چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
حق و باطل کی ایک پہچان دعوت ِقرآن کی عظمت اور حقانیت

۱۔ ”خدا ہی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے “ ۔ مندرجہ بالا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ صرف خدا حق کی ہدایت کرتا ہے یہ انحصار یا تو اس بناء پر ہے کہ ہدایت کے مراد راستہ دکھا نا نہیں ہے بلکہ مقصد تک پہنچا نا بھی ہے او ریہ کام صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور یا اس بناء پر ہے کہ راستہ دکھا نا اور اس کی نشاندہی کرنا بھی پہلے درجے میں خدا ہی کا کام ہے اور ا س کے غیر یعنی انبیاء الہٰی اور ہادیان بر حق صرف اس کے طریق ہدایت سے ہدایت کے راستوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور اس کی تعلیم سے عالم ہوتے ہیں ۔
۲۔ مشرکین کے معبود خود ہدایت کے محتاج ہیں : یہ جو زیر بحث آیات میں آیا ہے کہ مشر کین معبود نہ صر ف کسی کو ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ خود بھی ہدا یت الٰہی کے محتاج ہیں اگر پتھر اور لکڑی کے بتوںکے بارے میں صادق نہیں آتا کیونکہ وہ تو بالکل شعور نہیں رکھتے تھے لیکن صاحب شعور معبودوں کے بارے میں مثلاً جن فرشتوں اور انسانوں کو معبود قرار دیا گیا ہے پرمکمل طور پر صادق آتا ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مذکورہ جملہ ایک قضیہ شرطیہ کے معنی میں ہو یعنی فرض کریں کہ بت عقل و شعور رکھتے ہوتے تو خدائی راہنمائی کے بغیر خودراہ تلاش نہ کرسکتے چہ جائیکہ دوسروں کی راہنمائی کرتے ۔
بہر حال مندرجہ بالا آیات اچھی طرح سے نشاندہی کرتی ہیں کہ بندوں کے لئے خدا کا ایک طرف سے ہدایت کا ایک بنیادی پر وگرام ہے جس کے تحت انھیں حق کی طرف ہدایت کی جاتی ہے اور یہ کام عقل و خرد بخشنے ، طریق ِ فطرت سے انھیں مختلف درس دینے ، جہانِ خلقت میں اپنی آیات دکھانے اور اسی طرح انبیاء اور آسمانی کتب بھیجنے کے ذریعے عمل پذیر ہوتا ہے ۔
۳۔ بت پرست گمان کی پیروی کرتے ہیں : زیر بحث آخری آیت میں ہم نے پڑھا ہے کہ اکثربت پرست اور مشرک اپنے ظن و گمان کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ کیوں نہیں فرمایا کہ وہ سب کے سب ایسے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمام بت پرست اس گمان باطل میں شریک ہیں کہ وہ بتوں کو حقیقی معبود، نفع و نقصان کا مالک اور بار گاہ ِ خدا میں شفیع خیال کرتا ہوں ۔ اسی بناء پر بعض مجبور ہوئے ہیں کہ لفظ ” اکثر “ سے تمام کے معنی مراد لیں اور ان کا نظر یہ ہے کہ یہ بعض اوقات تمام او ر کل کے معنی میں آتا ہے ۔
لیکن یہ جواب کوئی زیادہ قابل ِلحاظ نہیں ہے ۔بہتر یہ ہے کہ ہم کہیں کہ بت پرست دو طرح کے ہیں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بیہودہ ، نادان او رجاہل ہیں اور غلط سلط خیالات او رگمانوں کے زیر اثر رہتے ہیں اور انھوں نے بتوں کو پرستش کے لئے منتخب کر رکھا ہے جب کہ اقلیت میں وہ بت پرست ہیں جو سیاہ دل اور آگاہ ہیں اور اکثریت کے رہبر و راہنما ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بت پرستی کے لئے بے بنیاد ہونے کو جاننے کے باوجود اپنے مفادات کے لئے لوگوں کو بتوں کی طرف دعوت دیتے ہیں لہٰذ اخدا صرف پہلے گروہ کو جواب دیتا ہے کیونکہ وہ قابل ہدایت ہیں ۔ لیکن دوسرا اگر وہ جو جان بوجھ کر غلط راستے چل رہے اسے بالکل قابل ِ اعتناء قرار نہیں دیتا۔
۴۔ علماء اصول کی ایک بحث: کچھ علماء اصول زیر نظر آیت اور اس قسم کی آیا ت کو اس امر کی دلیل سمجھتے ہیں کہ ظن اور گمان کسی طرح حجت اور سند نہیں بن سکتے اور صرف قطعی دلائل پر ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے لیکن بعض دیگر علماء کہتے ہیں کہ فہقی دلائل میں ہمارے پاس بہت سے ظنی دلائل ہیں (مثلاً الفاظ کے ظواہر کا حجت ہونا ، دو عادل گواہوں کی گواہی ی اخبر واحد ثقہ اور اس قسم کے دیگر دلائل ) وہ کہتے ہیں کہ زیر نظر آیت اس امر کی دلیل ہے کہ اصلی قاعدہ کے مطابق ظن حجت نہیں ہے مگر یہ کہ کسی ظن کا حجت ہو نا قطعی دلیل سے ثابت ہ وجائے ، جیسے مذکورہ چند مثالوں کے بارے میں ہے ۔
مگرانصاف یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت صرف بے اسا س خیالات اور بے ہودہ گمانوں کے بارے میں بات کررہی ہے جیسے بت پرستوں کے گمان ۔ اس آیت کا تعلق اس ظن سے نہیں جو عقلاء کے نزدیک قابل ِ اعتماد ہے لہٰذا مندرجہ بالا آیت اور اس طرح کی دیگر آیات سے ظن کے حجت نہ ہونے کے بارے میں سند پیش نہیں کی جاسکتی۔ ( غور کیجئے گا )

۳۷۔ وَمَا کَانَ ھَذَا الْقُرْآنُ اٴَنْ یُفْتَرَی مِنْ دُونِ اللهِ وَلَکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیلَ الْکِتَابِ لاَرَیْبَ فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۔
۳۸۔ اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِہِ وَادْعُوا مَنْ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔
۳۹۔ بَلْ کَذَّبُوا بِمَا لَمْ یُحِیطُوا بِعِلْمِہِ وَلَمَّا یَاٴْتِھِمْ تَاٴْوِیلُہُ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِینَ ۔
۴۰۔ وَمِنْھُمْ مَنْ یُؤْمِنُ بِہِ وَمِنھُمْ مَنْ لاَیُؤْمِنُ بِہِ وَرَبُّکَ اٴَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِینَ۔

ترجمہ

۳۷۔مناسب نہیں ( اور ممکن نہ تھا ) کہ بغیر وحی الہٰی کے اس قرآن کی نسبت خدا کی طرف دی جائے لیکن ( آسمانی کتب میں سے ) جو کچھ موجود ہے یہ اس کی تصدیق ہے اور اس کی تفصیل ہے اور اس میں شک نہیں کہ عالمین کے پروردگار کی طرف سے ہے ۔
۳۸۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن کی خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے ۔ کہہ دو کہ اگر سچ کہتے ہو تو اس جیسی ایک سورت لے آوٴ اور خدا کے علاوہ جسے چاہتے ہو ( اپنی مدد کے لئے ) بلا لو۔
۳۹۔ ( وہ علم و دانش کی بناء پر قرآن ک انکار کرتے ) بلکہ وہ ایسی چیز کی تکذیب کرتے ہیں جس سے آگاہی نہیں رکھتے اور ابھی تک اس کی حقیقت ان کے لئے واضح نہیں ہوئی اسی طرح سے ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی ۔ پس دیکھو کہ ظالموں کا انجام کیا ہوا۔
۴۰۔ اور ان میں سے بعض اس پر ایمان لے آتے ہیں اور بعض ایمان نہیں لاتے اور تیرا پر ور دگار فساد کرنے والوں سے زیادہ باخبر اور آگاہ ( اور انھیں اچھی طرح سے جانتا ہے ) ۔
 

حق و باطل کی ایک پہچان دعوت ِقرآن کی عظمت اور حقانیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma