تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
چند قابل توجہ نکاتچند الفاظ کا مفہوم

ان آیات میں بی اسی طرح مشرکین کے بارے میں بحث جاری ہے یہاں خدا کی ذات ِ مقدس کے بارے میں انکی ایک تہمت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : انھوں نے کہا کہ خدا نے اپنے لئے ایک بیٹا چنا ہے ( قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا) ۔
یہ بات سب سے پہلے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں کی ۔ پھر زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں نے فرشتوں کے بارے میں کی ، وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں خیال کرتے ہیں اور اسی طرح یہود یوں نے حضرت عزیر کے بارے میں یہ بات کی۔
قرآن ان لوگوں کا جواب دو طریقوں سے دیتا ہے ۔
پہلا یہ کہ خد اہر قسم کے عیب اور نقص سے منزہ ہے اور تمام چیزوں سے بے نیاز ہے ( سُبْحَانَہ ُھُوَ الْغَنِیُّ) ۔
یہ اس طرف اشارہ کہ اولاد کی ضرورت یا تو جسمانی قوت کی احتیاج اور مدد کے طور پر ہوتی ہے اور یا روحانی اور ضذباتی ضرورت کے تحت اور چونکہ خدا ہر عیب و نقص اور ہر وجعی کمی سے منزہ ہے اور اس کی ذات پا ک غنی اور بے نیاز ہے لہٰذا ممکن نہیں کہ وہ اپنے لئے بیٹے کا انتخاب کرے ”وہ آسمانوں او رزمین میں موجود تمام تر موجودات کا مالک ہے “ ( لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ ) ۔
اس صورت میں اس کے لئے بیٹے کا کیا مفہوم وہ رہ جاتا ہے کہ جو اسے سکون بخشے یا اس کی مدد کرے ۔
امر جاذب نظر ہے کہ یہاں” اتخذ “ ( انتخاب کیا اور اختیار کیا ) استعمال ہو ا۔ یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ ان کا نظر یہ تھا کہ خدا سے بیٹا پیدا نہیں ہو بلکہ وہ کہتے تھے کہ خدا نے ایک موجود کو اپنے فرزند کے طو ر چن لیا ہے جیسے بعض لوگوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تو وہ کسی بچہ کسی پر ورش گاہ وغیرہ سے گود لے لیتے ہیں بہر حال یہ کوتاہ نظر جاہل خالق و مخلوق کے موازنہ میں اشتباہ میں پڑ گئے تھے اور انھوں نے خدا کی بے نیاز ذات کو اپنے ضرورت مند اور نیاز مند وجود کی طرح سمجھ لیا تھا ۔
دوسرا جواب جو قرآن انھیں دیتا ہے یہ کہ جو شخص بھی کوئی دعویٰ کرتا ہے اسے اپنے دعویٰ پرکوئی دلیل پیش کرنا چاہتا ہئیے ۔ ” کیا تمہارے پاس اس بات کی کوئی دلیل ہے “۔ نہیں تمہارے پاس اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں ہے ( إِنْ عِنْدَکُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِھَذَا اٴَتَقُولُونَ عَلَی اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ) ۔
یعنی بالفرض اگر تم پہلی دلیل کو قبول نہیں کرتے تو پھر بھی تم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ تمہاری با ت ایک تہمت ہے او رایسا قول ہے جس کی بنیاد میں کوئی علم نہیں ہے ۔
اگلی آیت میں خد اپر تہمت باندھنے کے منحوس انجام کا تذکرہ ہے ۔ خدا تعالیٰ روئے سخن اپنے پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے ان کہہ دو: وہ لوگ جو خدا پر افتراء باند ھتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ہ رگز فلاح کا منہ نہیں دیکھیں گے ( قُلْ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ ) ۔
فرض کریں کہ وہ اپنے جھوٹ اور تہمتوں سے چند دن کے لئے دنیا کے مال و منال تک پہنچ بھی جائیں تو یہ صرف اس جہان کا ایک زود گزر مال و متاع ہی ہے ۔ اس کے بعد یہ ہماری طرف پلٹ کر آئیں گے او رہم ان کے کفر کی وجہ سے انھیں عذابِ شدیدکا مزہ چکھائیں گے ( مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیقُھُمْ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ) ۔
در حقیقت اس آیت میں اور اس سے پہلے کی آیت میں خدا کی طرف بیٹے کے انتخاب کی نسبست دینے والے جھوٹوں کے لئے دو قسم کی سزائیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ جھوٹ اور افتراء کبھی ان کی فلاح کا سبب نہیں بنے گا اور کبھی انھیں ان کے مقصد تک نہیں پہنچائے گا بلکہ وہ بے راہ ویوں میں سر گرداں رہیں گے اور بد بختی اور شکست انھیں دامن گیر ہو گی ۔ دوسرا یہ کہ فرض کریں کہ وہ ان باتوں سے چند لوگوں کو غفلت میں رکھ لیں اور بت پرستی کے مذہب سے کوئی مقصد حاصل کرلیں تاہم اس مفاد میں دوام و بقاء نہیں ہے اور خدا کا دائمی عذاب ان کے انتظار میں ہے ۔

 

چند قابل توجہ نکاتچند الفاظ کا مفہوم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma