مجاہدین کو مشکلات پر جزا ضرور ملے گی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
کیا صادقین سے مراد صرف معصومین ہیں ؟ چند قابل توجہ نکات

گذشتہ آیات میں جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں سر زنش آئی تھی ۔ زیر بحث دو آیات اس سلسلے میں ایک کلی قانون کے طور پر آخری اور بنیادی بحث کرتی ہیں ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : مدینہ کے لوگ او ربادیہ نشین جو اس مر کز اسلام شہر کے اطراف میں زندگی بسر کرتے ہیں انھیں حق نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ سے اختلاف کریں اور انھیں چھو ڑ کربیٹھ جائیں (مَا کَانَ لِاٴَھْلِ الْمَدِینَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِنَ الْاٴَعْرَابِ اٴَنْ یَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللهِ) ۔
اور نہ انھیں یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کو رسول کی جان کی حفاظت پر مقدم رکھیں ( وَلاَیَرْغَبُوا بِاٴَنفُسِھِمْ عَنْ نَفْسِہِ) ۔
کیونکہ امت کے رہبر ، اللہ کے رسول اور ملت اسلام کی بقا اور حیات کی علامت ہیں انھیں اکیلا چھوڑ دینا نہ صرف پیغمبر کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ دین ِ خدا اور خود مومنین کا وجود اور حیات کا بھی حقیقتاً خطرے میں پڑ جائے گی ۔
در حقیقت قرآن ایک جذباتی بیان کے ذریعے تمام اہل ایمان کو پیغمبر کی حفاظت کرنے پر ابھارتاہے اور مشکلات و مصائب میں ان کی حمایت اور دفاع کی ترغیب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری جان اس کی جان سے عزیز تر نہیں ہے اور نہ تمہاری زندگی اس کی حیات سے زیادہ قیمتی ہے ۔ کیا تمہارا ایمان اس کی جازت دیتا ہے کہ وہ ہستی جو بہت ہی زیادہ پر ارزش ہے اور جس کا وجود تمہاری نجات اور رہبری کے لئے ، وہ خطرے میں پڑجائے اور تم سلامت طلب اپنی جان اس کی جان بچانے کے لئے اس کی راہ میں قربانی سے دریغ کرو۔
مسلم ہے کہ مدینہ اور اطراف مدینہ کے لئے تاکید اس بنا پر ہے کہ اس زمانے میں مرکز اسلام مدینہ میں تھا ورنہ یہ حکم نہ مدینہ اور اس کے اطراف کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ ہی پیغمبر خدا کے ساتھ مخصوص ہے ۔ تمام مسلمانوں کی ہر دور میں ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رہبروں کو اپنی جان کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ گرامی اور عزیز سمجھیں اور ان کی حفاظت کی کوشش کریں او رمشکلات میں انھیں اکیلا نہ چھوڑیں کیونکہ ان کے لئے خطرہ پوری امت کے لئے خطرہ ہے ۔
اس کے بعد اس اجر و جزا کی طرف اشارہ ہے جو ہر قسم کی مشکلات کا مجاہدانہ مقابلہ کرنے سے مجاہدین کو نصیب ہوتی ہے ان مشکلات میں سے سات اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے :
۱۔ ”یہ اس بنا پر ہے کہ انھیں کوئی پیاس نہیں لگتی“( ذَلِکَ بِاٴَنَّھُمْ لاَیُصِیبُھُمْ ظَمَاٴ) ۔
۲۔ ” نہ انھیں کوئی خستگی اور تکان ہوتی ہے “ ( وَلاَنَصَبٌ) ۔
۳۔ ” نہ راہ خدا میں انھیں کوئی بھوک دامن گیر ہوتی ہے “ ( وَلاَمَخْمَصَةٌ فِی سَبِیلِ اللهِ) ۔
۴۔ ” نہ کفار کے غیظ و غضب کی وجہ سے کسی خطرے سے دوچار ہوتے ہیں “ ( وَلاَیَطَئُونَ مَوْطِئًا یَغِیظُ الْکُفَّارَ ) ۔
۵۔ ” اور نہ انھیں دشمن کی طرف سے کوئی ضرب لگتی ہے “ (وَلاَیَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَیْلًا) ۔
مگر یہ کہ اس کے ساتھ ان کے لئے عمل صالح لکھاجاتاہے ( إِلاَّ کُتِبَ لَھُمْ بِہِ عَمَلٌ صَالِحٌ ) ۔مسلم ہے کہ خدائے بزرگ و برترکی طرف سے انھیں ایک ایک کرکے جزا اور اجر ملے گا ، کیونکہ خدا نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے ( إِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ) ۔
۶۔ اسی طرح ” وہ تھوڑایا زیادہ مال راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ( وَلاَیُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً) ۔
۷۔ اورمیدان جہاد میں جاتے ہوئے لوٹتے ہوئے وہ کسی سر زمین کو عبور نہیں کرتے مگر یہ کہ یہ تمام قدم اور یہ اخراجات ان کے لئے ثبت ہو ہو جاتے ہیں اور لکھ لئے جاتے ہیں “ ( وَلاَیَقْطَعُونَ وَادِیًا إِلاَّ کُتِبَ لَھُمْ) ۔
تاکہ آخر خدا اعمال کے لحاظ سے انھیں بدلہ اور جزا دے ( لِیَجْزِیَھُمْ اللهُ اٴَحْسَنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ) ۔

 

کیا صادقین سے مراد صرف معصومین ہیں ؟ چند قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma