قومِ یونس کے ایمان لانے کا واقعہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
صرف ایک گروہ بر محل ایمان لایا جبری ایمان بے کار ہے

جیسا کہ تواریخ میں آیا ہے کہ ان کا ماجرا کچھ یوں ہے :
حضرت یونس (ع) کی قوم نینوا( عراق) میں زندگی زندگی بسر کرتی تھی جب آپ (ع) اس سے مایوس ہو گئے تو ایک عابد کی درخواست پر کہ جو ان میں رہتا تھا ان کے لئے بد دعا کی جبکہ انہی میں ایک عالم بھی تھاجو حضرت یونس (ع) سے درخواست کرتا تھا کہ آپ قوم کے بارے میں دوبارہ دعائے خیر کریں ، ان کے لئے پھر ارشاد و ہدایت شروع کریں اور مایوس نہ ہوں ۔
لیکن حضرت یونس اس واقعے کے بعد اپنی قوم سے باہر چلے گئے ، ان کی قوم کہ جس نے آ پ کی سچائی کو بار ہا آزمایا ہوا تھا ، اس عالم کے گرد جمع ہو گئی جب کہ نزول عذاب کا فرمان صادر نہیں ہو اتھا لیکن اس کی نشانیاں کم و بیش نظر آتی تھیں ۔ ان لوگوں نے موقع غنیمت جانا اور اس عالم کی راہنمائی میں شہرسے باہر نکل آئے ۔ ان کی حالت یہ تھی کہ دعا وتضرع کررہے تھے ہاتھ اٹھارکھے تھے ، اظہار ایمان کررہے تھے ، توبہ کناں تھے ، انھوں نے ماوٴں کو بچوں سے جدا کردیا تھا تاکہ ان کی روح میں زیادہ انقلاب بر پا ہو اور انھوں نے معمولی قسم کا لباس پہن رکھا تھا ۔ وہ اپنے پیغمبر کی تلاش میں نکل پڑے مگر ان کا تو کہیں کوئی نشان نظر نہ آیا ۔ لیکن ان کی یہ توبہ، ایما ن او رپر وردگار کی طرف بازگشت چونکہ بر محل تھی اور علم ، آگاہی اور خلوص کی بنیاد پر تھی لہٰذا وہ اپنا کام کرگئی ۔ عذاب کی نشانیاں بر طرف ہو گئیں ۔ آرام و سکون کی طرف پلٹ آیا۔ ایک طویل واقعے کے جب حضرت یونس (ع) اپنی قوم کی طرف پلٹ آئے تو دل و جان سے قوم نے ان کی پذیرائی کی ۔
خود حضرت یونس علیہ السلام کی زندگی کی تفصیل انشاء اللہ سورہٴ صافات کی آیات ۳۴اتا ۱۴۸کے ذیل میں بیان کی جائے گی۔
اس نکتے کی یاد دہانی بھی ضروری ہے قوم یونس (ع) کو خدا کے عذاب کا ہر گز سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ورنہ ان کی قوم کی توبہ بھی قبول نہ ہوتی بلکہ خطرے کے الارم اور نشانیاں جو عام طور پر حقیقی عذاب سے پہلے نمایاں ہوتی ہیں ان کی بیداری کے لئے کافی ثابت ہوگئیں حالانکہ فرعونی خطرے کے ایسے الارم بار ہا سن چکا تھا۔خطرے کی نشانیاں ان کے لئے نمایاں ہو چکی تھیں ۔ مثلاً طوفان ، ٹڈی دل کا حملہ اور نیل کے پانی کا دگر گوں ہو جانا وغیرہ ایسے واقعات رونما ہوچکے تھے لیکن انھوں نے خطرے کی ان گھنٹیوں کو کبھی کوئی اہمیت نہ وی اور ہر مصیبت پر صرف حضرت موسیٰ سے خواہش کی کہ اس تکلیف اور مصیبت کو خدا ان سے بر طرف کردے تو ایمان لے آئیں گے لیکن وہ کبھی ایمان نہیں لائے ۔
مندرجہ بالاواقعہ ضمنی طور پر نشاندہی کرتا ہے کہ آگاہ اور دلسوز رہبر کا وجود ایک قوم کے درمیان کس قدر موٴثر اور حیات بخش ہے جب کہ وہ عابد جو کافی علم نہ رکھتا ہو وہ زیادہ سختی اور خشونت ہی کا سہارا لیتا ہے ۔ عدم آگہی سے عبادت اور علم جو حواس ذمہ داری کے ساتھ ہو میں اسلام جس کا فرق قائل ہے ، اس کی منطق بھی اس روایت سے سمجھ میں آتی ہے ۔


۹۹۔ وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ کُلّھُمْ جَمِیعًا اٴَفَاٴَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ۔
۱۰۰۔ وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اٴَنْ تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللهِ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لاَیَعْقِلُونَ۔

ترجمہ
۹۹۔ اور گر تیرا پر وردگار چاہتا تو روئے زمین کے تمام رہنے والے ( جبری طورپر) ایمان لے آتے ۔ کیا تو مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ ایمان لے آئیں (جبری ایمان کا کیا فائدہ ہے ) ۔
۱۰۰۔ (لیکن) کوئی شخص خدا کے ( اس کی توفیق ، مدد او رہدایت ) کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا اور ( کفر و گناہ کی ) کی ناپاکی وہ ان کے لئے قرار دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔

 

صرف ایک گروہ بر محل ایمان لایا جبری ایمان بے کار ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma