تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
من پسند معجزات دنیاوی زندگی کی دور نمائی

ان آیات میں دوبارہ گفتگو عقائد کے بارے میں اور مشرکین کے کرتو توں کے بارے میں ہے ۔ نیز انھیں توحید کی طرف اور شرک کی نفی کی جانب دعوت دی گئی ہے ۔
زیر نظر پہلی آیت میں مشرکین کی ایک جاہلانہ سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :
جب لوگوں کو بیداری اور آگاہی کے لئے ہم مشکلات اور نقصانات میں گرفتار کرتے ہیں پھر انھیں دور کرکے ہم انھیں سکون اور اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہوں ، ان آیات اور نشانیوں کا مزاق اڑاتے ہیں یا غلط توجیہات کرکے ان کا انکار کرنے لگتے ہیں ۔ مثلاً مصائب و مشکلات کو بتوں کے غیض ع غضب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور راحت و نعمت کو ان کی شفقت و محبت کی دلیل کہتے ہیں یا پھر سب کو اتفاقات شمار کرتے ہیں ۔
(إوَ إِذا اٴَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاء َ مَسَّتھمْ إِذا لَھُمْ مَکْرٌ فی آیاتِنا)
لفظ” مکر “ جو مندرجہ بالا آیت میں آیا ہے ، ہر قسم کی چارہ جوئی کے معنی میں ہے یہ ان غلط توجیہات اور فرار کی راہوں کی طرف اشارہ ہے جو مشرکین آیات الہی کے نزول ، بالاوٴ کی آمد اور نعمتوں کے ظہور کے وقت سوچتے تھے ۔
لیکن اللہ انھیں اپنے پیغمبر کے ذریعہ خبر دار کرتا ہے کہ ” ان سے کہہ دو : کہ خدا ہر کسی سے بڑھ کر سرکوبی کرنے والی چارہ جوئی اور منصوبہ بندی پر قادر ہیں اور زیادہ تیز ہے ( قُلِ اللَّہُ اٴَسْرَعُ مَکْراً )
جیسا کہ ہم نے بارہا اشارہ کیا ہے ” مکر “ ہم قسم کی ایسی چارہ جوئی کو کہتے ہیں جیسے خفیہ طور پر بجا لایا جائے اور اس کا وہ معنی نہیں جو آج کل فارسی میں مروّج ہے ۔ فارسی میں آج کل ” مکر “ میں شیطانی کاموں کا مفہوم بھی شامل ہے لہذا اس لفظ کے حقیقی معنی کو سامنے رکھا جائے تو یہ خدا کے بارے میں بھی صادق آتا ہے اور بندوں کے بارے میں بھی ۔ ۱
باقی رہا یہ کہ زیر بحث آیت میں اس ” مکر “ کا مصداق کیا ہے تو ظاہراً پروردگار کی انھیں سزاوٴں کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں سے بعض انتہائی مخفی طور پر اور بغیر کسی تمہید کے بڑی تیز رفتاری سے آ پہنچتی ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات تو مجرمین کو خود انھیں کے ہاتھ سے سزا دی جاتی ہے ۔
واضح ہے کہ وہ ذات جو سب سے زیادہ قادر ہے ، موانع دور کرنے اور اسباب نہاں کرنے کی سب سے زیادہ طاقت رکھتی ہے ۔ اس کے منصوبے اور تدبیریں بھی سب سے زیادہ تیز ہو گئیں دوسرے لفظوں میں وہ جس وقت کسی کوسزا دینے اور تنبیہ کرنے کا ارادہ کر ے تو وہ فوراً عملی صورت اختیار کر لیتی ہے جبکہ دوسرے اس طرح سے نہیں ہیں ۔
اس کے بعد انھیں تحدید کی گئی ہے کہ یہ گمان نہ کرو کہ یہ سازشیں اور منصوبے فراموش ہوجائیں گے بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے یعنی اعمال ثبت کرنے والے فرشتے ان تمام منصوبوں اور سازشوں کو لکھ لیتے ہیں جنہیں تم نور حق کو خاموش کرنے کے لئے تیار کرتے ہو ( إِنَّ رُسُلَنا یَکْتُبُونَ ما تَمْکُرُون) لہذا تم اپنے آپ کو جو ابدہی اور دوسرے جہان میں سزا پانے کے لئے تیار کر لو ۔
ثبت اعمال اور اس کام پر معمور فرشتوں کے بارے میں ہم متعلقہ آیات کے ذیل میں بحث کریں گے ۔
اگلی آیت میں انسانی فطرت کی گہرایوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے سامنے توحید فطری کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عظیم مشکلات اور خطرے کے وقت کسی طرح انسان خدا کے علاوہ تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے لیکن جو نہی مصیبت ٹلتی ہے اور مشکلات کی آگ ٹھنڈی پڑتی ہے تووہ دو بارہ ظلم و ستم کی راہ اختیار کر لیتا ہے اور خدا سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : وہ خدا وہ ہے جو تمہیں سہرا اور دریا میں سیر کراتا ہے ( ھُوَ الَّذی یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْر) ۔”یہاں تک کہ جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو اور کشتی میں سوار لوگوں کو موافق ہوا ئیں آہستہ آہستہ مقصد کی طرف لے جا رہی ہوتی ہیں اور سب کے سب شادمان اور خوش ہوتے ہیں “ (ِ حَتَّی إِذا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِھِمْ بِریحٍ طَیِّبَةٍ وَ فَرِحُوا بِھا)۔ ” اچانک شدید طوفان اور تباہ کن آندھیاں چلنے لگتی ہیں اور ہر طرف سے موجیں اٹھتی ہیں اس طرح سے کہ انھیں اپنی موت نظر آنے لگتی ہے اور وہ زندگی سے گویا ہاتھ دوھو بیٹھتے ہیں ( جاء َتْھا ریحٌ عاصِفٌ وَ جاء َہھمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکانٍ وَ ظَنُّوا اٴَنّھُمْ اٴُحیطَ بِھمْ )۔ ٹھیک اس وقت وہ خدا کو یاد کرنے لگتے ہیں اور اسے خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں اور اپنے دین کو ہر قسم کے شرک اور بت پرستی سے اپک کر لیتے ہیں (دَعَوُا اللَّہَ مُخْلِصینَ لَہُ الدِّینَ
اس وقت وہ دست دعابلند کرتے ہیں : ۔ خدا یا اگر تو نے اس ہلاکت انگیزی سے نجات بخش دی تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے ، ظلم کریں گے نہ تیرے غیر کی طرف رخ موڑیں گے ( لَئِنْ اٴَنْجَیْتَنا مِنْ ھذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرینَ
لیکن جب خدا انھیں نجات دے دیتا ہے اور وہ ساحل مراد تک جا پہنچتے ہیں تو زمین میں ظلم و ستم شروع کر دیتے ہیں (فَلَمَّا اٴَنْجاھُمْ إِذا ھُمْ یَبْغُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ )
مگراے لوگوںجان لوکہ جیسے ظلم کے مرتکب ہوگے اور حق سے جس قدرا نحراف کروگے اس کانقصان خودتمہیں ہی ہوگا ”(یا اٴَیّھا النَّاسُ إِنَّما بَغْیُکُمْ عَلی اٴَنْفُسِکُمْ ) ۔ آخری کام جو تم انجام دے سکتے ہو یہ ہے کہ” چند روز حیات دنیا کی متاع سے فائدہ اٹھالو“(مَتاعَ الْحَیاةِ الدُّنْیا)2
اس کے بعد تمہاری بازگشت ہماری طرف ہے (ثُمَّ إِلَیْنا مَرْجِعُکُمْ ) ” اس وقت ہم تمہیں اس سے آگاہ کریں گے جو تم انجام دیتے تھے ( فَنُنَبِّئُکُمْ بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

چند اہم نکات

۱ ۔ لوگ عموماً ایسا کرتے ہیں : مندرجہ بالا آیت میں جو کچھ ہم نے پڑھا ہے وہ بت پرستوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ عموماً ایسا ہوتا ہے تمام آلودہ ، دنیا پرست ، کم ظرف اور فراموش کار افراد ایسا کرتے ہیں جب انھیں بلا وصیت کی موجیں گھیر لیتی ہیں وہ ہاتھ پاوٴں مارتے ہیں لیکن کچھ نہیں بنتا گویا تلوار ان کی شہ رگ تک آ پہنچتی ہے اور انہیں کوئی یار و مددگار نظر نہیں آتا تو بارگاہ خدا میں ہاتھ اٹھاتے ہیں اس سے ہزاروں عہد و پیمان باندھتے ہیں اور نذر و نیاز مانتے ہیں کہ اگر بلاوٴں اور مصائب سے نجات ملی توبہ کریں گے اور وہ یہ کریں گے لیکن یہ بیداری اور آگاہی جو توحید فطری کا انعکاس ہے ایسے افراد میں زیادہ دیر نہیں رہتی ...جونہی طوفان بلاختم ہوجاتا ہے اور مشکل حل ہو جاتی ہے ۔ غفلت کے پردے ان کے دل پر پڑ جاتے ہیں ... ایسے بھاری پردے کہ جنہیں طوفان بلا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہٹا سکتی ۔
یہ وقتی بیداری اگر چہ زیادہ آلودہ افراد پر کوئی اثر نہیں کرتی تا ہم ان پر حجت تمام کر دیتی ہے اور یہی ان کے مذموم ومحکوم ہونے کی دلیل بن جائے گی ۔
دوسری طرف کم آلودہ افراد یسے حوادث میں عموماً بیدار ہو جاتے ہیں اور اپنے طریقہ کار کی اصلاح کر لیتے ہیں ۔
باقی رہے بندگان خدا تو ان کا حساب و کتاب واضح ہے ۔ وہ عالم سکون میں بھی خدا کی طرف اتنا ہی متوجہ رہتے ہیں ، جتنا سختی اور تنگی کے عالم میں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر خیر و برکت جو ظاہراً طبیعی اور فطری عوامل کے ذریعہ انہیں پہنچتی ہے در حقیقت خدا کی طرف سے ہے ۔
بحر حال یہ یاد آوری اور تذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے ۔
۲۔ ” ضراء “ کے مقابلے میں ” رحمت “ مندرجہ بال اآیات میں ” ضراء “ ( یعنی پریشانی اور نقصان ) کے مقابلے میں ” رحمت “ کا ذکر ہے نہ کہ ” سراء “ ( خوشی اور مسرت ) کا ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جیسی بھی اچھائی اور بھلائی انسان کو پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور اس کی رحمت بے پایاں ہے جبکہ مشکلات اگردرس عبرت کے طور پر نہ ہو ں تو خود انسان کے اپنے اعمال کانتیجہ ہوتی ہیں ۔
۳ ۔ ضمیروں کا فرق کیوں ہے ؟ زیر بحث دوسری آیت کی ابتداء میں مخاطب ضمیریں ہیں لیکن بعد میں غایب کی ضمیریں ہیں ۔
یقینا اس میں کوئی نکتہ ہے ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت کے لب و لہجہ میں یہ تبدیلی اس بناء پر ہے کہ مشرکین کی حالت جبکہ وہ گرفتار بلا ہوں تو دوسروں کے لئے درس عبرت کے طور پر ان کا ذکر کیا جائے اس لئے انہیں غایب ذکر کیا گیا ہے اور باقی کو حاضر ۔
بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ اس میں یہ نکتہ ہے ان سے بے اعتنائی اور ان کی تحقیر کا اظہار ہو گویا پہلے خدا تعالی انھیں حاضر کے طور پر قبول کرکے مخاطب قرار دیتا ہے اس کے بعد انہیں اپنے سے دور کرکے چھوڑ دیتا ہے ۔
یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ آیت لوگوں کی ایک فطری تصویر کررہی ہے جب تک وہ کشتی میں بیٹھے ہیں اور ساحل سے دور نہیں ہوئے تو دیگر لوگوں کے درمیان ہیں لہٰذا مخاطب قرار پاسکتے ہیں لیکن جب کشتی انھیں ساحل سے دور کردیتی ہے ۔
اور وہ آہستہ آہستہ آنکھوں سے اوجھل ہ وجاتے ہیں تو غائب شمار ہوتے ہیں اور یہ دو مختلف حالتوں میں ان کی فطری تصویر کشی ہے ۔
۴۔”احیط بھم “کا مفہوم : اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہر طرف سے امواج بلا میں گھرے ہوئے ہیں لیکن یہ یہاں ہلاکت او رنابودی کے لئے کنایہ ہے جو اس حالت کا لازمی نتیجہ ہے ۔

 ۲۴۔ إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ اٴَنْزَلْنَاہُ مِنْ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْاٴَرْضِ مِمَّا یَاٴْکُلُ النَّاسُ وَالْاٴَنْعَامُ حَتَّی إِذَا اٴَخَذَتْ الْاٴَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اٴَھْلُھَا اٴَنَّہُمْ قَادِرُونَ عَلَیْھَا اٴَتَاھَا اٴَمْرُنَا لَیْلًا اٴَوْ نَھَارًا فَجَعَلْنَاھَا حَصِیدًا کَاٴَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْاٴَمْسِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ۔
۲۵۔ وَاللهُ یَدْعُو إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَیَھْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۔

 

ترجمہ

۲۴۔دنیاوی زندگی اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان کی طرف سے نازل کیا ہے کہ جس کے اثرسے طرح طرح کے نباتات اُگتے ہیں جنھیں انسان اورچوپائے کھاتے ہیں ،یہاں تک کہ زمین (ان سے)اپنی زیبائی حاصل کرتی ہیں اور مزین ہوجاتی ہے اور اور اس کے رہنے والے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے کہ (چانک انکی نابودی کے لئے )ہمارا حکم آپہنچتا ہے (اور ہم سردی یا بجلی کو ان پر مسلط کردیتے ہیں )اور اس طرح سے کاٹ ڈالتے ہیں کہ گویا بالکل کچھ تھا ہی نہیں ۔ یوں ہم اپنی آیات اس گروہ کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ۔
۲۵۔اور خداصلح و سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور جسے چاہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔
 


1-مزید وضاحت کے لئے جلد ۲ ص ۳۳۹ ، جلد ۶ ص ۲۳۶ اور جلد ۷ ص ۱۲۶ ( اودو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔
2- لفظ ”متاع“ ایک فعل مقدر سے منصوب ہے اصل میں یوں تھا” تتمتعون متاع الحیاة الدنیا“ ۔
من پسند معجزات دنیاوی زندگی کی دور نمائی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma