تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
اس سورہ کے مضامین اور فضیلت خدا شناسی اور قیامت

اس سورہ میں پھر ہمیں حروف مقطعات کا سامناہے اور یہ ہیں الف ، لام اور راء۔ سورہٴ بقرہ ، سورہ آل عمران اور سورہ اعراف کی ابتداء میں ہم ایسے حروف کے بارے میں کافی بحث کر چکے ہیں ۔ آئندہ بھی انشاء اللہ اس سلسلے میں مناسب موقع پر بحث کریں گے ، اور اس میں نئے مطالب کا اضافہ کریں گے ۔
حروف مقطعات کے بعد پہلے آیات قرآن کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکیا گیا ہے -: وہ کتاب حکیم کی آیات ہیں ۔
( الر تِلْکَ آیاتُ الْکِتابِ الْحَکیمِ )
” یہ “ ( اسم اشارہ قریب کی )بجائے ” وہ “ ( اسم اشارہ بعید ) سے ابتداء کی گئی ہے اس کی نظیر سورہ بقرہ کی ابتدا میں بھی موجود ہے یہ قرآن کریم کی لطیف تعبیرات میں سے شمار ہوتی ہے اور یہ قرآن کریم کے مفاہیم کی عظمت اور بلندی کے لئے کنایہ ہے۔ کیونکہ سامنے پڑے ہوئے اور عام مطالب کے لئے زیادہ تر اسم اشارہ قریب استعمال کیا جاتا ہے لیکن اہم مطالب جو بلند سطح کے ہوں جو گویا آسمانوں کی بلندی میں ایک افق اعلیٰ میں موجود ہیںانھیں اسم اشارہ بعید کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اتفاق کی بات ہے کہ ہم روزمرہ کی تعبیرات میں بھی ایسی تعبیر استعمال کر تے ہیں مشلابعض اشخاص کی عظمت کے اظہار کے لیے ” آنجناب“ یا”آنحضرت“استعمال کرتے ہیں اگرچہ وہ پاس ہی بیٹھے ہوں لیکن انکساری کے اظہار کے لئے ” اینجانب “ کہا جاتا ہے ۔
آسمانی کتاب یعنی قرآن کی تعریف کے لئے لفظ ” حکیم “ استعمال کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آیت قرآنی استحکام نظم و ضبط اور حساب و کتاب کی حامل ہیں اور ہر قسم کے باطل سے ، فضول باتوں سے اور ہزل گوئی سے دور ہیں اور قرآن حق کے سوا کچھ نہیں کہتا اور سوائے راہ حق کے کسی چیز کی دعوت نہیں دیتا ۔
اس اشارے کی مناسبت سے جو پہلی آیت میں قرآن مجید میں وحی آسمانی کے لئے ہے دوسری آیت میں رسول اللہ کے بارے میں مشرکین کا ایک اعتراض بیان کیا گیا ہے یہ وہی اعتراض ہے جس کا قرآن مجید میں کئی مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اس کا تکرار نشان دہی کرتا ہے کہ مشرکین یہ اعتراض بار بار کیا کرتے تھے اور وہ یہ کہ آسمانی وحی کیوں خدا کی طرف سے ایک انسان پر نازل ہوئی ہے اور عظیم رسالت کی یہ ذمہ داری کسی فرشتے کے ذمہ کیوں نہیں ہوئی ۔
ایسے سوالات کے جواب میں قرآن کہتا ہے کیا لوگوں کے لئے یہ امر باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی ہے ۔
(اٴَ کانَ لِلنَّاسِ عَجَباً اٴَنْ اٴَوْحَیْنا إِلی رَجُلٍ مِنْھمْ )
درحقیقت ان کے اعتراض کا جواب لفظ ”منھم“ (ان کی نوع سے )کے ذریعہ دیا گیا ہے یعنی اگر رہبروراہنما اپنے پیرو کاروں کا ہم نوع ہو اور ان کے درداور تکالیف کو جانے اور ان کی ضروریات سے آگاہ ہو تو کوئی تعجب کا مقام تو نیہں ہے بلکہ تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ انکی نوع میں سے نہ ہواوران کی کیفیت سے بے خبر ہو نے کی وجہ سے ان کی رہبری نہ کر سکے ۔
اس کے بود اس آسمانی وحی سے مضمون کا دو چیزوں میں خلاصہ بیان کیا گیا ہے پہلی یہ کہ ہم نے تیری طرف وحی کی ” تا کہ لوگوں کو کفر و گناہ کے انجام سے ڈر اوٴ ( اٴَنْ اٴَنْذِرِ النَّاسَ ) ۔ اور دوسرا یہ کہ ” صاحب ایمان افراد کو بشارت دو کہ ان کے لئے بارگاہ خدا میں ” صدق ہے “
( اٴَنْ اٴَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذینَ آمَنُوا اٴَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِم)
” قدم صدق “ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلہ میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ان کی پیش کردہ تمام تفاسیر میں سے تین ایسی ہیں جن میں سے ایک تفسیر قابل قبول ہے یا پھر تینوں اکھٹی قبول کی جا سکتی ہیں ۔
پہلی یہ کہ اس طرف اشارہ ہے کہ ایمان ” فطری سابقہ “ رکھتا ہے اور حقیقت میں مومنین نے ایمان کو ظاہر کرکے اپنے تقاضائے فطرت کی تصدیق اور تاکید کی ہے ( کیونکہ ” ودم “ کا ایک معنی ” سابقہ “ ہے ) جیسا کہ کہتے ہیں :
لفلان قدم فی الاسلام او قدم فی الحرب ۔
یعنی ۔۔۔۔۔فلاں شخص اسلام یا جنگ میں سابقہ رکھتا ہے ۔
دوسری ۔۔۔۔ یہ کہ یہ مسئلہ معاد و قیامت اور آخرت کی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ” قدم “ کا ایک معنی ” مقام “ اور ” منزلت “ بھی ہے ( اس مانسبت سے کہ انسان اپنے پاوٴں کے ساتھ اپنی منزل میں داخل ہوتا ہے ) یعنی صاحب ایمان افراد کے لئے خدا کی بارگاہ میں مسلما اور یقینا مقام و منزلت ہے کہ جسے کوئی چیز متغیر نہیں کر سکتی ۔
تیسری ۔۔۔۔۔ یہ کہ ” قدم “ پیشوا اور رہبر کے معنی میں ہے یعنی مومنین کے لئے سچا پیشوا اور رہبر بھیجا گیا ہے اس آیت کے ذیل میں سنی شیعہ تفاسیر میں متعدد روایات میں ” ْقدم صدق “ کی تفسیر پیغمبر اکرم کی ذات یا ولایت علی . سے کی گئی ہے یہ روایات اس معنی کی موٴید ہیں ۔ ۱
جیسا کہ ہم نے کہا ہے ، ہو سکتا ہے اس تعبیر کامقصد ان تمام امور کی بشارت دینا ہو ۔
آیت کے آخر میں پھر ایک ایسے اتہام کی طرف اشارہ ہے جو مشرکین بار ہا رسول اللہ پر باندھتے تھے ارشاد ہوتا ہے : کافر کہتے ہیں کہ یہ شخص واضح جادو گر ہے۔ ( قالَ الْکافِرُونَ إِنَّ ہذا لَساحِرٌ مُبین۔)
لفظ ” انّ“ لام تاکید اور صفت ” مبین“ یہ سب اس تاکید کی علامت ہے جو وہ اس تہمت کے بارے میں کرتے تھے اور ” ھذا “ (جو کہ اسم اشارہ قریب ہے ) کی تعبیر اس لئے تھی کہ وہ مقام پیغمبر کی تحقیر کریں ۔ رہا یہ سوال کہ وہ پیغمبر اکرم کی طرف جادو کی نسبت کیوں دیتے ہیں ، تو اس کا جواب واضح ہے کیونکہ آپ کی پر اعجاز باتوں ، در خشاں منصوبہ جات ، روشن قوانین اور دیگر معجزات کا ان کے پاس کوئی اطمینان بخش جواب نہیں تھے ۔ سوائے اس کے کہ ان کی خارق عادت اور غیر معمولی ہونے کو وہ جادو قرار دے دیں تا کہ اس طرح وہ سادہ لوح افراد پر جہالت کا پردہ ڈال سکیں ۔ رسول اللہ کے دشمن کی طرف سے ایسی تعبیریں خود اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ کے کام خارق عادت اور غیر معمولی تھے جو لوگوں کے قلب و نظر کو اپنی طرف جذب کرلیتے تھے ۔ خصوصا ان کا قرآن مجید کو جادو قرار دینا اس بات کازندہ شاہد ہے کہ وہ اس آسمانی کتاب کی انتہائی قوت جاذبہ سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے اس تہمت کا سہارا لیتے تھے ۔
انشاء اللہ متعلقہ آیات کے ذیل میں اس سلسلے میں ہم پھر گفتگو کریں گے ۔

 

۳۔ إِنَّ رَبَّکُمُ اللَّہُ الَّذی خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضَ فی سِتَّةِ اٴَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ ما مِنْ شَفیعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِہِ ذلِکُمُ اللَّہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوہُ اٴَ فَلا تَذَکَّرُونَ ۔
۴۔ إِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمیعاً وَعْدَ اللَّہِ حَقًّا إِنَّہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعیدُہُ لِیَجْزِیَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ وَ الَّذینَ کَفَرُوا لَھُمْ شَرابٌ مِنْ حَمیمٍ وَ عَذابٌ اٴَلیمٌ بِما کانُوا یَکْفُرُون۔
ترجمہ
۳۔ تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اس کے بعد عرش ( قدرت ) پر بقرار ہوا اور ( عالم کے ) کام کی تدبیر کی ۔ اس کے اذن کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ۔ یہ ہے خدا تمہارا پروردگار ، پس اس کی پرستش کرو ، کیا تم غور نہیں کرتے ۔
۴ ۔ تم سب کی باز گشت اس کی طرف ہے ۔ خدا نے حق وعدہ فرمایا ہے اس نے مخلوق کا آغاز کیا اس کے بعد انہیں پلٹائے گا تا کہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو یاد عادلانہ جزا دے اور جو کافر ہوگئے ہیں ان کے پینے کے لئے جلانے والی مائع اور درد ناک عذاب ہے کیونکہ انھوں نے کفر اختیار کیا ہے ۔

 


۱ تفسیر برہان۔ ج ۲ ص ۱۷۷ اور تفسیر قرطبی ۔ ج ۵ ص ۳۱۴۵
 
اس سورہ کے مضامین اور فضیلت خدا شناسی اور قیامت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma