ایک اور گروہ فر مان خدا سے نکل گیا ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
چند اہم نکات شان ِ نزول

۱۔ اعمال پیش ہونے کا مسئلہ : بہت سی روایات او رخبریں جو آئمہ سے پہنچی ہیں ان کے پیش نظر مکتب اہل بیت کے پیروں کایہ مشہور و معروف عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم اور آئمہ ہدایٰ تمام امت کے اعمال سے آگاہ ہوجاتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ مخصوص طریقوں سے امت کے اعمال ان کے سامنے پیش کردیتاہے ۔
اس سلسلے میں منقول روایات بہت زیادہ ہیں اور شاید حد تواتر تک ہوں ۔ ہم نمونے کے طور پر ان میں سے مختلف قسم کی چند روایات ذیل میں درج کرتے ہیں ۔
۱۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ،آپ (ع) نے فرمایا :
تعرض الاعمال علیٰ رسول اللہ اعمال العباد کل صباح ، ابرارھا و فجار ھا ، فاحذروھا ، وھو قول اللہ عز وجل و قل اعملو ا فسیری اللہ عملکم و رسولہ ، وسکت۔
لوگوں کے تمام اعمال ہر روز صبح کے وقت رسول خدا کے سامنے پیش ہوتے ہیں ، چاہے وہ نیک لوگوں کے اعمال ہو ں یا برے لوگوں کے ،لہٰذا متوجہ رہو ( اور اسے ڈرو) اور خدا تعالیٰ کے ارشاد ” قل اعملو ا فسیری اللہ عملکم و رسولہ“ کا یہی مفہوم ہے یہ کہہ کر آپ خاموش ہو گئے۔ 1
۲۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے جس میں آپ (ع) فرماتے ہیں :
ان الاعمال تعرض علی نبیکم کل عشیة الخمیس فلیستح احدکم ان تعرض علی نبیہ العمل القبح۔
تمہارے تمام اعمال ہر جمعرات کو عصر کے وقت رسول خدا کے پاس پیش ہوتے ہیں لہٰذا اس بات پر شرم کرو کہ تمہاری طرف سے کوئی بر اعمل خدمت پیغمبر میں پیش ہو ۔2
۳۔ نیز ایک اور روایت امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک شخص نے آپ (ع) کی خدمت میں عرض کیا میرے لئے اور میرے گھر والوں کے لئے دعا کیجئے۔
تو آپ (ع) نے فرمایا :
تو کیا میں دعا نہیں کرتا،
و اللہ ان اعمالکم لتعرض علیٰ فی کل یوم و لیلة
( خدا کی قسم تمہارے اعمال ہر روز شب میرے سامنے پیش ہوتے ہیں )
راوی کہتا ہے کہ یہ بات مجھ پر گراں گذری ، امام متوجہ ہوئے اور مجھ سے فرمایا:
اما تقرء لتاب اللہ عزو جل ” و قل اعملوا فسیری اللہ عملکم و رسولہ والموٴ منون ھو و اللہ علی بن ابی طالب“۔
کیا تونے اللہ کی کتاب نہیں پڑھی جو کہتی ہے ۔ ” عمل کر و، خدا ، اس کا رسول اور مومنین تمہارے عمل کو دیکھتے ہیں ۔ خد اکی قسم مومنین سے مراد علی بن ابی طالب ( اور ان کی اولاد میںسے دوسرے امام ) ہیں ۔ 3
البتہ بعض روایات میں صرف رسول اللہ کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔ کچھ حضرت علی (ع) کے بارے میں اور بعض میں پیغمبر اکرم اور تمام آئمہ کا ذکر ہے اسی طرح کچھ روایات صرف جمعرات کو عصر کے وقت اعمال پیش ہونے کے بارے میں ہیں ، بعض میں ہر روز اعمال پیش ہونے کا تذکرہ ہے ، کچھ میں ہفتہ میں دو مرتبہ ، بعض میں ہر ماہ کے شروع میں اوربعض میں موت کے وقت او ر قبر میں رکھے جانے کے وقت کا ذکر ہے ۔
واضح ہے کہ یہ روایات آپس میں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں او رہوسکتا ہے کہ سب صحیح ہوں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے بہت سے اداکاروں میں ہر روز کی کار گزاری روزانہ ، ہفتہ کی کار گزاری ہفتے کے آخر میں او رمہینے یا سال کی کار گزاری مہینے یا سال کے آخر میں اعلیٰ افسروں کو پیش کی جاتی ہے ۔
یہاں یہ سوال پیش آتاہے کہ کیا خود زیرنظر آیت اور اس کی تفسیر میں وارد روایات سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے یا جیسا کہ اہل سنت کے مفسرین نے کہا ہے کہ آیت ایک عام مسئلے کی طرف اشارہ کررہی ہے وہ یہ کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے چاہے نہ چاہے ظاہر ہو ہی جات اہے اور خدا کے علاوہ پیغمبر اور تمام مومنین عام طریقوں ہی سے اس سے آگاہ ہو جاتے ہیں ۔
اس سوال کے جواب میںکہنا چاہئیے کہ انصاف یہ ہے کہ خود آیت میں اس بارے میں کچھ شواہد موجود ہیں ۔
پہلا یہ کہ آیت مطلق ہے اور اس میں تمام اعمال شامل ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ تمام اعمال معمول کے طریقوں سے رسول اللہ او رمومنین پر آشکار نہیں ہوتے تھے کیونکہ بہت سے غلط اعمال مذخفی طور پر انجام پاتے تھے او راکثر اوقات پوشیدہ رہ جاتے تھے یہاں تک کہ بہت سے اچھے اعمال بھی اسی طرح چھپے رہتے تھے ۔
اگر ہم یہ دعوی کریں کہ تمام نیک اعمال میں سے اکثر سب پر واضح ہو جاتے تھے تو یہ ایک بے ہودہ بات ہو گی۔ لہٰذالوگوں کے اعمال سے رسول اللہ کی اور لوگوں کی آگاہی غیر معمولی طریقوں اور خدائی تعلیم ہی سے ہو سکتی ہے ۔
دوسرا یہ کہ آیت کے آخر میں ”فینبئکم بما کنتم تعملون“خد اتمہیں قیامت میں اس سے آگاہ کرے گا جو تم عمل کرتے تھے ) اس میں شک نہیں کہ اس جملے کے مفہوم میں انسان کے تمام اعمال شامل ہیں چاہے وہ مخفی ہوں یا آشکار اور آیت کا ظاہر یہ ہے کہ آیت کی ابتداء اور آخر میں ”عمل“ کا ایک ہی مفہوم ہے لہٰذا آیت کی ابتداء میں آشکار و مخفی تمام اعمال کے بارے میں ہے اور اس میں شک نہیں کہ ان تمام سے آگاہی معمول کے طریق سے ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کے کا آخری حصہ تمام اعمال کی جزا کے بارے میں ہے ۔ اس لئے آغاز بھی خدا ، رسول او رمومنین کی تمام اعمال سے آگاہی سے متعلق ہے ۔ ایک آگاہی کا مرحلہ ہے اور دوسرا جزاء کا اور بات دونوں میں ایک ہی موضوع سے متعلق ہے ۔
تیسرا یہ کہ ” مومنین “ کا ذکر اسی صورت میں صحیح ہے کہ مراد سب اعمال ہوں اور غیر معمولی طریقوں سے معلوم ہوں ۔ ورنہ جو اعمال آشکار اور واضح ہیں وہ تومومنین اور غیرمومنین سب دیکھتے ہیں ۔
یہاں سے ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں مومنین سے مراد سب صاحب ایمان افراد نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ مخصوص افراد ہیں جو حکم خدا سے اسرار غیبی سے آگاہ ہیں یعنی رسول اللہ کے حقیقی جا نشین ۔
ایک اہم نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ جس طرح پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اعمال کے پیش ہونے کا مسئلہ اس کے معتقدین کے لئے بہت زیادہ تربیتی اثر رکھتا ہے کیونکہ جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ خدا جوکہ ہر جگہ میرے ساتھ ہے اس کے علاوہ پیغمبر اکرم اور ہمارے محبوب پیشوا ہر روز یا ہر ہفتے میرے ہر عمل سے چاہے وہ اچھا ہو یا برا آگاہ ہو جاتے ہیں تو بلا شبہ ہم زیادہ احتیاط کریں گے اور اپنے اعمال کی طرف متوجہ رہیں گے بالکل اسی طرح جیسے کسی ادارے میں کام کرنے والوں کو معلوم ہو کہ ہر روز ہر ہفتے ان کے تمام پوری تفصیل سے اعلیٰ افسروں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور وہ ان سب سے باخبر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے کاموں کو بڑی توجہ سے انجام دیں گے ۔
۲۔ کیا روئیت یہاں دیکھنے کے معنی میں ہے ؟ بعض مفسرین میں مشہور ہے کہ ” فسیری اللہ عملکم “ میں روئیت معرفت کے معنی میں ہے نہ کہ علم کے معنی میں کیونکہ اس کا ایک سے زیادہ مفعول نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر روئیت علم کے معنی میں ہوتو اس کے دو مفعول چاہئیے ہو ں گے ۔
لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کہ روئیت کو اس کے اصل معنی میں لیا جائے یعنی محسوسات کا مشاہدہ نہ کہ علم یا معرفت ۔ یہ بات خدا کے بارے میں تو جو ہر جگہ حاضر و ناضر ہے اور تمام محسوسات پر احاطہ رکھتا ہے قابل، بحث نہیں لیکن پیغمبر اور آئمہ (ع) کے متعلق بھی کوئی مانع نہیں کہ وہ خود اعمال کو دیکھیں کہ جب ان کے سامنے پیش ہو ں کوینکہ ہم جانتے ہیں کہ انسانی امعلا فانی نہیں ہیں بلکہ قیامت تک باقی رہیں گے ۔
۳۔ عنقریب خدا اعمال دیکھے گا “ سے کیا مراد ہے : اس میں شک نہیں کہ خدا اعمال سے پہلے ہیں ان سے آگاہ ہے اور یہ جو آیت میں ”فسیری اللہ “ یعنی عنقریب تمہارے اعمال دیکھے گا “ آیا ہے ، یہ اعمال کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جو ان کے وجو د اور تحقیق کے بعد ہو گی ۔

 

۱۰۶۔وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِاٴَمْرِ اللهِ إِمَّا یُعَذِّبُھُمْ وَإِمَّا یَتُوبُ عَلَیْھِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ۔
ترجمہ
۱۰۶۔ ایک اور گروہ فر مان خدا سے نکل گیا ۔ وہ تو انھیں سزا دے گا اور یا ان کی توبہ قبول کرلے گا (جس کے وہ لائق ہو ں گے) خدا دانا اور حکیم ہے ۔

 


1 اصول کافی جلد ۱ ص ۱۷۱ ( باب عرض الاعمال )
2۔ تفسیر برہان جلد ۲ ص ۱۵۸۔
3۔ اصول کافی جلد ۱ ص ۱۷۱ ( باب عرض الاعمال )۔
 
چند اہم نکات شان ِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma