چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
منافقین کی ایک اور غلط حرکت )منافقین کی ایک اور غلط حرکت

۱۔ کام کی اہمیت کیفیت سے ہے کمیت سے نہیں :۔ آیات ِ قرآنی کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اسلام کسی مقام پر بھی ”کثرتِ عمل“ پربھروسہ نہیں کرتابلکہ اس سے ہر جگہ ”کیفیت عمل “کو اہمیت دی ہے ۔ اسلا م کی نظر میں خلوص اور پاک نیت کی بہت زیادہ قیمت ہے ۔ مندرجہ بالا قرآن کی اس منطق کا ایک نمونہ ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک مسلمان کار کن ایک چھوٹ سے کام کےلئے رات بھر نہیں سویا ۔ اس کا دل عشق خدا ، اخلاص او راحساس مسئولیت سے معمور تھا ۔ اسی لئے وہ اسلامی معاشرے کی مشکلات کے حل کے لئے کام میں لگا رہا اور اس طرح اس نے اسلامی فوج کے لئے ایک من کھجور مہیا کی ۔ اس نے حساس لمحات میں اسلام کی جو خدمت کی قرآن نے اسے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور جو لوگ ایسے بظاہر چھوٹے اور در حقیقت بڑے اعمال کی تحقیر کرتے ہیں ان کی سخت مذمت کی ہے قرآن کہتا ہے :
” دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے “
اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ایک صحیح معاشرے میں مشکلات کے وقت سب لوگوں کو احساس ذمہ داری کا ثبوت دیان چاہئیے ۔ ان مواقع پر صرف اہل اقتدار ثروت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئیے کیونکہ اسلام کا تعلق سب سے ہے اور سب کو چاہئیے کہ اس کی حفاظت کے لئے دل و جان سے کوشش کریں ۔
اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طاقت کے حساب سے دریغ نہ کرے مسئلہ زیادہ اورکم نہیں بلکہ احساس ِ ذمہ داری اور اخلاص کا ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم سے سوال ہوا:
ای الصدقة افضل
کونسا صدقہ افضل ہے ۔
آپ نے فرمایا:
جھد المقل
کم آمدنی والے اشخاص کی توانائی کی مقدار
۲۔ منا فقین کی صفات ہر دور میں ایک جیسی ہیں : مندرجہ بالا آیات میں زمانہ پیغمبر کے منافقین کے بارے میں ہم نے جو صفت پڑھی ہے۔
صفات کی طرح اسی زمانہ کے منافقین سے مخصوص نہیں ہے ۔یہ صفت ہر دور کے منافقین کی پست صفات میں سے ایک ہے وہ اپنی بد نیتی کے مخصوص مزاج کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کہ ہر مثبت کو غلظ انداز میں پیش کر کے بے اثر کردیں ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر نیک شخص کی کسی نہ کسی طرح حو صلہ شکنی کریں ار اسے کارِ خیر کی انجام دہی میں سست کردیں ۔ یہاں تک کہ وہ کم آمدنی والے افراد کی خدمت کی اہمیت کو کم کرکے پیش کرتے ہیں اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے اور ان کی توہین کرنے کےلئے ان کے کام کا تمسخر اڑاتے ہیں وہ یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں تاکہ تمام مثبت کار کردگیاں ختم ہو جائیں اور وہ اپنے برے مقصد میں کامیاب ہوجائیں ۔
آگاہ او ربیدار مغز مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر زمانے میں ان کی قبیح سازش کی طرف متوجہ رہیں ۔ ان کے بالکل بر عکس قدم اٹھائیں معاشرے کی خدمت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ایسی خدمت جو ظاہراً چھوٹی ہوں لیکن خلوص دل سے انجام پائی ہوں ان کی زیادہ قدر دانی کریں تاکہ چھوٹا بڑا اپنے کام میں شوق ق ذوق او ردلجمعی سے مگن رہے ۔ نیز سب مسلمانوں کو منافقین کی اس تباہ کن سازش سے آگاہ کرنا چاہےئے تاکہ وہ ہمت نہ ہاریں ۔
۳۔ ”سخر اللہ منھم “ کامفہوم : اس کا لفظی معنی ہے ” خدا ان سے تمسخر کرتا ہے “ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا بھی ان جیسے کام انجام دیتا ہے بلکہ جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ استہزاء کرنے والوں کو سزا دے گایا ان سے ایسا سلوک کرے گا کہ تمسخر اڑانےوالوں کی طرح ان کی تحقیر و تذلیل ہو۔
۴۔ ”سبعین “ سے مراد: اس میں شک نہیں کہ ” سبعین “ ( ستر ) کاعدد زیرنظر آیت میں کثرت کے لئے ہے نہ کہ تعداد کے لئے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کامفہوم یہ ہے کہ ان کے لئے جتنی بھی استغفار کریں خدا انھیں نہیں بخشے گا ۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک شخص دوسرے سے کہے کہ اگر تم سو مرتبہ بھی اصرار کرو تو میں قبول نہیں کروں گا اس بات ک ایہ مطلب نہیں کہ اگر ایک سو ایک مرتبہ اصرار کرو تو پھر قبول کرلوں گا بلکہ مراد یہ ہے کہ بالکل قبول نہیں کروں گا ۔
ایسی تعبیر فی الحقیقت تاکید مطلب کے لئے ہوتی ہے اسی لئے سورہ ٴ منافقون آیہ ۶ میں یہ بات نفی مطلق کی صورت میں ذکر ہوئی ہے ، جہاں فرمایا گیا ہے :
سوآء علیھم استغفرت لھم ام لم تستغفر لھم لن یغفر اللہ لھم
اس میں کوئی فرق نہیں کہ تم ان کے لئے مغفرت طلب کرو یانہ کرو خداانھیں ہر گز نہیں بخشے گا۔
اس بات پر ایک اور شاید وہ علت ہے جو آیت کے ذیل میںذکر ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ” انھوں ن خدا اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور خدا فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا“
واضح ہے کہ ایسے افراد کے لئے جتنی استغفار اور طلب بخشش کی جائے ان کی نجات کا سبب نہیں ہو سکتی۔
تعجب کی بات ہے کہ اہل سنت کی طرق سے منقول متعدد روایات میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ نے فرمایا :
لا ید ن فی الاستغفار لھم علی سبعین مرة : رجاء منہ ان یغفر اللہ لھم ، فنزلت: سوآء علیھم استغفرت لھم ام لم تستغفر لھم لن یغفر اللہ لھم ۔
خدا کی قسم ! میں ان کے لئے ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا اور اس امید پر کہ خدا انھیں بخش دے اور اس وقت ( سورہ منافقوں کی ) یہ آیت نازل ہوئی( جس میں خدا تعا لیٰ فرماتا ہے )
کچھ فرق نہیں چاہے ان کے لئے استغفار کرو چاہے نہ کرو خدا انھیں ہر گز نہیں بخشے گا ۔ 1
مندرجہ بالا روایت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ نے مندرجہ بالا آیت میں ستر کے عدد سے تعداد مراد لی لہٰذا فرماتا ہے کہ ” میں ان کے لئے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا ۔“
حالانکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں زیر بحث آیت خصوصاً اس علت کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے جو اس کے ذیل میں آئی ہے ہمیں وضاحت سے سمجھاتی ہے کہ ستر عدد کثرت کے مفہوم میں آیا ہے اور یہ نفی مطلق کے لئے کنایہ ہے اور اس میں تاکید مضمر ہے لہٰذا مذکورہ بالا روایات چونکہ قرآن کے مخالفت ہیں لہٰذا ہر گز قابل قبول نہیں ہیں خصوصاً جبکہ ہماری نظر میں ان کی اسناد بھی معتبر نہیں ہیں ۔
مذکرہ بالا روایات کی واحد توجیہ یہ کی جاسکتی ہے ( اگر چہ خلافِ ظاہر ہے ) کہ رسول اللہ مندرجہ بالا آیات کے نزول سے پہلے یہ جملہ فرمایا کرتے تھے اور جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے ان کے لئے استغفار کرنے سے صرفِ نظر کر لیا ۔
اس بارے میں ایک اور روایت نقل ہ وئی ہے اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالاروایات بنیاد یہی روایت ہو جو ” نقل المعنی “ کی وجہ سے غلط ملط ہو گئی ہو ۔ روایت یہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
لوعلمت انہ لو زدت علی السبعین مرة غفر لھم لفعلت
اگر مجھے معلوم ہو کہ میرے ستر بار سے زیادہ استغفار کرنے سے خدا انھیں بخش دے گا تو میں ایسا کرتا ۔
اس کا مفہوم ( خصوصاً لفظ ”لو“ کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو امتناع کے لئے ہے ) یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ خدا انھیں نہیں بخشے گا لیکن میرا دل بندگان خدا کی ہدایت او ران کی نجات کے شوق سے اس قدرلبریز ہے کہ اگر بالفرض ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے ان کی نجات ہو سکتی تو میں ایسا ہی کرتا۔
بہر حال مندرجہ بالا آیت کا مفہوم واضح ہے اور جو حدیث ان کے بر خلاف ہو اس کی یا توجیہ و تاویل کرنا پڑے گی یا اسے پھینک دینا ہوگا ۔

 

۸۱۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللهِ وَکَرِھُوا اٴَنْ یُجَاھِدُوا بِاٴَمْوَالِھِمْ وَاٴَنفُسِھِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ وَقَالُوا لاَتَنفِرُوا فِی الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اٴَشَدُّ حَرًّا لَوْ کَانُوا یَفْقَھُونَ ۔
۸۲۔ فَلْیَضْحَکُوا قَلِیلًا وَلْیَبْکُوا کَثِیرًا جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ۔
۸۳۔ فَإِنْ رَجَعَکَ اللهُ إِلَی طَائِفَةٍ مِنْھُمْ فَاسْتَاٴْذَنُوکَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِی اٴَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِی عَدُوًّا إِنَّکُمْ رَضِیتُمْ بِالْقُعُودِ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِینَ ۔
ترجمہ
۸۱۔ ( جنگ تبوک سے ) کنارہ کشی کرنے والے جو رسول خدا کی مخالفت سے خوش ہیں اور وہ راہ خدا میں اپنے اموال او رجان سے جہاد کرنے کو ناپسند کرتے تھے ( اور ایک دوسرے سے او رمومنین سے ) کہتے ہیں کہ اس موسم گرما میں ( میدان کی طرف ) حرکت نہ کریں انھیں کہہ دو کہ جہنم کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے ، اگر تم میں سمجھ ہے ۔
۸۲ انھیں چاہئیے کہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں یہ ان کا ر کردگیوں کی جزا ہے جو و ہ کرتے تھے ۔
۸۳۔ جب خدا تجھے ان کے کسی گروہ کی طرف پلٹائے اور وہ تجھ سے ( میدان ِ جہاد کی طرف ) خروج کی اجازت چاہیں تو ان سے کہہ کہ تم کبھی میرے ساتھ خروج نہیں کروگے او رمیری معیت میں کبھی دشمن کے ساتھ جنگ نہیں کروگے ۔

 


1۔اسی مضمون کی متعدد روایات تفسیر طبرسی ج۱۰ ص ۱۳۸ پر جمع کی گئی ہیں ۔
 
منافقین کی ایک اور غلط حرکت )منافقین کی ایک اور غلط حرکت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma