خد اہر جگہ ناظر ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
دو قابل توجہ نکات روحانی سکون ایمان کے زیر سائی ہے

گزشتہ آیات میں اور قرآن میں خدا کے وعظ و نصیحت اور ہدایت و رحمت کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیر بحث آیات میں اسی مناسبت سے مشرکین کے گھڑے ہوئے قوانین اور جھوٹے احکام کے بارے میں بات کی گئی ہے کیونکہ جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ تمام نعمات اور رزق اس کی طرف سے ہے اسے چاہئیے کہ وہ یہ حقیقت بھی قبول کرے کہ ان نعمات کے بارے میں حکم دینا اور ان کے بارے میں حلال و حرام کا تعین خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کے اذن اور حکم کے بغیر اس کام میں دخل اندازی صحیح نہیں ہے ۔
زیر نظر پہلی آیت میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان سے کہہ دو کہ خد انے جو رزق تمہارے لئے نازل کیا ہے اس میں سے کیوں کچھ کو حرام قرار دیتے ہو او رکچھ کو حلال ( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ مَا اٴَنْزَلَ اللهُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہُ حَرَامًا وَحَلَالًا ) ۔اپنی بے ہودہ رسوم کے مطابق کچھ چوپایوں کو سائبہ ، کچھ کو بحیرہ اور کچھ کو وصیلہ ۱
کہتے ہو اسی طرح تم نے اپنی کھیتی باڑی کے بعض محصولات کو حرام قرار دے رکھا ہے اور ان کو ان پا ک نعمتوں سے محروم رکھا ہے علاوہ ازیں یہ امر تم سے مربوط نہیں ہے کہ کس چیز کو حلال ہونا چاہئیے او رکس چیز کو حرام ۔ یہ امر تو صرف ان کے پر وردگار اور خالق کے اختیار میں ہے ۔
کہہ دو : کیا خدا نے تمہیں اجازر دی ہے کہ ایسے قوانین وضع کرو یاخدا پرافتراء باندھتے ہو(قُلْ اٴَاللهُ اٴَذِنَ لَکُمْ اٴَمْ عَلَی اللهِ تَفْتَرُونَ ) ۔یعنی اس کام کی دوہی صورتیں ہوسکتی ہیں کوئی تیسری نہیں یا تو ایسا پر وردگارکی اجازتسے ہو اور یا پھر یہ تہمت اور افتراء ہے اور چونکہ پہلی بات نہیں ہے لہٰذا تہمت اور افتراء کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔
اب جبکہ یہ مسلم ہو گیا ہے کہوہ اپنے ان خود ساختہ اور بے ہودہ احاکم کے ذریعے نعمات الہٰی سے محروم ہو ئے ہیں اور پر وردگار کی ذات ِ مقدس پر افتراء باندھا ہے لہٰذا مزید فرمایا گیا ہے جو خڈا پر جھوٹ ناھتے ہیں وہ روز قیامت کی سزا کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیا انھوں اس دردناک سزا سے نجات کا کوئی بند و بست کیا ہے ( وَمَا ظَنُّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیَامَة ) ۔لیکن ” لوگوں پر خدا فضل اور رحمت وسیع ہے “ لہٰذا وہ انھیں ایسے برے اعمال پر سزا نہیں دیتا( إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ ) ۔مگر وہ لوگ بجائے اس کے کہ اس خدائی مہلت سے فائدہ اٹھائیں ، عبرت حاصل کریں اس کا شکر بجالائیں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں ۔
” ان میں سے اکثر غافل ہیں “ اور وہ اس عظیم نعمت کا شکر بجا لاتے ( وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَھُمْ لاَیَشْکُرُونَ ) ۔
اس آیت کی تفسری میں یہ احتمال بھی ہے کہ ان تمام نعمات اور رزق کا حلال ہو نا ( سوائے چند نقصان دہ اور ناپاک مستثنیٰ چیزوں کے ) خو د خدا کی ایک عظیم نعمت ہے اور بہت سے لو گ اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کی بجائے نا شکری کرتے ہیں او ربے ہودہ احکام اور چیزوں کو بلا دلیل ممنوع قرار دے کر اپنے آپ کو ان سے محروم رکھتے ہیں ۔
اس بناء پر کہیں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ خداکی یہ مہلت اس لےے کہ وہ ان کے کرتوتوں کو نہیں جانتا، زیر بحث آکری آیت میں یہ حقیقت نہایت عمدہ عبارت سے بیان کی گئی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی وسعت میں تمام ذرات موجودات او ربندوں کے اعمال کی جزئیات سے باخبر ہے ، ارشاد ہو تا ہے : تو کسی حالت اورکسی اہم کام میں نہیں ہوتا اور تو کسی آیت کی تلاوت نہیں کرتا، اور وہ کوئی عمل انجام نہیں دیتے مگر یہ کہ ہم اس پر شاہد او رناظر ہوتے ہیں جب بھی وہ کام کرنے لگتے ہو( وَمَا تَکُونُ فِی شَاٴْنٍ وَمَا تَتْلُوا مِنْہُ مِنْ قُرْآنٍ وَلاَتَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُودًا إِذْ تُفِیضُونَ فِیہِ) ۔2
”شہود“ ” شاہد “ کی جمع ہے یہ اصل میں حضور اور موجودگی کے معنی میں ہے ۔ جس میں آنکھ یا قلب و فکر کا مشاہدہ شامل ہو۔
جمع کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ نہ صرف خدا بلکہ فرشتے جو اس کے فرمانبردار ہیں اور انسانوں کے اعمال کے نگران ہیں ان کے سب کاموں سے باخبر ہیں اور ان کے شاہد و ناظر ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ خدا کے بارے میں جمع کا صیغہ جب کہ اس کی ذات پ اک ہر لحاظ سے یکتا و بیگانہ ہے ، اس کے مقام کی عظمت کی طرف اشارہ ہے اور ہمیشہ ا سکے مامور ا س کے فر مان کے تابع ہیں اور اس کے امر کی طاعت کے لئے تیار ہیں ۔
اور درحقیقت گفتگو صرف اس کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے تمام مطیع مامورین کے بارے میں بھی ہے ۔
اس کے بعدخداکی تمام چیزوں سے آگاہی کے مسئلے پر زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : زمین اور آسمان میں چھوٹی سے چھوٹی چیز یہاں تک کہ کوئی ذرّہ بے مقدار بھی تیرے پر وردگار کے علم کی نظر سے مخفی نہیں رہتا نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے او رنہ اس سے بڑی ۔ ،گر یہ کہ سب کی سب لوحِ محفوظ اور علم خدا کی واضح کتاب میں ثبت ہے ( وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَبِّکَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفِی السَّمَاءِ وَلاَاٴَصْغَرَ مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْبَرَ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ) ۔
”یعذب “ اور ”عذوب“ کے مادہ سے در اصل گھر اور گھر والوں سے چوپایوں کے لئے چراگاہ تلاش کرنے کے لئے جدائی کے معنی میں ہے بعد ازاں یہ لفظ مطلقاً غیبت اور جدائی کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔
”ذرة“ نہایت چھوٹے سے جسم کے معنی میں ہے ۔ اسی لئے چوھٹی چھوٹی چونٹیوں کو بھی ”ذرہ “ کہا جاتا ہے ۔
مزید وضاحت کے لئے جلد سوم ص ۲۸۹ کی طرف مراجعت کیجئے ۔
”کتاب مبین “ پر وردگارکے وسیع علم کی طرف اشارہ ہے کہ جسے بعض اوقات ” لوح محفوظ“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
( اس بارے میں جلد پنجم ص۱۸۵، اردو ترجمہ پر بھی بات کی گئی ہے ) ۔

چند اہم نکات

۱۔ قانون بنانے کا حق صرف خدا کو ہے : مندرجہ بالاآیات کی مختصر سی عبارتوں کے ذریعہ یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ قانون بنانے کا حق خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور جو شخص اس کے فرمان اور اجازت کے بغیر ایسا کرے تو وہ خدا پر تہمت اور افتراء کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ رزق اور تمام عالم ہستی کی نعمات اس کی جانب سے نازل ہوتی ہیں اور در حقیقت ان سب کا حقیقی مالک وہی ہے ۔ اسی لئے اسی کو حق پہنچتا ہے کہ کسی کو جائز یا ناجائز قرار دے ۔ البتہ اس سلسلے میں اس کے احکام خود بندوں کے مفاد میں ہیں اور انہی کے تکامل و ارتقاء کے لئے ہیں اور اسے ان کی ذرہ بھر بھی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن بہر حال صاحبِ اختیار اور قانون گزار وہی ہے مگر یہ کہ جتنا مناسب سمجھے کسی پیغمبر کو یا کسی حد تک کوئی اجازت دے دے ۔
جیسا کہ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام بعض امور کو واجب یا حرام قرار دیتے تھے کہ جنہیں روایات کی زبان میں ” فرض النبی “ کہا جاتا ہے البتہ یہ سب کے سب خدا کے حکم کے تابع ہیں اور ایسے اختیارات ہیں جو پیغمبر اکرم کو ودیعت کئے گئے ہیں ۔
” اللہ اذب لکم “ اس پر دلیل ہے کہ ہوسکتا ہے کہ خدا اس قسم کی اجازت کسی کو دے ۔
یہ مسئلہ ” ولایت تشریعی “ کی بحث سے مربوط ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ کسی دوسرے مقام پر ہم تشریح کے ساتھ بیان کریں گے ۔
۲۔ رزق کا نزول : مندرجہ بالا آیات میں ارزاق کے لئے نزول کی تعبیر استعمال ہوئی ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ صرف بارش کا پانی آسمانی سے اترتا ہے ۔ یہ یا تو اس بناء پر ہے کہ بارش کے یہ حیات بخش قطرے تمام تر رزق کی اصل بنیاد ہیں اور یا اس بناء پر ہے کہ مرادنزول مقامی ہے کہ جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے ۔ یہ تعبیر روز مرہ کی گفتگو میں نظر آتی ہے کہ اگر ایک بزرگ شخص کی طرف سے کوئی حکم یا احسان کسی چھوٹے شخص کے لئے ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ” اوپر “ سے معین کیا گیا ہے یا اوپر سے ہمیں ملا ہے ۔
۳۔ علماء علم اصول کا ایک استدلال : علما ء علم اصول نے ” اٴ للہ اذن لکم ام علی اللہ تفترون “سے ” اصل عدم حجیت ظن“ کو ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ احکام الہٰی میں سے کوئی یقین کے بغیر ثابت نہیں کیا جاسکتا ورنہ خدا پر افتراء ہو گا کہ جو حرام ہے ۔
البتہ اس استدلال پر ہمارے کچھ اعتراجات ہیں کہ جو ہم نے علم اصول کے مباحث میں ذکر کئے ہیں ۔
۴۔ ایک درس : مندرجہ بالاآیات میں سے ہمیں ایک اور درس بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قانون خدا کے مقابلے میں قانون بنا نا جاہلیت کا طریقہ ہے ۔
ایسے لوگ اپنے آپ کو حق دار سمجھتے تھے کہ اپنے نارسا اور ناپختہ افکار سے احکام تراش لیں ۔ ایک حقیقی خدا پرست ہر گز ایسا نہیں ہوسکتا ۔
یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ایمان ب اخدا کا دم بھر تے ہیں اس کے باوجود دوسروں کے غیر اسلامی قوانین کی طرف دست سوال دراز کرتے ہیں یا جو قوانین ِ اسلام کو ناقابل عمل قرار دے کر خود قانون وضع کرتے ہیں وہ بھی جاہلیت کے طریقوں کے پیروکار ہیں ۔
حقیقی اسلام قابل تقسیم اور تجزیہ پذیر نہیں ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو اس کے قوانین کو قبول کرنا چاہئیے اور یہ جو بعض کہتے ہیں کہ اس کے سب قوانین قابل اجراء ہیں ، ان کی سوچ بے بنیاد اور یہ خیال ایک قسم کی مگرب زدگی اور خود نمائی پر مبنی ہے ۔
البتہ اسلام اپنی جامعیت کے لحاظ سے بعض مسائل میں اصول بیان کرکے ہمارے ہاتھ کھلے رکھتا ہے تاکہ ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق شوریٰ کے اصولوں کی روشنی میں ہم تنظیم کریں اور انھیں جاری کریں ۔
۵۔ علم الہٰی کے تین پہلو : محل ِ بحث آخری آیت میں علم پر وردگار کی وسعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین نکتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ تو کسی کام اور حالت میں نہیں ہے اور کوئی آیت تلاوت نہیں کرتا اور تم لوگ کوئی عمل انجام نہیں دیتے ہو مگر یہ کہ ہم تم پر شاہد اور ناظر ہیں ۔
یہ تین تعبیریں اصل میں انسانوں کے افکار ، گفتار اور کردار کی طرف اشارہ ہیں ،یعنی جس طرح خدا ہمارے اعمال دیکھتا ہے ،۔ ہماری باتوں کو بھی سنتا ہے اور ہمارے افکار اور نیتوں سے بھی آگاہ ہے اور ان میں سے کوئی چیز بھی علم پر وردگار کے دائرے سے خارج نہیں ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ نیت اور روح کی کیفیت کا مرحلہ پہلے آتا ہے ، گفتگو اس کے بعد ہوتی ہے اور کردار کا مرحلہ آخر میں آتا ہے ۔ اسی لئے آیت میں بی اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔
یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کا ذکر مفرد کی شکل میں پیغمبر سے خطاب کی صورت میں ہے اور تیسرے مرحلے کاذکر جمع کی صورت میں ہے اور تمام مسلمانوں سے خطاب ہے ، جیسا کہ خدا کی طرف سے آیات ِ قرآن لے کر انھیں لوگوں کے سامنے تلاوت کرنا بی آنحضرت سے مربوط ہے ۔ لیکن ان پر وگراموں پر عمل کرنا ساری ملت سے مربوط ہے اور کوئی شخص اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔
۶۔ ہماری ہر کیفیت کی نگرانی ہورہی ہے : زیر نظر آخری آیت میں تمام مسلمانوں کے لئے ایک عظیم درس موجود ہے کہ جو انھیں راہ حق پر ڈال سکتا ہے اور انحرافات سے روک سکتا ہے یہ ایک ایسا درس ہے کہ جس کی ط رف توجہ کرنے سے صالح اور پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں یہ حقیقت نظر میں رکھنا چاہئیے کہ ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں ، جو بھی بات کرتے ہیں ، جو کچھ بھی سوچتے ہیں ، جس طرف بھی دیکھتے ہیں او رہم جس حالت اور کیفیت میں بھی ہوتے ہیں نہ صرف خدا کی پا ک ذات بلکہ اس کے فرشتے بھی ہمارے نگران ہوتے ہیں اور پوری توجہ سے ہمیں دیکھتے ہیں ۔ زمین و آسمان کے طول و عرض میں چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی خدا کی نگاہ سے پنہاں نہیں ہوسکتی ، نہ صرف پنہاں نہیں ہوتی بلکہ لوحِ محفوظ میں بھی ثبت ہوتی ہے اور اس میں تبدیلی ، اشتباہ یا غلطی نہیں ہوسکتی۔ نہ خدا کے علم بے پایاں کے صفحہ میں نہ مقرب فرشتوں اور بندوں کے اعمال لکھنے والوں کی سوچ میں اور نہ ہماری ڈائری اور ہمارے نامہ اعمال میں  کہیں بھی تبدیلی ، اشتباہ یا غلطی نہیں ہو سکتی۔
بلاوجہ نہیں ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
کان رسول اللہ اذا قرء ھٰذہ الاٰیة بکی بکاء شدیداً۔
جب رسول اللہ اس آیت کی تلاوت کرتے تھے تو شدت سے گریہ کرتے تھے ۔ ( مجمع البیان جلد ۵ ص ۱۱۶، مذکورہ آیت کے ذیل میں )جب رسول اللہ اپنے خلوص و بندگی ، خدمت خلق او رعبادت ِ خالق کے باوجود علم خدا کے سامنے ترساں ہوتوہماری اور دوسروں کی حالت واضح ہے ۔

 

۶۲ ۔اٴَلاَإِنَّ اٴَوْلِیَاءَ اللهِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُونَ۔
۶۳۔ الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ۔
۶۴۔ لَھُمْ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ لاَتَبْدِیلَ لِکَلِمَاتِ اللهِ ذَلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ۔
۶۵۔ وَلاَیَحْزُنْکَ قَوْلھُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّہِ جَمِیعًا ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ۔

ترجمہ

۶۲۔ آگاہ رہو کہ خدا کے اولیاء ( اور دوست) نہ ڈرتے ہیں اور نہ غمگین ہوتے ہیں ۔
۶۳۔ وہی کہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ( حکم خدا کی مخالفت سے ) پر ہیز کیا ۔
۶۴۔ وہ دنیاوی زندگی اور آخرت میں خوش ( اور مسرور ) ہیں ۔ خدا کے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی اور عظیم کامیابی ہے ۔
۶۵۔ ان کی گفتگو تجھے غمگین نہ کرے ۔ تمام عزت و قدرت خدا کے لئے ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
 


۱۔ ”بحیرہ “ اس جانور کو کہتے ہیں جس نے کئی مرتبہ بچہ جنا ہو ۔” سائبہ “ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس نے دس یا بارہ بچے دئیے ہوں اور ” وصیلہ “ اس گوسفند کو کہتے ہیں جس نے سات بچے دئیے ہو ں ( مزید وضاحت کے لئے جلد پنجم ص۹۷ کی طرف رجوع کریں ) ۔
2-بعض مفسرین ضمیر ” منہ “ کو خدا کی طرف پلٹا تے ہیں یعنی جو آیات تو خدا کی طرف سے پڑھتا ہے ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ ضمیر لفظ شان یا قرآن کی طرف لوٹتی ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے یعنی وہ آیات جن کی کسی اہم کام کے بارے میں تو تلاوت کرتا ہے یا قرآن کی جو آیات تو تلاوت کرتا ہے ۔
دو قابل توجہ نکات روحانی سکون ایمان کے زیر سائی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma