زکوٰة فرد او رمعاشرے کو پا ک کرتی ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
توبہ کرنے والے چند اہم نکات

پہلی زیر نظر آیت میں ایک اہم اسلامی حکم یعنی زکوٰة کی طرف اشارہ ہوا ہے اور رسول اللہ کو ایک عمومی قانون کے طور پر حکم دیا گیا ہے کہ ان کے اموال سے صد قہ یعنی زکوٰة وصول کرو (مِنْ اٴَمْوَالِھمْ صَدَقَةً
لفظ ”من “ جو تبعیض کے لئے ہے نشاندہی کرتا ہے کہ زکوٰة مال کا ایک حصہ ہوتا ہے پورا مال نہیں اور نہ ہی اس کا پورا حصہ زکوٰة قرار پاتا ہے ۔
اس کے بعد زکوٰة کے اخلاقی ، نفسیاتی اور اجتماعی فلسفہ کے دو پہلو وٴں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس طرح سے تو انھیں پا ک کرتا ہے اور نشو و نما دیتا ہے ( تُطَھِّرُہُمْ وَتُزَکیھِمْ بِھَا )۔ انھی اخلاقی رذائل، دنیا پرستی او ربخل سے پاک کرتا ہے اور انسان دوسری ، سخاوت اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری کے لئے نشو و نما دیتا ہے ۔
اس سے قطع نظر معاشرے کے ایک طبقے کی محرومیت سے جو خرابیاں ، افلاس ، گناہ اور طبقاتی تفاوت جنم لیتی ہے ۔ اسے الہٰی فریضہ انجام دے کر ختم کرو اورمعاشرے کو ان آلودگیوں سے پا ک کردو ۔ علاوہ بر این اجتماعی وابستگی ، نمو ، اقتصادی پیش رفت ایسے ہی کاموں سے ہوتی ہے اس بناء پر زکوٰة کا حکم ایک طرف سے معاشرے اور فرد کو پاک کرتا ہے اور دوسری طرف انسانوں میں فضیلت کے بیج کی نشو و نما کرتا ہے ۔ نیز معاشرے کی پیش رفت کا سبب بھی ہے اور زکوٰة کے بارے میں پیش کی جا سکنے والی یہ بہترین تعبیر ہے یعنی ایک طرف سے یہ آلودگیوں کو دھو ڈالتی ہے دوسری طرف ارتقاء و تکامل کا ذریعہ ہے ۔ آیت کے معنی میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیاہے کہ ” تطھرھم“کافاعل زکوٰة ہو اور ” تزکیھم“ کا فاعل پیغمبر اکرم ہوں ۔ اس بناء پر آیت کا معنی یہ ہوگا کہ زکوٰة انھیں پاک کرتی ہے اور اس کے ذریعے تو ان کی نشو ونما کرتاہے لیکن زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ دونوں کا فاعل ذات ِ پیغمبر ہے ۔ جیسا کہ ہم نے ابتداء میں معنی کیاہے اگر چہ نتیجہ کے لحاظ سے ان دونوں تعبیروں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے ۺ جس وقت وہ زکوٰة ادا کریں تو ان کے لئے دعا کرو اور ان پر درود بھج دو( وَصَلِّ عَلَیھِمْ
یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ واجب ذمہ داریاں ادا کرنے پر بھی لوگوں کی قدر دانی کی جانا چاہئیے اور خصوصیت سے معنوی اور نفسیاتی طریقے سے انھیں تشویق دلانی چاہئیے لہٰذ اروایات میں ہے کہ جب رسول اللہ کی خدمت میں زکوٰة لے کر آتے تھے تو آپ ”اللھم صل علیھم “ کہہ کر ان کے لئے دعا کرتے تھے ۔
بعد میں مزید فرمایا گیا ہے : تمہارا یہ دعا کرنا اور درود بھیجنا ان کے قلبی سکو کا سر مایہ ہے (إِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لَھُمْ
کیونکہ اس دعا سے ان کے قلب و روح پر رحمت ِ الہٰی کا نزول ہوتا ہے اور وہ اسے محسوس کرتے ہیں علاوہ ازیں رسول اللہ یا ان کے جانشین لوگوں کی جو قدر دانی کرتے ہیں اور ان کے مال کی زکوٰة لیتے ہیں تو انھیں ایک قسم کا روحانی اور فکری سکون پہنچاتے ہیں یعنی اگر ظاہراً وہ ایک چیز دے بیٹھے ہیں تو اس سے بہتر چیز انھوں نے حاصل کی ہے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہم نے آج تک نہیں سنا کہ مالیات پر مامور افراد کی ذمہ داری ہو کہ وہ لوگوں کا شکریہ ادا کریں لیکن یہ ایک مستحب حکم اسلامی لائحہ عمل میں موجود انسانی اقدار کے گہرے احترام کو واضح کرتا ہے ۔
آیت کے آخر میں گذشتہ بحث کی مناسبت سے ارشاد ہو تاہے : خدا سننے والا اور جاننے والا ہے ( وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ)۔وہ پیغمبر کی دعا بھی سنتا ہے اور زکوٰة دینے والوں کی نیت کو بھی جانتا ہے ۔

 

توبہ کرنے والے چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma