چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
سنگ دل اور صاحب ِ ایمان بادیہ نشین سابقین ِ اسلام

۱۔ آبادی کے بڑ ے مراکز: عظیم معاشروں اور آبادی کے بڑے مراکز کو اسلام جو اہمیت دیتا ہے وہ مندرجہ بالا آیت سے واضح ہوجاتی ہے یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسلام ایسے پس ماندہ ماحول سے اٹھا ہے کہ جس سے تمدن کی بو بھی نہ آتی تھی اس کے باوجود وہ تمدن کے اصلاحی عوامل کی خاص اہمیت کا قائل ہے اور ا س کی اس بات پرنظر ہے کہ جو لوگ شہر سے دور افتادہ علاقوں میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ ایمان اور مذہبی معلوم مات میں اس لئے پیچھے ہیں کہ ان کے پاس تعلیم و تربیت کے لئے کافی وسائل اور مواقع نہیں ہیں ۔ لہٰذا نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے :
و الزموا السواد الاعظم فان ید اللہ مع الجماعة
بڑے مراکز سے لازماً وابستہ رہو کیونکہ خدا کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے ۔ ( نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۷)۔
لیکن اس بات کا مفہو م یہ نہیں کہ سب لوگ شہروںکا رخ کرلیں اور دیہات جو شہروں کی آبادی کا باعث ہیں انھیں ویران کردیں بلکہ اس کے برعکس چاہئیے کہ شہروں سے علم ودانش دیہات کی طرف لائی جائے اور دیہات میں تعلیم و تربیت ، دین و ایمان اور بیداری و آگاہی کے فروغ اور تقویت کی کوشش کی جائے۔
اس میں شک نہیں کہ اگر دیہی عوام کو ان کی حالت پرچھوڑ دیا جائےاور انہیں شہری علوم و آداب، کتب آسمانی کی آیات اور پیغمبر خدا اور ہادیان برحق کی تعلیمات سے محروم رکھا جائے تو کفر ونفاق انھیں تیزی سے گھیر لے گا۔
دیہاتی لوگ صحیح تعلیم و تربیت زیادہ قبول کرتے ہیں کیونکہ ان میں صاف دل اور پاک فکر افراد زیادہ ہوتے ہیں جنھیں کسی کا ہاتھ نہیں لگا ہوتا اور ان میں شہری شیطنتیں اورسازشیں کم ہوتی ہیں ۔
۲۔ بادیہ نشین شہری : ”اعرابی “ اگر چہ ” بادیہ نشین “ کے معنی میں ہے لیکن اسلامی روایات میں اس کا ایک وسیع تر مفہوم لیا گیا ہے بالفاظ دیگر اس کا اسلامی مفہوم کسی علاقے سے وابستہ نہیں ہے بلکہ طرزِ فکر اور منطقہ فکری سے مربوط ہے جو لوگ اسلامی آداب و سنن اور تعلیم و تربیت سے دور ہیں ، اگر چہ شہر میں رہتے ہوں اعرابی ہیں اور اسلامی آداب و سنن سے آگاہ بادیہ نشین بی اعراب نہیں ہیں ۔
امام جعفر صادق سے منقول ایک مشہور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا :
من لم یتفقہ منکم فی الدین فھو اعرابی
تم میں سے جو شخص اپنے دین سے آگاہ نہیں ، اعرابی ہے ۔ 1
یہ فرمان ہماری مندرجہ بالا گفتگو پر ایک واضح گواہ ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے :
من الکفر التعرب بعد الھجرة
ہجرت کے بعد بادیہ نشینی اور تعرب کفر ہے ۔
نیز نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام نے منقول ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب میں سے معصیت کا ر لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :
و اعلموآ انکم صرتم بعد الھجرة اعراباً
جان لو کہ تم ہجرت کے بعد اعرابی ہو گئے ہو۔ ( نہج البلاغہ خطبہ ص ۱۹۲)
مندرجہ بالا دو احادیث میں اعرابی ہونے کو ہجرت کے بالمقابل بیان کیا گیا ہے ۔ اگر ہم اس طرف توجہ کریں کہ ہجرت کا وسیع مفہوم بھی مکانی اور علاقائی پہلو نہیں رکھتا بلکہ اس کی بنیاد محور کفر سے فکر کو محور ایمان کی طرف منتقل کرنا ہے تو اس سے اعرابی ہونے کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے، اسلامی آداب و سنن سے جاہلیت کے آداب و رسول کی طرف پھر جانا ۔
۳۔ قرب ِ الہٰی کا مفہوم : مندرجہ بالا آیات میں باایمان بادیہ نشین کے بارے میں ہے کہ وہ اپنے نفاق او رراہِ خدا میں خرچ کرنے کو قرب ِ خدا کا سبب سمجھتے ہیں خصوصاً جبکہ لفظ” قربات “ آیا ہے کہ جو کہ جمع اور نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ اس میں کئی قرب تلاش کرتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ قرب ِخدا سے مراد قربت ِ مکان او رمکانی نزدیکی نہیں ہے بلکہ مقام و مرتبہ اورقدر و منزلت کی نزدیکی ہے یعنی اس کی طرف جانا جو کمالِ مطلق ہے اور اس کی صفات ِ جمال و جلال کا سایہ اپنی روح و فکر پر ڈالنا۔

 

۱۰۰۔ وَالسَّابِقُونَ الْاٴَوَّلُونَ مِنْ الْمُھَاجِرِینَ وَالْاٴَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوھُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَاٴَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الْاٴَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا اٴَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ۔
ترجمہ
۱۰۰۔مہاجرین و انصار میں سے پیش قدمی کرنےو الوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے خدا خوش ہے اور وہ ( بھی )خدا سے راضی ہیں اور اس نے ان کے لئے باغاتِ بہشت فراہم کئے ہیں کہ جن درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور عظیم کامیابی ہے ۔

 


1۔ تفسیر نور الثقلین ج۲ صفحہ ۲۵۴۔
 
سنگ دل اور صاحب ِ ایمان بادیہ نشین سابقین ِ اسلام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma