قیامت میں بت پرستوں کا ایک منظر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
سفیداور سیاہ چہروں والے تفسیر

ان آیات میں بھی گزشتہ مباحث جاری ہیں جو کہ مبداء ومعاد اور مشرکین کی کیفیت کے بارے میں تھیں ۔ ان آیات میں ان کی اس حالت ِ بے چار گی کی تصویر کشی کی گئی ہے جب کہ وہ عدلِ الہٰی کے حضور اور اس کی بار گاہ ِحساب و کتاب میں حاضر ہو ں گے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : اس دن کویاد کرو جس میں ہم تمام بندوں کی جمع اور محشور کریں گے ( وَیَوْمَ نَحْشُرھُمْ جَمِیعًا) ۔
اس کے بعد ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تم تمہارے معبود اپنی جگہ پر ٹھہرو تاکہ حساب کتاب دیکھا جائے “ ( ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا مَکَانَکُمْ اٴَنْتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ) ۔ ۱
وقفوا ھم انھم مسئولون۔انھیں ٹھہراوٴان سے سوال ہوتاہے ۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ زیر نظر آیت میں بتوں کو ” شراکاوٴکم“ کہا گیا ہے یعنی ” شریک “ جب کہ مشرکین بتوں کو خدا کا شریک قرار دیتے تھے نہ کہ اپنا ۔
یہ تعبیر درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بت در خدا کے شریک نہیں ہوتھے اور یہ بت برستوں کے موہوں خیالات تھے کہ جن کی بنا انھوں نے انھیں یہ حیثیت دے رکھی تھی یعنی وہ تمہارے انتخاب شدہ شریک تھے ۔
یہ بات بالکل اسی طرح ہے کہ کہیں کہ آوٴ دیکھوتمہارے اس استاد اور سربراہ نے کیا کچھ نہیں کیا( حالانکہ وہ اس کا استاد اور سربراہ نہیں ہے بلکہ مدرسہ کامعلم اورسر براہ ہے لیکن اس نے اسے اپنا لیا ہے ) ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: ان دوگروہوں ( معبوداور عابد) کو ہم ایک دوسرے سے الگ کردیں گے “ اور ہر ایک سے الگ الگ سوال کریں گے ( جیسا کہ تمام عدالتوں میں یہ معول ہے کہ ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ سوال کیا جاتاہے ) ۔ بت پرستوں سے سوال کریں گے کہ کس دلیل کی بناء پر تم نے ان بتوں کو خدا کا شریک قرار دیا تھا اور ان کی عبادت کرتے تھے اور معبودوں سے بھی پوچھیں گے کہ تم کس بناء پر معبود بنے تھے یا اس کام کے لئے تیار ہوئے تھے( فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ) ۔۲
جنہیں انھوں نے شریک بنایا تھا اس وقت وہ بول اٹھیں گے “ اورکہیں گے تم ہر گز ہماری پرستش نہیں کرتے تھے “ (وَقَالَ شُرَکَاؤُھُمْ مَا کُنْتُمْ إِیَّانَا تَعْبُدُونَ ) ۔تم درحقیقت و ہواوہوساور اپنے اوہام وخیالات کی پرستش کرتے تھے نہ کہ ہماری ۔
علاوہ ازیں تمہاری عبادت کرنا ہمارے فرمان سے نہ تھا اور نہ ہی ہماری رضا سے تھا اور ایسی عبادت دراصل عبادت ہی نہیں ہے ۔
اس کے بعد مزید تاکید کے لئے کہیں گے : ہمارے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے خدا کافی ہے کہ ہم کس طرح بھی تمہاری عبادت سے آگاہ نہ تھے

(فَکَفَی بِاللهِ شَہِیدًا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ إِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغَافِلِینَ ) ۔3
یہ کہ زیر نظر آیت میں بتوں اور شرکاء سے کون سے معبود مراد ہیں اور یہ کہ وہ کس طرح ایسی گفتگو کریں گے ، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
بعض نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ مراد انسانی اور شیطانی معبود ہیںیا پھر یہ فرشتوں میں سے ہیں کہ جو عقل و شعور رکھتے ہیں لیکن اس کے باجود انھیں یہ خبر نہیں ہے کہ کوئی گروہ ان کی عبادت کرتا ہے کیونکہ یاتووہ ان کی غیبت میں ایسی عبادت کرتے تھے اور یا ان کی موت کے بعد ان کی عبادت کی گئی ہے ( جیسے بعض انسانوں کی موت کے بعد ان کی عبادت کی گئی ہے ) ۔
لہٰذاان کی یہ گفتگو بالکل فطری اور طبعی ہو گی اس احتمال کی بناء پر یہ آیت سورہٴ سبا کی آیہ ۴۰ کی طرح ہوگی ، جس میں ارشادفرمایاگیا ہے :
ویوم یحشرھم جمیعاً ثم یقول للملائکة اھوٴلاء ایاکم کانوا یعبدون
وہ دن کہ جس میں خدا سب کو محشور کرے گا ۔ اس کے بعد فرشتوں سے کہے گا ! کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے ۔
دوسرا احتمال ہے کہ جسے بہت سے مفسرین نے ذکر کیا ہے یہ ہے کہ اس روز خدا تعالیٰ بتوں کو زندگی اور شعور عطا کرے گا اس طرح سے کہ وہ حقائق بیان کرسکیں گے مندر جہ بالاجملہ کہ جو بتوں کی زبانی نقل ہوا ہے کہ وہ خدا گواہ بنائیں گے وہ عبادت کرنے والوں کی عبادت سے غافل تھے اس سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے کیونکہ پتھر اور لکڑی کے بت بالکل کسی چیز کو نہیں سمجھتے ۔
آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام معبودوں کے لئے ہے البتہ جو معبود عقل و شعور رکھتے ہیں وہ اپنی زبان سے حقیقت بیان کریں گے لیکن جومعبود عقل و شعور نہیں رکھتے وہ زبان حال اور آثار ِ عمل کے ذریعے بات کریں گے بلکہ اسی طرح جیسے ہم کہتے ہیں کہ تیرے چہرے کی رنگت تیرے اندر کی بات کررہی ہے ۔
قرآن بھی سورہ ٴ فصلت آیہ ۲۱ میں کہتا ہے :
انسانی جلد اورچمڑے عالم ِ قیامت میں گفتگو کریں گے ۔
اسی طرح سورہ ٴ زلزال میں کہتا ہے : وہ زمینیں جن پر انسان زندگی بسر کرتا ہے ،حقائق بیان کریں گی ۔
یہ معاملہ دور حاضر میں کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے جب کہ ایک بے زبان ٹیپ ہماری تمام باتوں کو ریکارڈ کرتی ہے اور ضرورت کے وقت بیان کرتی ہے لہٰذا تعجب کا مقام نہیں کہ بت بھی اپنی عبادت کرنے والوں کی حقیقت کو ظاہر کریں ۔
بہر حال اس دن ، اس جگہ یا اس حالت میں جیسا کہ قرآن زیر نظر آخری آیت میں کہتا ہے : ہر شخص اپنے انجام دئے گئے اعمال کا نتیجہ دیکھے گا بلکہ خود انہیں دیکھے گا چاہے وہ عبادت کرنے والا ہو یا گمراہ معبود کہ جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا تھا، چاہے مشرک ہو یا مومن اور چاہے کسی گروہ یا کسی قبیلے سے ہو (ھُنَالِکَ تَبْلُو کُلُّ نَفْسٍ مَا اٴَسْلَفَتْ) ۔
” اور اس دن سب کے سب اللہ کی طرف پلٹ جائیں گے جو ان کا حقیقی مولا اورسرپرست ہے اور قیامت کی عدالت میں ظاہر ہو جائے گا کہ حکومت صرف اس کے زیرفرمان ہے “ ( وَرُدُّوا إِلَی اللهِ مَوْلَاھُمْ الْحَقِّ) ۔”آخر کا ر تمام بت اور جعلی معبود کہ جنہیں وہ غلط طور پر خدا کا شریک قرار دے چکے تھے گم اور نابود ہو جائیں گے “ ( وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ) ۔
کیونکہ وہ بندوں کے اسرار نہاں کے ظہور کا میدان ہے اور کوئی حقیقت ایسی نہیں رہے گی کہ جو اپنے آپ کو شکار نہ کردے ۔وہاں اصولی طور پر ایسی صورتحال ہے کہ نہ سوال کی ضرورت ہے نہ گفتگو کی بلکہ کیفیت حالات ہر چیز کی ترجمانی کرے گی او ربات چیت کی ضرورت نہیں ہوگی ۔

۳۱۔قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ اٴَمَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ وَمَنْ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ فَسَیَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ اٴَفَلاَتَتَّقُونَ ۔
۳۲۔ فَذَلِکُمْ اللهُ رَبُّکُمْ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلَالُ فَاٴَنَّا تُصْرَفُونَ۔
۳۳۔ کَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِینَ فَسَقُوا اٴَنّھُمْ لاَیُؤْمِنُونَ۔

ترجمہ

۳۱۔ کہہ دو : کوتمہیں آسمان وزمین سے روزی دیتا ہے یا کون کان اور آکھوں کا مالک ( اور خالق ) ہے اور کوئی زندہ کو مردہ سے نکلتا ہے اور مردہ کوزندہ سے نکالتا ہے اور کو ن ( دنیا کے ) امور کی تدبیر کرتا ہے جلد ہی وہ ( جواب میں ) کہیں گے : تو کہوکہ پھر کیوں تقویٰ اختیار نہیں کرتے ہو ( اور خدا سے نہیں ڈرتے ہو) ۔
۳۲۔ اور یہ تمہارا اللہ ، تمہارا حقیقی پر وردگار ، تو اس صورت میں حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ ہے ؟ پس کویں ( اس کی عبادت سے ) رخ پھیر تے ہو؟
اس طرح سے تیرے پر وردگار کا حکم فاسقوں پر مسلم ہوا ہے کہ وہ ( اس سر کشی اور گناہ کے بعد ) ایمان نہیں لائیں گے ۔
 


۱۔ ”مکانکم“ اصل میں فعل مقدرکا مفعول ہے اور حقیقت میں یوں تھا” الزموامکانکم انتم وشرکائکم حتیٰ تسئلوا“۔یہ جملہ فی الحقیقت سورہ الصاصفات کی آیہ ۲۴ کے مشابہ ہے جہاں فرمایاگیا ہے :
۲۔”زیلنا“ ” تزییل “ کے مادہ سے ہے اور جدا کرنے کے معنی میں ہے نیز جیسا کہ بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ اس کا مادہ ثلاثی زال یزیل ہے جو جدا ہونے کے معنی میں ہے ۔ نہ کہ زال یزول کے مادہ سے زوال قبول کرنے کے معنی میں ہے ۔
3-مندر جہ بالا جملے میں لفظ ” ان “ اصطلاح کے مطابق ثقیلہ سے خفیفہ ہے اور تاکید کے لئے ہے اور جملے کا معنی یہ ہے :۔ اننا عن عبادتکم لغافلین ۔
یعنی  ہم یقینا تمہاری عبادت سے غافل تھے ۔
سفیداور سیاہ چہروں والے تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma