ایک سوال اور اس کا جواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
واضح حکم کے بعدسزا گنہ گاروں کے لئے معاشرتی دبا وٴ

بعض مفسرین اور محدثین کا خیال ہے کہ مندرجہ باآیت اس پر دلیل کہ مستقلات عقلیہ جب تک شرعی طریق سے بیان نہ ہوں کوئی شخص ان کے بارے میں مسٴلویت نہیں رکھتا ( مستقلات عقلیہ ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اچھائی یا برائی کو انسان حکم ِ شریعت کے بغیر اپنی عقل سے سمجھ لیتا ہے مثلاً ظلم کی بدی، عدالت کی اچھائی یا چوری ، جھوٹ، تجاوز اور قتل فنس وغیرہ کی برائی ) گویا ان کے خیال کے مطابق تمام احکام ِ عقلی کی حکم ِ شریعت کے ذریعہ تائید ہو نا چاہئیے تاکہ لوگوں کی ان کے بارے میں مسٴولیت ہو۔ اس خیال کی بناء پر شریعت کے نزول سے پہلے لوگ مستقلات عقلیہ کے بارے میں کوئی بھی جوابدہی نہں رکھتے تھے لیکن اس کا خیال بطلان واضح ہے کیونکہ جملہ ” حتیٰ یبین لھم “( یہاں تک کہ ان سے بیان کرے ) ان کا جواب دیتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ یہ آیت اور ایسی آیات ان مسائل سے مربوط ومخصوص ہے جو پروہٴ ابہام میں ہیں اور بیان ووضاحت کے محتاج ہیں اور یہ مسلم ہے کہ مستقلات عقلیہ کے بارے میں یہ بات نہیں ہو سکتی کیونکہ ظلم برا ہے اور عدالت اچھی ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے جو وضاحت کا محتاج ہو۔
جولوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ اس طرف متوجہ نہیں ہیں کہ اگر یہ بات صحیح ہو تولوگوں پر ضرور ی نہیں رہتا کہ انبیاء کی دعوت پر لبیک کہیں اور ان کی صداقت معلوم کرنے کے لئے دعویٴ نبوت کے مدعی اور اس کے معجزات کا مطالعہ کریں کیونکہ ان کے تو ابھی پیغمبر کی سچائی اور حکم الٰہی واضح نہیں ہوا( لہٰذا ضروری نہیں کہ وہ ان کے دعویٰ کی تحقیقی کریں اور کا مطالعہ کریں ۔ لہٰذا جیسے مدعیان ِ نبوت کے دعویٰ کا مطالعہ عقل و خرد کے حکم سے واجب ہے اور اصطلاح کے مطابق مستقلات عقلیہ میں سے ہے ایسے ہیں دیگر مسائل جنھیں عقل و خرد وضاحت سے پہچانتی ہے ، واجب الاتباع ہیں ۔
اس گفتگو کی شاہد وہ تعبیر ہے جو طرق اہل بیت (ع) کی بعض احادیث میں نظر آتی ہے ۔ کتاب ِ توحید میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع) نے اس آیت کی تفسیر میں فر مایا :
حتیٰ یعرفھم مایرضیہ و ما یسخطہ
یعنی  خد اکسی کو عذاب نہیں کرتا جبتک اسے سمجھا نہ لے کہ کونسی چیزیں اس کی رضا کا سبب ہیں اور کون سی اس کے غضب کا موجب ہیں ۔ 1
بہر حال یہ آیت اور اس قسم کی دیگر آیات ایک کلی حکم اور اصولی قانون کی بنیاد شمار ہوتی ہیں اور وہ یہ کہ جب تک کسی چیز کے وجوب یا حرمت کے لئے ہمارے پاس دلیل نہ ہو اس کے بارے میں ہماری کوئی مسٴولیت نہیں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے لئے تمام چیزیں جائز اور مباح ہیں مگریہ کہ ان کے وجوب یا حرمت کے لئے کوئی دلیل موجود ہو ۔ اسی بات کو ” اصل براٴت کہتے ہیں ۔
بعد والی آیت میں اس مسئلہ پر تاکیدکے حوالے سے کہا گیا ہے : آسمانوں اور زمینوں کی حکومت خدا کے لئے ہے ( إِنَّ اللهَ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ
(موت و حیات کانظام اس کے قبضہ قدرت میں ہے وہی ہے جو زندہ کرتا ہے او رمارتا ہے (یُحْیِ وَیُمِیتُ
اس بناء پر ” تمہارا خدا کے علاوہ کوئی ولی ، سر پرست ، دوست اور یاور نہیں ہے (وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ)۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ عالم ہستی کی تمام قدرتیں اور تمام حکومتیں اس کے ہاتھ میں اور اس کے زیر فرمان ہیں ۔ تم اس کے غیر کا سہارا نہ لو۔ غیر خدا کو پناہ گاہ قرار نہ دو اور استغفار وغیرہ کے ذریعے خدا کے دشمنوں سے اپنی محبت کا رشتہ قائم اور محکوم کرو۔

 

۱۱۷۔لَقَدْ تَابَ اللهُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُھاجِرِینَ وَالْاٴَنصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْھم ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ إِنَّہُ بِھِمْ رَئُوفٌ رَحِیمٌ ۔
۱۱۸۔ وَعَلَی الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتَّی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْھِمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیھِمْ اٴَنفُسُھُمْ وَظَنُّوا اٴَنْ لاَمَلْجَاٴَ مِنْ اللهِ إِلاَّ إِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ لِیَتُوبُوا إِنَّ اللهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ۔

ترجمہ

۱۱۷۔خدا اپنی اپنی رحمت پیغمبر اور ( اسی طرح ان ) مہاجرین و انصار کے شامل حال کی کہ جنھوں نے عسرت و شدت کے وقت کے وقت (جنگ تبوک میں )ان کی پیروی کی کہ جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل حق سے منحرف ہو جائیں ( اور وہ میدان ِ جنگ سے پلٹ آئیں اس کے بعد خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی وہ ان پر مہر با ن اور رحیم ہے ۔
۱۱۸۔ ( اسی طرح) ان تین افراد کہ جو مدینہ میں ) وہ گئے تھے ( اور انھوں نے تبوک میں شر کت نہیں کی تھی اور مسلمانوں نے ان سے قطع روابط کرلیا گیا) یہاں تک کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر جنت ہو گئی تھی اور (عالم یہ یہ تھا کہ)انھیں اپنے وجود میں بھی کوئی جگہ نہیں ملتی تھی اور انھوں نے سمجھ لیا کہ خدا کی طرف سوائے اس کے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے ۔ اس وقت خدا نے اپنی رحمت ان کے شامل حال کی اور خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی کیونکہ خدا تو بہ قبول کرنے والا مہر بان ہے ۔


شان نزول

ایک عظیم درس
مفسرین نے کہا ہے کہ پہلی آیت جنگ تبوک کے بارے میں اور اس میں مسلمانوں کو پیش آمدہ مشکلات کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ مشکلات اس قدر تھیں کہ کچھ لوگوں نے پلٹ آنے کا رادہ کرلیا ۔ لیکن خدا کا لطف و کرم اور ا س کی تو فیق ان کے شامل حال ہوئی اور وہ اسی طرح سے جمے رہے ۔
جن افراد کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ، کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک ابو حیثمہ ہے جو اصحاب ِ پیغمبر میں سے تھا ، منافقین میں سے نہ تھا لیکن سستی کی وجہ سے پیغمبر اکرم کے ساتھ میدان ِ تبوک میں نہ گیا ۔
اس واقعہ کو دس دن گزرگئے ۔ ہو اگرم اور جلادینے والی تھی ، ایک دن اپنی بیویوں کے پاس آیا انھوں نے ایک سائبان تان رکھا تھا ، ٹھنڈا پانی مہا کررکھا تھا اور بہترین کھا نا تیار کررکھا تھا ۔ وہ اچانک غور و فکر میں ڈوب گیا او راپنے پیشوا رسول اللہ کی یاد سے ستانے لگی ۔ اس نے کہا :۔
رسول اللہ کہ جنھوں نے کبھی گناہ نہیں کیا اور خدا ان کے گذشتہ اور آئندہ کاذمہ دار ہے : بیا بان کی جلا ڈالنے والی ہواوٴں میں کندھے پر ہتھیار اٹھائے اس دشوار گذار سفر کی مشکلات اٹھا رہے ہیں اور ابو حیثمہ کو دیکھو کہ ٹھنڈے سائے میں تیار کھانے اور خوبصورت بیویوں کے پاس بیٹھا ہے ، کیا یہ انصاف ہے ؟
اس کے بعد اس نے اپنی بیویوں کی طرف رخ کیا اور کہا :
خدا کی قسم تم میں سے کسی کے ساتھ میں بات نہ کروں گا اور سائبان کے نیچے نہیں بیٹھوں گا جب تک پیغمبر سے نہ جاملوں۔
یہ بات کہہ کر اس نے زاد راہ لیا ،اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور چل کھڑا ہوا۔ اس کی بیویوں نے بہت چاہا کہ اس سے بات کریں لیکن اس نے ایک لفظ نہ کہا اور اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ تبوک کے قریب جاپہنچا ۔
مسلمان ایک دوسرے سے کہنے لگے : یہ کوئی سوار ہے جو سڑک سے گذررہاہے ْ لیکن پیغمبر اکرم نے فرمایا : اے سوار تم ابوحیثمہ ہو تو بہتر ہے ۔
جب وہ قریب پہنچا اور لوگوں نے اسے پہچان لیا تو کہنے لگے جی ہاں ! ابو حیثمہ ہے ۔
اس نے اپنا اونٹ زمین پربٹھا یا اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں سلام عرض کیااور اپنا مجرا بیان کیا ۔
رسول اللہ نے اسے خوش آمدید کہا اور اس کے حق میں دعا فرمائی۔
اس طرح وہ ایک ایسا شخص تھا جس کا دل باطل کی طرف مائل ہوگیا تھا لیکن اس کی روحانی آمادگی کی بناء پر خد انے اسے حق کی طرف متوجہ کیا اور اسے ثباتِ قدم بھی عطا کیا ۔
دوسری آیت کے بارے میں ایک شان نزول منقول ہے ا س کاخلاصہ یہ ہے :
مسلمانوں میں سے تین افراد کعب بن مالک ، مراہ بن ربیع اور بلال بن امیہ نے جنگ تبوک میں شر کت نہ کی اور انھوں نے پیغمبر خدا کے ہمراہ سفر نہ کیا لیکن وہ منافقین میں شامل نہیں ہو نا چاہئیے تھے بلکہ ایسا انھوں نے سستی اور کاہلی کی بناء پرکیا تھا ۔
تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ وہ اپنے لئے نادم اور پشیمان ہو گئے ۔
جب رسول اللہ میدان تبوک سے مدینہ لوٹے تو وہ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معذرت لیکن رسول اللہ نے ان سے ایک لفظ تک نہ کہا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی شخص اس سے بات چیت نہ کرے وہ ایک معاشرتی دباوٴ کاشکار ہوگئے ۔ یہاں تک کہ ان کے چھوٹے بچے اور عورتیں رسول اللہ کے پاس آئیں اور اجازت چاہی کہ ان سے الگ ہو جائیں ، آپ نے انھیں علیحدگی کی اجازت تو نہ دی لیکن حکم دیا کہ ان کے قریب نہ جائیں ۔ مدینہ کی فضا وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی ۔ وہ مجبور ہو گئے کہ اس اتنی بڑی ذلت اور رسوائی سے نجات حاصل کرنے کے لئے شہر چھوڑ دیں اور اطراف مدینہ کے پہاڑوں کی چوٹی پر جاکر پناہ لیں ۔
جن باتوں نے جن باتوں نے ان کے جذبات پر شدید ضرب لگائی ان میں سے ایک یہ تھی کہ کعب بن مالک کہتا ہے :
میں ایک دن بازار مدینہ میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ ایک شامی عیسائی مجھے تلاش کرتا ہوا آیا۔ جب اس نے مجھے پہچان لیا تو باد شاہ غسان کی طرفسے ایک خط میرے ہاتھ میں دیا ۔ اس میں لکھا تھا کہ اگر تیرے ساتھی نے تجھے دھتکار دیا ہے تو ہماری طرف چلے آوٴ ۔ میری حالت منقلب اور غیر ہوگئی اور میں نے کہا وائے ہو مجھ پرمیر امعاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ دشمن میرے بارے میں لالچ کرنے لگے ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ ان کے اعزو اقارب ان کے پاس کھانا لے آتے مگر ان سے ایک لفظ بھی نہ کہتے ۔ کچھ مدت اسی صورت میں گزر گئی اور وہ مسلسل انتظار میں تھے کہ ان کی توبہ قبول ہو اور کوئی آیت نازل ہو جو ان کی توبہ کی دلیل بنے ۔ مگر کوئی خبر نہ تھی ۔
اس دوران ان میں سے ایک کے ذہن میں یہ بات آئی اور اس نے دوسروں سے کہا کہ اب جبکہ لوگوں نے ہم سے قطع تعلق کرلیا ہے کیا ہی بہتر ہو کہ ہم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیں ( یہ ٹھیک ہے کہ ہم گنہ گار ہیں لیکن مناسب ہے کہ دوسرے گنہ گار سے خوش اور راضی نہ ہوں )
انھوں نے ایسا کیا یہاں تک کہ ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نہیں کہتے تھے اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتا تھا۔اس طرح پچاس دن انھوں نے توبہ و زاری کی اور آخر کار ان کی توبہ قبول ہو گئی۔ اس پر مندرجہ بالا آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔


1۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ صفحہ ۲۷۶۔
 
واضح حکم کے بعدسزا گنہ گاروں کے لئے معاشرتی دبا وٴ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma