مندرجہ بالا آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں اگر چہ کئی ایک روایات نقل ہوئی ہیں لیکن جیسا کہ ہم دیکھیں گے ان میں سے کوئی بھی آیت کی شانِ نزول نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس کے مصداق کا بیان ہے ۔
بہر حال گزشتہ آیات میں کفار اور منافقین کی حالت بیان ہوئی ہے ، ان کے بعد اب زیر نظر آیت میں سچے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے اور ان تین گروہ بیان کئے گئے اول وہ جو اسلام اور ہجرت میں سبقت کرنے والے تھے (وَالسَّابِقُونَ الْاٴَوَّلُونَ مِنْ الْمُھَاجِرِینَ )۔
دوسرے وہ جو رسول اللہ کی نصرت او رمدد کرنے والوں میں پہل کرنے والے اور انصار مدینہ تھے (وَالْاٴَنصَارِ )۔
تیسرے وہ جو دونوں گروہوں کے بعد آئے اور انھوں نے ان کے طریقوں کی پیروی کی ، نیک اعمال بجالانے میں ، اسلام قبول کرنے میں ہجرت کرنے میں ، رسول اللہ کے دین کی مدد کرنے میں انھوں نے پہلے دو گرہوںکا ساتھ دیا (وَالَّذِینَ اتَّبَعُوھُمْ بِإِحْسَانٍ)۔۱
ہم نے جوکچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ” باحسان “ در اصل اعمال و عقائد کا بیان مقصود ہے کہ جن میں وہ سابقین ِ اسلام کی پیروی کرتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ”احسان “ ان اعمال کا وصف ہے کہ جن کی اتباع ہوتی ہے لیکن آیت کے معنی میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیاہے ۔ کہ احسان صفت ِ اتباع کی کفیت ہے یعنی وہ اچھے طریقے سے پیروی کرتے ہیں ۔ پہلی صورت میں باقی ”فی “ کے معنی میں ہے جب کہ دوسری صورت میں ” مع“ کے معنی میں ہے البتہ ظاہراً آیت پہلی تفسیر سے مناسبت رکھتی ہے ۔
ان تینوں گروہوں کے ذکر کے بعد فرمایا گیا ہے : خد ابھی ان سے راضی ہے اور وہ بی خدا سے راضی ہیں ( رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوا عَنْہُ )۔
خد اکا ان سے راضی ہونا ان کے ایمان او ران کے انجام کردہ نیک اعمال کی بناء پر ہے اور ان کا خدا سے راضی ہونا خدا کی طرف سے عطا کردہ اچھی جزاوٴں اور نہایت اہم عنایات کے باعث ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جو کچھ خدا ان سے چاہتا تھا انھوں نے انجام دیا ہے اور جو کچھ وہ خدا سے چاہتے تھے خدا نے انھیں عطا فرمایاہے ۔ اس بنا پر خدا نے ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہےں ۔
گزشتہ جملہ اگر چہ تمام طرح کی مادی و معنوی نعمات پر محیط ہے لیکن تاکید کے طور پر اور اجمال کے بعد تفصیل کے لئے مزید فرمایا گیا ہے خدا نے ان کے لےے باغات بہشت تیار کئے ہیں جن درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں (وَاٴَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الْاٴَنْہَارُ )۔اور اس نعمت کی خصوصیا ت میں سے ہے کہ یہ دائمی اور جاودانی ہے ” اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے “ ( خَالِدِینَ فِیہَا اٴَبَدًا )۔ اور یہ تمام مادی و معنوی نعمتیں ان کے لئے عظیم کامیابی شمار ہوگی ( ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ )۔
اس سے بڑھ کر کیا کامیابی ہ وگی کہ انسان محسوس کرے کہ اسے پیدا کرنے والا معبود مولا اس سے خوش اور راضی ہے اوراس کے کام کی تائید کی ہے اور اسے پسند کیا ہے اور اس سے بڑھ کر کیا کامیابی ہو گی کہ انسان چند روزہ زندگی میں کئے ہوئے محدود اعمال سے غیر متناہی ابدی نعمات حاصل کرے۔