تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
چند اہم نکاتشان ِ نزول

قرآن مجید بحث کا رخ دوبارہ منافقین کی طرف موڑ رہا ہے فرمایا گیا ہے : ان لوگوں کے درمیان جو تمہارے شہر ( مدینہ) کے اطراف میں ہیں ایک گروہ منافقین کا موجود ہے (وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنْ الْاٴَعْرَابِ مُنَافِقُونَ
یعنی صرف داخلی منافقین پر توجہ نہ رکھو بلکہ ہوشیا ر رہ کر باہر کے منافقین پر بھی نگاہ رکھو ۔ان کی خطر ناک کار گذاریوں پر نظر رکھو اور ان پر بھی ۔
لفظ ” اعراب “ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے عام طور بادیہ نشین عروبوں کے لئے بولاجاتا ہے ۔
پھر مزید فرمایا گیا ہے : خود مدینہ میں اور اس شہر کے رہنے والوں میں ایک گروہ ان لوگوں کا ہے کہ جن کا نفاق سرکشی کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور وہ اس کے سخت پابند ہیں اور اس میں تجربہ کار ہیں ( وَمِنْ اٴَھْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ
مردودا“ مادہ ”مرد“ ( بر وزن ”سرد“) سے ہے اس کا مطلب ہے مطلق طغیان سر کشی او ربے گانگی ۔ اصل میں یہ ”بر ہنگی“ اور ”تجرد“ کے معنی میں آیا ہے ۔ اسی بنا پر جن لڑکوں کے چہروں پر بال نہ اگے ہوں انھیں ”امرد“ کہتے ہیں ۔” شجرة مرداء “ ایسے درخت کو کہتے ہیں جس پربالکل پتے نہ ہوں اور ”مارد“ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اطاعت حکم سے بالکل نکل گیا ہو۔
بعض مفسرین اور اہل لغت نے اس مادہ کا ایک معنی ”تمرین “ بھی بیان کیا ہے ((” تاج العروس اور” قاموس“میں بھی اس کا ایک معنی ”تمرین “ ذکر ہوا ہے )۔ یہ شاید اس بناء پر ہو کہ کسی چیز سے مطلق تجرد او رمکمل خروج بغیر تمرین کے ممکن ہیں نہیں ۔
بہر حال یہ منافقین حق و حقیقت سے اس قدر عاری اور اپنے کام میں اتنے ماہر ہیں کہ وہ اپنے آپ کو سچے مسلمانوں میں اس طرح شامل رکھتے ہیں کہ کسی کو ان کے منافق ہونے کا پتہ نہیں ۔ داخلی اور خارجی منافقین کے بارے میں تعبیر کا یہ فرق جو زیرنظر آیت میں دکھائی دیتاہے گویا اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ داخلی منافق اپنے کام میں زیادہ ماہر ہیں لہٰذا وہ طبعاً زشیادہ خطر ناک ہیں اور مسلمانوں کو چاہئیے کہ ان پر کڑی نظر رکھیں اگر چہ خارجی منافقین سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئیے۔
اسی لئے اس کے بعد بلا فاصلہ فرمایا گیا ہے : تم انھیں نہیں پہچانتے لیکن ہم انھیں پہچانتے ہیں ( لاَتَعْلَمھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ )۔البتہ یہ پیغمبر کے عمومی علم کی طرف اشارہ ہے مگر یہ اس بات کے منافی نہیںکہ وحی اور تعلیم الہٰی کے ذریعے آپ ان کے اسرار سے پوری طرح واقف تھے ۔
آیت کے آخر میں اس گروہ کےلئے سزا اور سخت عذاب کو یوں بیان کیا گیا ہے : ہم عنقریب انھیں دو مرتبہ عذاب دیں گے اور اس کے بعد و ہ ایک عذاب عظیم کی طرف بھیجے جائیں گے (سَنُعَذِّبُھُمْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلَی عَذَابٍ عَظِیم
اس میں کوئی شک نہیں کہ” عذاب عظیم “روز قیامت کے عذاب اور سزاوٴں کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ کہ اس سے پہلے دو عذابوں کا جو ذکر ہے اس سے کیامراد ہے اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے او رانھوں نے بہت سے احتمالات ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ تر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک عذاب وہی اجتماعی سزا جو ان کی رسوائی اور ان کے اسرار منکشف ہو جانے کے بعد تمام معاشرتی وقار اور اہمیت کھو جانے کی صورت میں ہو گا اس کا ذکر شاید گذشتہ آیا ت میں موجود ہے اور بعض احادیث میں بھی آیا ہے کہ جب ان لوگوں کا معاملہ خطر ناک مراحل تک پہنچ جا تا تو رسول اللہ ان کا تعارف کروادیتے یہاں تک کہ انھیں مسجد سے بھی نکال دیتے ۔
ان کے لئے دوسری سزا اور عذاب وہی ہے جس کی طرف سورہ ٴ انفال کی آیہ۵۰ میں اشارہ ہو چکا ہے ۔ جہاں فرما یا گیا ہے :
ولو تریٰ اذیتوفی الذین کفروا الملآئکة یضربون وجوھھم و ادبار ھم الخ
اگرتو کافر وںکو اس وقت دیکھے جب موت کے فرشتے ان کی جان لے رہے ہوں کہ کس طرح فرشتے ان کے چہروں اور پشتوں پر ماررہے ہیں او رانھیں سزا دے رہے تو تجھے ان کی حالت پر افسوس ہو گا -
یہ احتمال بھی ہے کہ دوسرا عذاب اندرونی اذیت او رروحانی سزا اور تکلیف کی طرف اشارہ ہو کہ جو مسلمانوں کی ہر طرف سے کامیابی کے زیر اثر انھیں پہنچتی ہے ۔


۱۰۲۔ وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِھِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَی اللهُ اٴَنْ یَتُوبَ عَلَیْھِمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ۔

ترجمہ
۱۰۲۔ اور دوسرے گروہ نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہے اور صالح اور غیر صالح اعمال کو آپس میں ملادیا ہے امید ہے خدا ان کی توبہ کرلے۔ اللہ غفور و رحیم ہے ۔

 

چند اہم نکاتشان ِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma