ساتھ سنتے تھے، اس نظریہ کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اکثر سوتیں جو حروف مقطعات سے شروع ہوئی ہیں وہ مکّی ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمان بہت تھوڑے تھے اور دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو اپنی ضد کے پکّے تھے وہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آمادہ نہ تھے کہ پیغمبر کی کسی بات پر کان دھریں کبھی تو ایسا ہوتا تھا کہ اگر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم انھیں خدا کا کوئی پیغام سنانا چاہتے تھے تو وہ اتنا شور وغل مچاتے جس سے آنحضرت کی آواز گم ہوکر رہ جاتی تھی، جیسا کہ قرآن کی بعض آیات میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے (ملاحظہ ہو آیت۲۶ سورہٴ فصّلت) ۔
نیز بعض روایات اہلبیت علیہم السلام میں وارد ہوا ہے کہ یہ حروف رموز واشارہ ہیں الله کے اسماء حسنیٰ کا، مثلاً (الٓمٓصٓ) اس سورہ میں اشارہ ہے

(اٴَنَا الله الْمُقْتَدِرُ الصَّادِقُ) کی طرف، یعنی میںسچّا اور قوی خدا ہوں، اسی طرح ان چار حروف میں سے ہر ایک خدا کے ناموں کا اختصار وخلاصہ ہے ۔
مختصر الفاظ کو مفصّل الفاض کی جگہ استعمال کرنا پہلے سے چلا آرہا ہے، اگرچہ ہمارے عصر میں تو اس طرح کے استعمال دامن بہت وسیع ہوگیا ہے، بہت سی طولانی عبارتوں یا اداروں یا انجمنوں کے ناموں کو ایک مختصر لفظ میں سمیٹ دیتے ہیں ۔
اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ان حروفِ مقطعہ کی جو مختلف تفسیریں بیان کی گئی ہیں ان میں آپس میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیںہے کیونکہ یہ بات ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں ان تمام تفسیروں کو قرآ، کے مختلف بطنوں کے لحاظ سے مراد لیا جائے ۔
اس کے بعد آیت میں فرماتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو تم پر نازل ہوئی ہے، اس کی وجہ سے کسی قسم کی فکر یا اذیّت کو اختیار نہ کرو (کِتَابٌ اٴُنزِلَ إِلَیْکَ فَلَایَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ) ۔
”حرج“ کے معنی لغت میں تنگی، مصیبت اور ہر طرح کی اذیّت کے ہیں اس کے اصلی معنی ہیں: ”درختوں کا جھُنڈ ، جن کی شاخیں آپس میں گھتی ہوئی ہوں، بعد میں اس معنی میں وسعت پیدا ہوگئی اور یہ لفظ ہر قسم کی دلتنگی اور ناراحتی کے معنی میں بولا جانے لگا ۔
مذکورہ بالا جملہ پیغمبر کی تسلیٴ خاطر کے لئے فرمایا ہے چونکہ یہ آیتیں خدا کی جانب سے ہیں لہٰذا کسی قسم کی فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ اس کے سگین بار کو اپنے دو پر اٹھانے کی فکر، نہ اس کے ردّعمل اور جوابی کاروائیوں کی فکر جو نہایتجاہل اور ضدی دشمنوں کی طرف سے پیش آسکتی ہیں،نہ اس نتیجہ کی فکر جو اس تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں برآمد ہوگا ۔ خلاصہ یہ کے تمام فکروں اور اندیشوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور وہی اس کومنزل عمل تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے ۔
چونکہ یہ سورہ مکی ہے لہٰذا اس میں مشکلات کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ جو راہ تبلیغ دین میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو در پیش تھیں ۔ اگرچہ آج ہمارے لئے ان زحمتوں اور مصائب کا اپنے ذہن میں پوری طرح سے تصّور کرنا مشکل ہے جو رسول اللہ اور ان کے باوفا ساتھیوں کو ابتداء میں دین اسلام پھیلانے کے سلسے میں پیش آئی تھیں ۔ لیکن اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے کہ رسول اللہ یہ چاہتے تھے کہ اس انتہائی درماندہ و پستی میں ڈوبے ہوئے معاشرے میں انقلاب کی ایسی روح پھونکیں جس کی وجہ سے انسانیت کا یہ پژمردہ و نیم جان پیکر یک بیک اٹھ کر کھڑا ہوجائے اور ترقی کی ہروادی میں دوڑنے لگے اور یہ سب کچھ ایک تھوڑے سے عرصے میں ہوجائے، تو پھر ان مشکلات کا اجمالی طور سے کچھ اندازہ ہوسکے گا جو آنحضرت کو اس راہ میں پیش ہوں گی ۔
اس بناپر یہ بات بر محل ہے کہ خداوند کریم آنحضرت کو تسلی دے کہ پریشان نہ ہونا د لتنگ نہ ہونا، اپنے کام کا درست نتیجہ نکلنے کے پوری طرح سے امید وار رہنا ۔
اس کے بعد کے جملے میں مزید فرماتا ہے: اس کتاب کو نازل کرنے کا مقصد لوگوں کو ان کے افکار و اعمال کے انجام سے ڈرانا ہے، اسی طرح یہ تنبیہ اور یاددہانی ہے سچّے مومنین کے لئے (لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْریٰ لِلْمُؤْمِنِینَ) ۔(۱)
اس آیت میں ایک بات جو ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ ”انداز“ بطور ایک عمومی فرمان کے وارد ہوا ہے اور ”تذکر“ کو مومنین کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حق کی طرف دعوت اور بے راہ روی کا مقابلہ اجتماعی طور سے ہونا چاہیے جس میں سب شریک ہیں لیکن ظاہر ہے کہ صرف ایمان لانے والوں ہی کو اس کا فائدہ پہنچے گا اور وہ وہی لوگ ہیں جن کے ذہن حق بات قبول کرنے کو تیار ہیں، انھوں نے ہر قسم کی ضد اور ہٹ دھرمی اپنے سے دور کردی ہے اور حق کے سامنے سرِ تسلیم خم کیے ہوئے ہیں بالکل یہی تعبیر سورہٴ بقرہ کے آغاز میں بھی گذرچکی ہے جہاں فرمایا ہے: <ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیبَ فِیہِ ہُدیً لِلْمُتَّقِین” یہ کتاب وہ ہے جس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں اور یہ پرہیزگاروں کے لئے سرمایہٴ ہدایت ہے“ (مزیدتوضیح کے لئے تفسیر نمونہ جلد اوّل ملاحظہ ہو) ۔
اس کے بعد عام انسانوں کی طرف روئے سخن کرکے ارشاد ہوتا ہے: ”جو چیز تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے اوپر نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو“ (اتَّبِعُوا مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ) ۔ اور اس طرح پیغمبر اور ان کی ماموریت ورسالت سے بات شروع ہوکر تمام لوگوں کے فرضِ منصبی پر ختم ہوجاتی ہے ۔
مزید تاکید کے لئے ارشاد فرماتا ہے: ”غیر خدا کے فرمان کی پیروی نہ کرو اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا والی وسرپرست نہ بناؤ“

 (وَلَاتَتَّبِعُوا مِنْ دُونِہِ اٴَوْلِیَاءَ) ۔
لیکن چونکہ ایسے بندے جوپورے طور سے حق کے سامنے اپنا سر خم کرتے ہیں اور یاد دہانیوں کا اثر لیتے ہیں کم ہیں اس بناپر آیت کے آخر میں فرماتا ہے: ”تم یاددہانیوں کا اثر بہت کم لیتے ہو“ (قَلِیلًا مَا تَذَکَّرُونَ) ۔
ضمنی طور پر یہ آیت یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان ایک دوراہے پر کھڑا ہے، ایک تو خدا کی سرپرستی ورہبری کا راستہ ہے اور دوسرا غیروں کی سرپرستی میں داخل ہونے کا راستہ، اگر پہلی راہ اختیار کرے تو اس کا سرپرست ووالی صرف خدا ہے اور دوسروں کی سرپرستی قبول کرے تو اس ہر روز کسی نہ کسی کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھانا پڑے گا اور ہر روز ایک ئنے مالک وسرپرست کا انتخاب کرنا پڑے گا، لفظ ”اولیاء“ جو ولی کی جمع ہے اسی مطلب کی طرف اشارہ کررہا ہے
۴ وَکَمْ مِنْ قَرْیَةٍ اٴَھْلَکْنَاھَا فَجَائَھَا بَاٴْسُنَا بَیَاتًا اٴَوْ ھُمْ قَائِلُونَ
۵ فَمَا کَانَ دَعْوَاھُمْ إِذْ جَائَھُمْ بَاٴْسُنَا إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا إِنَّا کُنَّا ظَالِمِینَ -
ترجمہ
۴۔ اور کتنے ہی شہر اور آبادیاں ایسی ہیں جنھیں ہم نے (ان کے گناہوں کی وجہ سے) تباہ کردیا اور ہمارے عذاب نے جبکہ وہ رات کو سوئے ہوئے تھے یا دوپہر کو استراحت کی حالت میں تھے انھیں جالیا ۔
۵۔ پس جس موقع پر ہمار اعذاب ان پر آیا تو وہ اس کے سوا کچھ نہ کہہ سکے کہ ہم ظالم تھے (لیکن اس اعترافِ گناہ میں دیر ہوچکی تھی کیونکہ اس نے انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا ۔

تفسیر

 


۱۔ جو بات اوپر کہی گئی ہے اس کی بناپر ”لتنذر“ ”انزل“ سے متعلق ہے نہ کہ ”فلایکن سے، شاید اس (لتنذر) کا جملہ (فلایکن فی صدرک حرج) کے بعد واقع ہونا اس بناپر ہے کہ ابتدا میں پیغمبر کو دعوت الی الحق کے لئے آمادہ کیا جانا چاہیے، بعد ازان جو مقصد ہے (یعنی انذار) اس کو سامنے بیان کرنا چاہیے ۔
 
اس سورہ کی اہمیتوہ قومیں جو نابود ہوگئیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma