چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
مسجد کے روپ میں بت خانہ ایک بے مثال تجارت

۱۔ عظیم درس : مسجد ضرار کا واقعہ تمام مسلمانوں کے لئے پوری زندگی میں ایک درس ہے ۔ کلام ِ خدا اور عمل رسول واضح طور پر نشان دہی کرتا ہے کہ مسلمانوں کو کبھی بھی ایسا ظاہر بین بھی نہیں ہونا چاہئیے کہوہ صرف ظاہر ی طور پر کاموں کے حق بجانب ہونے پر نظر رکھیں اور ان کے اصلی اغراض و مقاصد سے بے خبر اور لاتعلق رہیں ۔ مسلمان وہ ہے جو نفاق او رمنافق کو ہر وقت ، ہر جگہ ، ہر لباس میں اور چہرے میں پہچان لے ۔ اگر چہ دین و مذہب کے چہرے اور قرآن مسجد کی حمایت کے لباس ہی میں کیوں نہ ہو۔
مذہب سے مذہب کے خلاف فائدہ اٹھا ناکوئی نئی چیز نہیں ۔ استعمار گروں ، جابر حکمرانوں اور منافقوں کے طور طریقے ہمیشہ ہرمعاشرے میں یہی رہے ہیں ۔ اگر لوگ کسی خاص مطلب کی طرف جھاوٴ رکھتے ہیں تو وہ پہلے انھیں تو وہ پہلے انھیں اسی جھاوٴ سے غافل کرتے ہیں اور پھر اپنے استعماری مقاصد بروئے کار لاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مذہب کے خلاف مذہب ہی کی قوت سے مدد لیتے ہیں ۔
اصولی طور پر جعلی پیغمبروں اور باطل مذاہب گھڑنے کا یہی فلسفہ تھا کہ اس راستے سے لوگوں کے مذہبی جھکاوٴ اور میلان کو اپنی پسند کی راہ پر ڈال دیا جائے ۔
واضح رہے کہ مدینہ کے ماحول میں ، وہ بھی رسول اللہ کے زمنے میں جب اسلام اور قرآن لوگوں میں بہت زیادہ نفوذ کر چکا تھا ، اسلام کے خلاف کھلے بندوں جنگ ممکن نہ تھی بلکہ ضروری تھا کہ بے دینی کو دین کے پیکٹ میں پیش کیا جائے اور باطل کو حق لباس پہنا کر لایا جائے تاکہ سادہ دل لوگوں کو کھینچا جاسکے او ریوں برے مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جاسکے ۔
لیکن سچا مسلمان وہ نہیں جو ایسا سطحی اور سادہ ہو کہ ایسے ظواہر سے دھوکا کھالے ۔ اسے چاہئیے کہ ایسے کاموں کے عوامل ، ان کے پیچھے کار فرما یاتھوں اور دوسرے قرائن کوسامنے رکھکر ان کی حقیقت معلوم کرے اور ظاہری چہرے ک پیچھے لوگوں کے باطنی چہرے کو بھی دیکھے ۔
مسلمان وہ نہیں جو ہر پکار کو صرف یہ دیکھ کر قبول کرلے کہ یہ حق کی آواز ہے چاہے وہ جس گلے سے بھی نکل رہی ہو اور نہ وہ مسلمان ہے جو اپنی طرف بڑھنے والے ہرہاتھ کو پکڑلے ۔ ہر کام جو ظاہر دینی ہو اسے دیکھتے ہیں اس کے ہم قدم ہو جائے ، اسلام کو ہوشیار ، آگاہ،حقیقت شناس ، مستقبل پر نظر رکھنے والااور تمام معاشرتی مسائل کا تجزیہ و تحلیل کرنے کے قابل ہونا چاہئیے ۔ چاہیئے کہ وہ فرشتوں کے لباس میں جنو کو پہچان لے ۔ چرواہے کے لباس میں بھڑئیے کو پہچان لے اور اپنے آپ کو دوست نماز دشمنوں سے مقابلے کے لئے تیار کرے ۔
اسلام میں ایک بنیادی چیز یہ ہے کہ ہر چیز سے پہلے نیتوں اور ارادوں کو دیکھا جائے ۔ اسلام کی نظر میں ہر عمل کی قدر و قیمت اس کی نیت کے ساتھ وابستہ ہے نہ کہاس کے ظاہر کے ساتھ ۔ نیت اگر چہ ایک باطنی چیز ہے تا ہم ممکن نہیں کہ کوئی شخص اپنی نیت صرف دل میں رکھے رہے اور اس کا اثر اس کے عمل میں ظاہر ہو اگر چہ وہ رازی داری میں بڑا ماہر اور استاد ہی کیوں نہ ہو۔
یہاں سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ اتنا با عظمت مقام یعنی مسجد اور خانہ ٴ خدا ہونے کے باوجود اسے جلانے کا حکم کیوں دیا؟ وہ مسجد جس کی ریت کا ایک ذرہ باہر نہیں جا سکتا اسے کیوں تباہ کردیا اور وہ مقام کہ اگر نجس ہ وجائے تو فوراً پاک کرنا چاہئیے اسے شہر کی گندگی پھینکنے کامقام کیوں قرار دیا؟
ان سوالا ت کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ مسجد ضرارمسجد ہی نہ تھی ، در حقیقت وہ بت خانہ تھا ۔ مقدس جگہ نہ تھی افتراق اور نفاق کا مرکز تھا خدا کا گھر نہ تھا بلکہ شیطان کا گھر تھا۔ ظاہر نام اور نقاب کسی چیز کی حقیقت کو نہیں بدل سکتے۔
یہ ہے وہ عظیم درس جو مسجد ضرار کی داستان نے ہر دور کے تمام مسلمانوں دیا ہے ۔
اس بحث سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کی اسلام کی نظر اس قدر اہمیت ہے کہ اگر ایک مسجد کا دوسری مسجد کے قریب بنانا مسلمانوں کی صفوں کے درمیان تفرقہ بازی ، اختلاف اور شگاف پیدا ہونے کا باعث ہوتو وہ تفرقہ انداز مسجد غیرمقدس ہے ۔
۲۔ صرف نفی کافی نہیں : دوسرا درس جو ہمیں مندرجہ بالا آیات سے ملتا ہے یہ ہے کہ خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ مسجد ضرار میں نماز نہ پڑھو بلکہ اس مسجد میں نماز پڑھو جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔
یہ ”نفی “ اور ” اثبات“ اسلام کے اصلی شعار ” لاالہ الا اللہ “ سے لے کر اس کے ہر چھوٹے بڑے پرگرام میں جلوہ گر ہے یہ امر اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ ہمیشہہ رنفی کے ساتھ ایک اثبات ہونا چاہئیے تاکہ وہ خود جامہ عملی پہنے ۔ اگر ہم لوگوں کو برائی کے مراکز میں جانے سے منع کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے مقابلے میں پاک و پاکیزہ مراکز قائم کریں جو معاشرے او رجمیعت کی روح تسکین کا باعث ہوں ۔ اگر غلط تفریح سے لوگوں کو روکتے ہیں تو ہمیں صحیح تفریح کے مواقع فراہم کرنا چاہییں ۔ اگر ہم سامراجی مدارس اور تعلیمی ادراروں میں جانے سے منع کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ صحیح مراکز ِ تعلیم و تربیت مہیا کریں ۔ اگر ہم بے حیائی اور بے عفتی کی مذمت کرتے ہیں تو ہمیں نوجوانوں کے لئے شادی کے آسان وسائل فراہم کرنا چاہییں ۔
وہ لوگ جو اپنی تمام تر قوت ” نفی “ میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے لائحہ عمل میں اثبات کا کوئی نام و نشان نہیں ، انھیں یقین کرلینا چاہئیے کہ ان کی نفی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے کیونکہ سنت خلقت ہے کہ تما غرائز او رجذبات کو صحیح راستے سے سیراب کیا جائے ۔ کیونکہ اسلام کا یہ مسلمہ طریقہ ہے کہ ” لا “ کو ”الاّ“ کےس اتھ باہم ہونا چا ہئیے تاکہ اس سے حیات بخش توحید پیدا ہو سکے ۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ یہ درس ہے کہ جسے بہت سے مسلمان فراموش کرچکے ہیں اور پھر بھی شکایت کرتے ہیں کہ اسلامی پرگراموں میں پیش رفت کیوں نہیں ہوتی حالانکہ ان کے خیالات کے بر عکس اسلام کا پر گرام نفی میں منحصر نہیں ہے اگر وہ نفی اور اثبات کو ساتھ ساتھ رکھتے تو اسلامی پیش رفت حتمی اور یقینی ہوتی ۔
۳۔ دو بنیادی شرطیں : تیسرا قیمتی درس جو ہمیں مسجد ضرار کے واقعہ سے اور زیر بحث آیت سے ملتا ہے یہ ہے کہ ایک فعال او رمثبت دینی اور اجتماعی مرکز وہ ہے جو دو مثبت عناصر سے تشکیل پائے۔
پہلایہ کہ اس کی بنیاد اور مقصد پاک ہو ( اسس علی التقویٰ من اول یوم
دوسرا یہ کہ اس کے حامی اور نگہبان پاک ، صالح ، صاحب ایمان ، مضبوط دل او رمخلص ہوں (فیہ رجال یحبون ان یتطھروا (َ۔
ان دو منیادی ارکان کے نتیجہ اور مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔


۱۱۱۔ إِنَّ اللهَ اشْتَرَی مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اٴَنفُسَُمْ وَاٴَمْوَالَھُمْ بِاٴَنَّ لھُمْ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ اٴَوْفَی بِعھْدِہِ مِنْ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ وَذَلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ۔
۱۱۲۔ التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاکِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاہُونَ عَنْ الْمُنکَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِینَ۔
ترجمہ
۱۱۱۔ خدا مومنین سے ان کی جانیں اور مال خرید تا ہے کہ تاکہ ( ان کے بدلے ) ان کے لئے جنت ہو( اس طرح سے کہ ) وہ راہ ِخدا میں جنگ کرتے ہیں ، قتل کرتے ہیں ۔یہ سچا وعدہ اس کے ذمہ ہے جو اسنے توریت ، انجیل اور قراں میں ذکر فرمایاہے اور خدا سے بڑھ کراپنا وعدہ وفا کرنے والا کون ہے ۔ اب تمہارے لئے خوش خبری ہے اس خرید و فریخت کے بارے میں جو تم نے خدا سے کی ہے اور یہ ( تمہارے لئے ) عظیم کامیابی ہے ۔
۱۱۲۔ ( مومن وہ ہیں جو ) توبہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے ، حمد و ثنا کرنے والے ، سیا حت کرنے والے ، رکوع کر نے والے ، سجدہ کرنے والے ، برائی سے روکنے والے اور خدائی حود ( اور سر حدوں ) کی حفاظت کرنے والے ہیں اور ( ایسے ) مومنین کو خوشخبری دو۔

 

مسجد کے روپ میں بت خانہ ایک بے مثال تجارت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma