سنگ دل اور صاحب ِ ایمان بادیہ نشین

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
شانِ نزول چند اہم نکات

گذشتہ آیات میں منافقین مدینہ کے بارے میں گفتگو تھی ۔ ان آیات میں اسی مناسبت سے بادیہ نشین منافقین کی نشانیوں اور افکار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مخلص اور سچے بایہ نشین مومنین کے بارے میں بھی باتی کی گئی ہے ۔
شاید اس وجہ سے کہ مسلمانوں کو خبر دار کیا جائے کہ وہ کہیں یہ خیال نہ کریں کہ منافقین صرف اس شہر میں رہتے ہیں ، بتایا گیا ہے کہ بادیہ نشین منافقین ان سے بھی سخت تر ہیں ۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مسلمانوں پر ان منافقین کی طرف سے بار ہا حملے ہوئے ہیں ۔
لشکر اسلام کی پے در پے فتوحات کے سبب کہیں ایسا نہ ہو کہ اس خطرے کو نظرانداز کردے۔ بہرحال پہلی آیت میں قرآن کہتا ہے : بادیہ نشین اعراب

( تعلیم و تربیت سے دوری اور آیاتِ الہٰی او رپیغمبر کے ارشادات نہ سننے کی وجہ سے ) کفر او رنفاق میں زیادہ سخت ہیں ( الْاٴَعْرَابُ اٴَشَدُّ کُفْرًا وَنِفَاقًا)۔”اسی وجہ سے وہ ان فرامین و احکام کی حدود کی جہالت کے زیادہ حق دار ہیں جو خدا نے اپنے رسول پر نازل کئے ہیں

( وَاٴَجْدَرُ اٴَلاَّ یَعْلَمُوا حُدُودَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ عَلَی رَسُولِہِ
اعراب“ جمع کا معنی رکھنے والے لفظوں میں سے ہے لیکن لغت عرب کے لحاظ سے اس کا مفرد نہیں ہے جیساکہ علماء لغت مثلاًقاموس ، صحاح او رتاج العروس کے موٴلف اور دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ یہ لفظ صرف بادیہ نشین عربوں پر بولا جاتا ہے اور ا س کے مفرد کے لئے یاء نسبت کے ساتھ ” اعرابی“ کی صورت میں بولتے ہیں ۔ اس بناء بہت سے لوگوں کے تصور کے برخلاف ”اعراب“ ” عرب “ کی جمع نہیں ہے ۔
”اجدر“ ” جدار “کے مادہ سے دیوار کے معنی میں ہے بعد ازاں یہ لفظہ رمرتفع او رمناسب چیز کے لئے بولا جانے لگا اس وجہ سے عام طور پر ” اجدر“ زیادہ شائستہ او رمناسب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
آیت کے آخر میں فرمایاگیا ہے :خدا دانا اور حکیم ہے یعنی اگر بادیہ نشین عربوں کے بارے میں اس قسم کا فیصلہ کرتا ہے تو خاص مناسبت کے سبب ہے کیونکہ ان کا ماحصول ایسی صفات رکھتا ہے ( وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ )۔لیکناس بناء پر کہ کہیں یہ وہم پیدا نہ ہو کہ تمام باد یہ نشین عرب یا دنیا کے سب بادیہ نشین ان صفات کے حامل ہوتے ہیں ، بعد والی آیت میں ان میں سے دو مختلف گروہوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔
ار شاد ہوتا ہے : ” ان بادیہ نشین عربوں میں سے ایک گروہ ان لوگوں کاہے جو جب کوئی چیز راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو نفاق یا کمزور ایمان کی وجہ سے اسے نقصان اور خسارہ شمار کرتے ہیں “ نہ کہ ایک کامیابی اور سودمند تجارت ( وَمِنْ الْاٴَعْرَابِ مَنْ یَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ مَغْرَمًا )۔ ۱
”غرامت“بھی اسی مناسبت سے استعمال ہوتاہے کہ جوانسان کے لئے لازمی ہوتا اورجب تک ادانہ کرلے وہ اس سے جد انہیں ہوتی۔ عشق شدید کو بھی ”غرام “ کہتے ہیں کیونکہ وہ انسان کی روح میں اس طرح اترتا ہے کہ جدا نہیں ہوتا او ر”مغرم “ اور ” غرامت “ کا ایک ہی معنی ہے ۔
ان کی ایک صفت یہ ہے کہ ” ہمیشہ اس انتظارمیں رہتے ہیں کہ تمہیں مشکلات گیر لیں اور بد بختی او رناکامی تمہیں آلے (وَیَتَرَبَّصُ بِکُمْ الدَّوَائِرَ
”دوائر “ ” دآئرہ “ کی جمع ہے اور اس ک امعنی مشہور ہے لیکن وہ سخت اور دردناک حوادث انسان کا احاطہ کرلیتے ہیں عرب انہیں ” دآئرہ“ کہتے ہیں اورجمع کی حالت میں ” دوآئر“ کہتے ہیں ۔
در حقیقت وہ لوگ تنگ نظر ، بخیل اور بہت حاسد ہیں اپنے بخل ہی کی وجہ سے وہ راہ ِ خدا میں ہر طرح کی مالی خدمت کی نقصان شمار کرتے ہیں اور اپنے حسد کی وجہ سے وہ دوسروں کے لئے مشکلات او رمصائب کے انتظار میں رہتے ہیں ۔
مزید فرمایا گیا ہے کہ وہ تمہارے لئے ظہور مشکلات اور نزول ، بلا کا انتظار نہ کریں او رتمہارے ان کی توقع نہ رکھیں ۔ کیونکہ یہ مشکلات، ناکامیاں بد بختیاں صرف اس منا فق ، بے ایمان ، جاہل ، نادان، تنگ نظر اور حاسد گروہ کی تلاش میں ہیں (عَلَیْھِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ 2
آخر میں آیت کواس جملے پر ختم کیاگیا ہے کہ ”خدا سننے والا او رجاننے والا ہے ( وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ) ۔ان کی باتوں کو بھی سنتا ہے او ران کی نیتوں او رمافی الضمیر سے بھی آگاہ ہے ۔
آخری آیت میں دوسرے گروہ یعنی بادیہ نشینوں میں سے مخلص مومنین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان بادیہ نشین عربوں میں سے ایک گروہ ان کا ہے جو قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ( وَمِنْ الْاٴَعْرَابِ مَنْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ
اسی بنا پر وہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو بھی نقصان او رزیاں نہیں سمجھتے بلکہ اس جہان میں دوسرے جہان میں خدا کی وسیع جزا اور ثواب کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس کا کو قریب ِ الہٰی کا ذریعہ ، پیغمبر کی توجہ اور دعا کا باعث سمجھتے ہیں جوکہ افتخار اور عظیم برکت ہے ( وَیَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ
یہاں خدا تعالیٰ ان کی طرز ِ فکر کی بڑی تاکید سے تصدیق کرتا ہے اور کہتا ہے : آگاہ رہو کہ یقینا ان کا یہ انفاق اور خرچ بار گاہ ِ خدا میں قرب کا باعث ہیں (اٴَلاَإِنّھَا قُرْبَةٌ لَھُمْ )۔اور اسی بناء پر ” خدا انھیں بہت جلد اپنی رحمت میں داخل کردے گا ( سَیُدْخِلُھُمْ اللهُ فِی رَحْمَتِہِ )۔ اگر ان سے کچھ لغزشیں ہو تو ان کے ایمان اور اعمال کی وجہ سے انھیں بخش دے گا ” خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ،( إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
اس آیت میں جو پے در پے تاکید یں نظر آتی ہیں بہت جالب توجہ ہیں ۔ لفظ ”الا“ اور ”ان “ دونوں تاکید کے لئے ہیں اس کے بعد ” سید خلھم اللہ فی رحمتہ“کاجملہ اور خاص طور پر اس میں لفظ”فی “ رحمت ِ خدا میں غوطہ زن ہونے کا ظاہر کرتا ہے ۔ بعد میں آخری جملہ بھی ” ان “ سے شروع ہوتا ہے اور خدا کی شفقت و مہربانی کی صفات ” غفورا ً رحیم “ کا ذکر کرتاہے یہ یہ سب اس گروہ کے لئے خدا تعالیٰ کے انتہائی لطف و رحمت کا بیان ہے انھوں نے تعلیم و تربیت سے محروم ہونے اور آیات الہٰی اور ارشادات پیغمبر تک کافی رسائی نہ ہونے کے باوجود جان و دل سے اسلام قبول کیا ہے ا ور مالی وسائل نہ رکھنے کے باوجود ( کہ جو ان کی بادیہ نشینی کا لازمہ ہے )وہ راہ خدا میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔ شاید اس بناء پر یہ لوگ شہروں میں رہنے والے اور ہر طرح کے وسائل رکھنے والے افراد کی نسبت قدر دانی کے زیادہ حق دار ہیں ۔
اس نکتہ کی جانب خصوصیت سے توجہ در کار ہے کہ منافق اعراب کے بارے میں ” علیھم دآئرة السوء“ استعمال ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بد بختیاں ان پر محیط ہیں ۔ لیکن باایمن اور فداکار اعراب کے لئے ” فی رحمتہ’“ استعمال ہوا ہے جو ان پر رحمت ِ الہٰی کے محیط ہونے کوبیان کرتا ہے ایک گروہ کو بد بختی نے گھیر رکھا ہے اور دوسرے پر رحمت ِ الہٰی احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

 


۱۔”مغرم “ جیس اکہ مجمع البیان میں آیا ہے ”غرم “ ( بروزن ”جرم “) کے مادہ سے ہے ۔ در اصل یہ کسی چیز کے لازم ہونے کے معنی میںة ے بعد ازاں قرض خواہ اور مقروض کو ”غریم “ کہا جاتا ہے ج وایک دوسرے کو نہیں چھوڑتے اور لازمی طور پر ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے ہیں ۔
2۔ یہ جملہ حصر ک امعنی دیتا ہے یعنی برے حوادث پس انھی دامن گیر ہوتے ہیں اور یہ انحصار اس بناء پر ہے کہ ”علیھم “ جو خبر ہے مبتداء سے مقدم ہے ۔

 

شانِ نزول چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma