حق و باطل کی ایک پہچان

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
تفسیر چند اہم نکات

ان آیات میں بھی مبداء اور معاد سے مربوط استدلالات کا سلسلہ جاری ہے ۔ پہلی آیت میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ تمہارے معبودوںکہ جنہیں تم خدا کا شریک قرار دیتے ہومیں سے کوئی ہے جو عالم آفرینش کو ایجاد کرکے پھر لوٹا سکتا ہے
( قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ ) ۔
اس کے بعد مزیدکہتا ہے : کہہ دو کہ خد انے عالم ِ آفرینش کو پیدا کیا ہے اور پھر اسے لوٹا ئے گا ( قُلْ اللهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہ) ۔” اس کے با وجود حق سے کیوں رو گردانی کرتے ہو اور بے راہ روی میں سر گرداں ہو“ (ُ فَاَنَّی تُؤْفَکُون) ۔
یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں : پہلا یہ کہ مشرکین عرب عام طور پر معاد اور قیامت کا عقیدہ خصوصاً جیسے قرآن کہتا ہے ، نہیں رکھتے تھے اس کے باوجود قرآن ان سے کیونکہ اعتراف چاہتا ہے ۔
دوسرا یہ کہ گذشتہ آیت میں مشرکین کے اعتراف کا ذکر تھا لیکن یہاں پیغمبر کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کرو تعبیر کا یہ فرق کیوں ہے ؟
لیکن ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے دونوں سوالوں کا جواب واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ مشرکین معاد ( معاد جسمانی ) کا عقیدہ نہیں رکتھے تھے ان کا بس یہ اعتقاد تھا کہ خلقت کی ابتداء خدا کی طرف سے ہے اور یہی بات معاد کو تسلیم کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ جس نے ابتداء کی ہے وہ اعادہ بھی کرسکتا ہے لہٰذا مبداء کے عقیدہ پرتھو ڑا سا بھی غور و فکر کیا جائے تو اس سے معاد کا عقیدہ ثابت ہو جا تاہے ۔
یہاں سے واضح ہو جا تا ہے کہ کس بناء پر مشرکین کی بجائے پیغمبر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کیونکہ اگر چہ معاد پر ایمان مبداء کے لئے ایمان کے لوازمات میںسے ہے لیکن چونکہ وہ اس لزوم کی طرف متوجہ نہیں تھے لہٰذا طرزِ تعبیر بدل گئی اور پیغمبر نے ان کی جگہ اعتراف کیا ۔
دوبارہ پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ کیا کوئی تمہارے جعلی معبودوں میں سے حق کی طرف ہدایت کرسکتا ہے ( قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَھْدِی إِلَی الْحَقّ ِ ) ۔کیونکہ معبود کو اپنی عبادت کرنے والوں کا رہبر ہو نا چاہئیے اور رہبری بھی حق کی طرف کرنا چاہیئے ۔ حالانکہ مشرکین کے معبود چاہے وہ بے جان بت ہوں یا جاندار، کوئی بھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ ہدایت الہٰی کے بغیر حق کی طرف رہبری کرسکے کیونکہ حق کی طرف ہدا یت کرنا مقام ِ عصمت اور خطاہ و اشتباہ سے محفوظ ہونے کا مقام ہے او ریہ خدا کی ہدایت اور حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے ، لہٰذا بلا فاصلہ مزید فرمایا گیا ہے : کہہ دو کہ صرف خدا ہی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے ( قُلْ اللهُ یَھْدِی لِلْحَقِّ ) ۔تو ایسے میں ” کیا وہ جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے پیروی کے زیادہ لائق ہے یا وہ کہ جس کی ہدایت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اسے ہدایت کی نہ جائے ( اٴَفَمَنْ یَھْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَھِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُھْدَی ) ۔
آیت کے آخر میں سر زنش کے انداز میں اور جھنجوڑ تے ہوئے فرمایا گیا ہے : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو ( فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ) ۔
زیر نظر آخری آیت میں ان کے انحراف کی بنیا داور سر چشمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان میںسے اکثر خیال اور گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے جبکہ خیال اور گمان کبھی بھی انسان کو نہ حق سے بے نیاز کرسکتا ہے اور نہ حق تک پہنچا سکتا ہے (وَمَا یَتَّبِعُ اٴَکْثَرُھُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لاَیُغْنِی مِنْ الْحَقِّ شَیْئًا ) ۔
جو لوگ کسی منطق اور حساب کتاب کے تابع نہیں ، آیت کے آخر میں انھیں تہدید آمیز لہجے میں کہا گیا ہے : جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں ، خدا اس کا عالم اور جاننے والا ہے ( إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ) ۔

 

تفسیر چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma