عظمت الہٰی کی کچھ نشانیاں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
دو اہم نکات چند قابل توجہ نکات

زیر نظر آیات دوبارہ مسئلہ توحید و شرک کی طرف لوٹتی ہیں یہ مسئلہ اسلام اور ا س سورہ کے اہم ترین مباحث میں سے ہے ۔ ان آیات میں مشرکین کی خبر لی گئی ہے اور انکی عاجزی و ناتوانی کو ثابت کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : آگاہ ہو کہ وہ تمام لوگ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کے لئے ہیں ( اور اس کی ملکیت ہیں ) ( اٴَلاَإِنَّ لِلَّہِ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔
جہاں اشخاص اس کی ملکیت ہوں اور اس کے لئے ہوں وہاں اشیاء اس جہاں میں بدرجہ اولیٰ اس کی ہیں اور اس کے لئے ہیں اس بناء پر وہ تمام عالم ہستی کا مالک ہے اس حالت میں کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے مملوک اس کے شریک ہوں ۔
مزید ارشاد ہوتا ہے : جو لوگ غیر خدا کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں وہ دلیل و منطق کی پیروی نہیں کرتے اور ان کے پاس اپنے قول کے لئے کوئی سند اور شاہد نہیں ہے (وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ شُرَکَاءَ ) ۔
وہ صرف بے بنیاد تصورات اور گمانوں کی پیروی کرتے ہیں ( إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّن) ۔
بلکہ وہ تو صرف تخمینے سے بات کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ( وَإِنْ ھمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔
” خرص “ لگت میں ” جھوٹ“ کے معنی میں بھی آیا ہے اور تخمین او روہم و خیال کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ دراصل جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ یہ پھلوں کی جمع آوری کے معنی میں ةے اور بعد ازاں حساب کے لئے جمع کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔
نیز درختوں پر پھلوں کا تخمینہ اور اندازہ لگانے کو کہتے ہیں اور چونکہ کبھی کبھی تخمینہ غلط نکل آتا ہے لہٰذا یہ مادہ ” جھوٹ “ کے معنی میں بھی آیاہے ۔
اصولی طور پر بے بنیاد گمان کی پیروی کی یہ خاصیت ہے کہ آخر کار انسان جھوٹ کی وادی میں جاپہنچتا ہے ۔ جنہوں نے بتوں کو خدا کا شریک قرار دیا تھا ان کی بیاد اوہام سے بڑھ کر نہ تھی ۔ وہ اوہام کہ جن کا تصور کرنا ہمارے لئے مشکل ہے کہ کیونکہ ممکن ہے کہ انسان بے روح شکلیں اور مجسمے بنائے اور پھر اپنی بنائی ہوئی چیز کو اپن ارب اور صاحب ِ اختیار سمجھنے لگے ، اپنی تقدیر اس کے سپرد کردے اور اپنی مشکلات کا حل اس سے طلب کرے ۔ کیا یہ چیز جھوٹ اور جھوٹ قبول کرلینے کے سوا کچھ اور کہلاسکتی ہے ۔
اس آیت میں تھوڑا سے غور کرکے اس سے ایک عمومی قانون اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ جو شخص بے بنیاد گمان کی پیروی کرتا ہے آخر کار جھوٹ تک جا پہنچتا ہے ۔ صداقت اور سچائی یقین کی بنیاد پر استوار ہے اور جھوٹ کی عمارت بے بنیاد وہم و گمان کے سہارے قائم ہے ۔
اس کے بعد بحث کی تکمیل ، راہ خدا شناسی کی نشاندہی اور شرک و بت پرستی سے دوری کے لئے خدائی نعمات کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، یہ پہلو نظام خلقتاور اللہ کی عظمت ، قدرت اور حکمت کی نشاندہی کرتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ : وہ وہ ہے جس نے رات کو تمہارے لئے باعثِ سکون قرار دیا ہے

(ھُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ اللَّیْلَ لِتَسْکُنُوا فِیہِ ) ۔اور دن کو روشنی بخش بنا یا ہے (وَالنّھَارَ مُبْصِرًا ) ۔
نور ظلمت کا یہ نظام جسکا ذکر قرآن میں بار ہا آیا ہے ، حیرت انگیز اور پر بار نظام ہے جس میں کچھ عرصہ میں تابش ِ نور سے انسانوں کے صح حیات کو روشن کیا گیا ہے ۔ یہ عرصہ حرکت آفرین ہے اور انسا ن کو جستجو اور عمل پر آمادہ کرتا ہے ۔ دوسرا عرصہ سیاہ پردوں میں لپٹی ہوئی آرام بخش رات کا ہے ۔ اس رات کے ذریعے تھکی ہو ئی روح اور جسم کا کام اور حرکت کے لئے پھر سے تیار ہوتا ہے ۔
جی ہاں  اس حساب شدہ نظام میں پر وردگار کی قدرت کی آیات اور نشانیاں ہیں لیکن ان کے لئے جو سننے والے کان رکھتے ہیں اور حقائق کو سنتے ہیں

(إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَسْمَعُونَ) ۔وہ جو سنتے اور ادراک کرتے ہیں اور جو ادراکِ حقیقت کے بعد اسے استعمال میں لاتے ہیں او رکام کرتے ہیں ۔

 

دو اہم نکات چند قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma