چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
خدائی سزا میرے ہاتھ میں نہیں ہے خدائی سزا میں شک نہ کرو

۱۔ قرآنی آیت سے غلط استدلال : جیساکہ سورہ اعراف کی آیہ ۳۴ کے ذیل میں ہم نے کہا ہے کہ ہمارے زمانے کے بعض دین ساز لوگوں نے ”لکل امة اجل “ جیسی آیات سے جو قرآن میں دو مرتبہ آئی ہے ، پیغمبر اسلام کی خاتمیت کی نفی کے لئے استدلال کیا ہے اور یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ہر دین و مذہب آخر کار ختم ہو جاتا ہے او راپنی جگہ دوسرے کو دے دیتا ہے حالانکہ لفظ ” امت “ گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے نہ کہ مذہب کے معنی میں خصوصاً ایک مذہب کے پیرو کار ۔
ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ قانون ِ موت و حیات افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ملتوں اور گروہوں پر بھی یہ قانون حاوی ہے ، اور جب وہ ظلم و گناہ اختیار کریں گے تو ختم ہو جائیں گے ، خصوصاً زیر بحث آیت سے پہلے اور بعد کی آیات کی طرف توجہ سے یہ حقیقت واضح پر ثابت ہ وجاتی ہے کہ یہاں کسی مذہب کے منسوخ ہونے سے متعلق گفتگو نہیں ہے بلکہ نزول عذاب اور ایک گروہ و ملت کے نابود اور ختم ہو جانے کے بارے میں ہے کیونکہ قبل و بعد کی دونوں آیات دنیاوی عذاب اور سزا کے بارے میں بات کررہی ہیں ۔
۲۔ دنیا میں مسلمانوں کے لئے سزا : مندرجہ بالا آیات کی طرف توجہ کرنے سے یہ سوال پید اہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں کے معاشرے بھی اس دنیامیںسزا و عذاب میں گرفتار ہو ں گے ؟
اس سوال کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ امت دنیا وی عذاب سے مستثنیٰ ہے بلکہ یہ قانون تمام امتوں اور ملتوں کے بارے میں ہے اور جو ہم نے بعض آیا ِ قرآن ( مثلاً انفال ۳۳) میں پڑھا ہے کہ خدا اس امت کو سز انہیں دے گا وہ دو میں سے ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے پہلی پیغمبر اکرم کا امت میں موجود ہونا اور دوسری استغفار اور گناہ سے توبہ کرنا ۔ لہٰذا یہ فرمان غیرمشروط ہے ۔
۳۔ نزول اعذاب کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی : مندرجہ باآیات دو بارہ اس حقیقت کو تاکید کرتی ہیں کہ نزول ِ عذاب کے وقت توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں او ر عذاب کے وقت کی پشیمانی بے فائدہ ہے ۔ اس کی دلیل بھی واضح ہے اور وہ یہ کہ اس حالت میں توبہ اجباری اور اضطراری صورت میں ہوگی اور ایسی توبہ کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی ۔

 

۵۳۔وَیَسْتَنْبِئُونَکَ اٴَحَقّ ھُوَ قُلْ إِی وَرَبِّی إِنَّہُ لَحَقٌّ وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ۔
۵۴۔ وَلَوْ اٴَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاٴَرْضِ لَافْتَدَتْ بِہِ وَاٴَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاٴَوْا الْعَذَابَ وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لاَیُظْلَمُونَ ۔
۵۵۔ اٴَلاَإِنَّ لِلَّہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ اٴَلاَإِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَھُمْ لاَیَعْلَمُونَ ۔
۵۶۔ھُوَ یُحْیِ وَیُمِیتُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ۔

 

ترجمہ

۵۳۔ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا وہ ( خدائی سزا والا وعدہ ) حق ہے ؟ کہہ دو خدا کی قسم یقینا حق ہے اور تم اس سے بچ نہیں سکتے ۔
۵۴۔ اور جس نے ظلم کیا ہے اگر وہ تمام کچھ جو روئے پر ہے اس کے اختیار میں ہو تو وہ ( سب کچھ عذاب کے خوف سے ) اپنی نجات کے لئے دے گا اور جب عذاب کے دیکھے گا تو (پشیمان ہو گا لیکن ) اپنی پشیمانی کو چھپائے گا ( کہ کہیں زیادہ سوار نہ ہو ) اور ان کے درمیان عدل سے فیصلہ ہو گا او ران پر ظلم و ستم نہیں ہوگا ۔
۵۵۔ آگاہ ہو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کا ہے ۔ آگاہ رہو کہ خد اکا وعدہ حق ہے ۔
۵۶۔ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جاوٴ گے ۔

 


۱- جو کچھ ہم نے سطور بالا میںکہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ زیر نظر قضیہ شرطیہ پر مشتمل ہے جس کی شرط ذکر ہوئی ہے اور جزا مقدر ہے ، او ر” ماذا یستعجل منہ المجرمون “ ایک مستقل جملہ ہے ۔ آیت کی تقدیر اسی طرح ہے : ( اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتًا اٴَوْ نھَارًا کنتم تقدرون علی دفعہ او تعدونہ امرا محالا فاذا کان الامر کذٰلک ماذا یستعجل منہ المجرمون ) ۔ یعنی  کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر تم رات یا دن کے وقت عذاب آجائے تو تم اسے روکنے کی قدرت رکھتے ہو یا اسے امر محال سمجھتے ہو۔ جب معاملہ ایسا ہے تو پھر مجرمین آخر کس طرح اس کی تعجیل چاہتے ہیں ۔
 

خدائی سزا میرے ہاتھ میں نہیں ہے خدائی سزا میں شک نہ کرو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma