خدائی سزا میرے ہاتھ میں نہیں ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
تفسیرچند اہم نکات

منکرین حق کو عذاب اور سزا کی تہدیدوں کے بعد اب ان آیات میں پہلے تو ان کی تکذیب اور تمسخر بھری بات بیان کی گئی ہے : وہ کہتے ہیں کہ عذاب کے بارے میں تم جو وعدہ کرتے ہواگر سچ ہوتو وہ کب ہے ؟ (وَیَقُولُونَ مَتَی ھَذَا الْوَعْدُ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ ) ۔
یقینا یہ باتیں پیغمبر اسلام کے زمانے کے مشرکین کرتے تھے ۔ کیونکہ بعد والی آیات جس میں پیغمبر اکرم کا جواب موجود ہے اس امر پر شاہد ہے ۔
بہر حال اس طرح سے وہ پیغمبر کی تہدوں کے بارے میں اپنی اعتنائی کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے اور جو افراد ان تہدیدوں کی وجہ سے متزلزل ہو گئے تھے ان کے قوت قلب اور سکون ِ فکر کا سامان کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے جواب میں خدا تعالیٰ پیغمبر اکرم کو حکم دیتا ہے کہ انھیں چند طریقوں سے جواب دیں ۔
پہلا یہ کہ فرماتا ہے :ان سے کہہ دو کہ ان کام کا وقت اور وعدہ گاہ میرے اختیار میں نہیں ہے ۔ میں اپنے لئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں ، چہ جائیکہ تمہارے لئے ، مگر جو کچھ خدا چاہے ۔ اور جو وہ ارادہ کرے ( قُلْ لاَاٴَمْلِکُ لِنَفْسِی ضَرًّا وَلاَنَفْعًا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ) ۔میں تو صرف اس کا بھیجا ہوا اور پیغمبرہوں نزول عذاب کے لئے وعدہ گاہ کا وقت کا تعین اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ جب میں اپنے بارے میں نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں تو تمہارے بارے میں بدرجہ اولیٰ نہیں ہو ں گا ۔
یہاں در حقیقت توحید افعالی کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی اس عالم میں تمام چیزوں کی باز گشت خدا کی طرف ہے ۔ ہر کام اسی کی طرف سے ہے کہ جو اپنی حکمت سے مومنین کو کامیابی عطا کرتا ہے او روہی ہے جو منحرفین کو اپنے عدل سے سزا دیتا ہے ْ
واضح ہے کہ یہ اس بات کے منافی نہیں کہ اللہ نے ہمیں قدرت و طاقت دی ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے بعض منافع اور نقصا نات کے مالک ہیں اور اپنی سر نوشت کے بارے میں ہم ارادہ کرسکتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ آیت مالکیت بالذات کی نفی کرتی ہے نہ کہ مالکیت بالغیر کی اور ” الا ماشاء اللہ “ اس کے لئے واضح قرینہ ہے ۔
یہاں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت سے جو بعض متعصب افراد مثلاً مولف المنار نے پیغمبر سے توسل کے جواز کی نفی کا مطلب لیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ اگر توسل سے مراد یہ ہو کہ ہم پیغمبر اکرم کو بالذات صاحبِ قدرت اور مالک ِ سود و زیاں سمجھیں تو مسلم ہے کہ یہ شرک ہے او رکوئی مسلمان یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا او راگر یہ مالکیت خد اکی طرف سے ہو اور ” الاّ ماشاء اللہ “ کے مفہوم کے مطابق ہو تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور یہ عین ایمان و توحید ہے ۔ مذکورہ موٴلف نے اس نکتے سے غفلت کی وجہ سے طویل بحثوں سے اپنا او راپنے قارئیں کا وقت جائع کیا ہے ۔ افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ اس کی تفسیر تمام تر خصوصیات کے باوجود اس میں اشتباہات بہت زیادہ ہیں ۔ جن کا سر چشمہ تعصب کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
دوسرا یہ کہ فرماتا ہے : ہر قوم او رجمیعت کے لئے ایک معین زمانہ او راجل ہے جن ان کی اجل آجاتی ہے تو وہ اس میں نہ ایک گھڑی تاخیر کرسکتے ہیں نہ گھڑی بھر کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں ( لِکُلِّ اٴُمَّةٍ اٴَجَلٌ إِذَا جَاءَ اٴَجَلُھُمْ فَلاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ) ۔
دوسرے لفظوں میںکوئی قو م وم ملت جب راہ حق سے منحرف ہو تو اپنے اعمال کے نتیجے میں خدا کی سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ جب لوگ ایسے راستوں پر چل پڑیں اور آفرینش کے قطعی قوانین سے انحراف کریں تو اپنے مسائل کھو بیٹھتے ہیں اور آخر کار قعر مذلت میں جا گر تے ہیں تاریخ ِ عالم ایسے لوگوں کی مثالوں میں بھری پڑی ہے ۔
مشرکین جو عذاب الہٰی کے آنے میں تعجیل کا تقاضا کرتے تھے ، درحقیقت انھیں خبر داری کرتا ہے کہ وہ بلا وجہ جلدی نہ کریں ، جب وقت آئے گاتو اس عذاب میں لمحہ بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں ہو گی ۔
ضمنی طور پر متوجہ رہنا چاہئیے کہ لفظ ” ساعت “ کبھی لحظہ اور لمحہ کے لئے آتا ہے او رکبھی زمانے کی تھوڑی سی مدت کے لئے آتا ہے اگر چہ آج کل رات دن کے چوبیسویں حصہ ( ایک گھنٹہ ) کو ” ساعت“ کہتے ہیں ۔
تیسرا جواب اگلی آیت میں پیش کرتے ہوئے کہتا ہے : ان سے کہہ دو کہ اگر رات یا دن کے وقت پر وردگار کا عذاب تم پر آجائے تو یہ کوئی غیر ممکن بات نہیں ہے ، کیا تم اس ناگہانی عذاب کو دو کرسکتے ہو ۔( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتًا اٴَوْ نھَارًا ) ۔
ان حالات میں مجرم اور گنہ گار آکر کیوں جلدی کرتے ہیں ( مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ ) ۔۱
بعض نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ ” ماذا یستعجل “ جزائے شرط ہے ، بہت بعید ہے ۔ ( غر کیجئے گا ) ۔
دوسرے لفظوں میں ان جسور مجرموں کو انزولِ عذاب کا یقین ہے تو کم از کم اس کا احتمال تو انھیں ہے ہی کہ اچانک عذاب ان کے پیچھے آجائے ۔ ان کے پاس اس کے لئے کیا بندو سبت ، ضمانت اور دلیل ہے کہ پیغمبر کی تہدید یں بالکل وقوعپذیر نہیں ہوں گی۔ عقل مند انسان کو ایسے احتمال ِ ضرر کی صورت میں بھی کچھ نہ کچھ احتیاط کرنا چاہیئے اور اس سر ڈرنا چاہئیے ۔
ایسا ہی مفہوم دیگر تعبیرات کی صورت میں قرآن کی سدوسری آیات میں میں موجودہے : مثلاً: افامنھم ان یخسف بکم جانب البر او یرسل علیکم حاصباً ثم لا تجدو ا لکم وکیلاً ۔
کیاتم اس سے مامون ہو کہ خدا تمہیں زمین کے کسی حصہ میں اندر سمادے ( یعنی تم زمین میں دھنس جاوٴ) یا تم پر آسمان سے سنگریزے برسائے اور پھر تم اپنے لئے کوئی نگہبان نہ پاوٴ۔ ( بنی اسرائیل  ۶۸)
یہ وہی چیز ہے جسے علم کلام اور علم اصول میں ” لزوم دفع ضرر محتمل “ کہاجاتا ہے ۔
چوتھا جواب اس سے بعد والی آیت میں دیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے : اگر تم گمان کرتے ہو کہ نزول عذاب کے وقت ایمان لاوٴگے تمہارا ایمان قبول کر لیا جائے گا تو یہ خیال باطل ہے ( اٴَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِہِ ) ۔ کیونکہ نزول عذاب کے بعد توبہ کے در وازے تم پر بند ہو جائےں گے اور پھر ایمان لانے کا ذرہ بھر اثر بھی نہ ہوگا ۔ بلکہ ” تم سے کہا جائے گا کہ اب ایمان لارہے ہو جب کہ پہلے تم تمسخر اور تکذیب کرتے ہوئے عذاب کے لئے تعجیل کرتے تھے (اٴَالْآنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہِ تَسْتَعْجِلُونَ ) ۔
یہ ان کی دنیاوی سزا ہے ” پھر روز قیامت جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ، ان سے کہا جائے گا ابدی اور ہمیشہ کا عذاب چکھو“( ثُمَّ قِیلَ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ ) ۔
کیا جو کچھ تم نے انجام دیا ہے تمہیں اس کے سوا سزا دی جائے گی ( ھَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُونَ) ۔
یہ در حقیقت تمہارے ہی اعمال ہیں جو تمہیں دامن گیر ہوئے ہیں ، وہی تمہارے سامنے مجسم ہو ئے ہیں اور وہی تمہیں ہمیشہ تکلیف و آزار پہنچاتے ہیں ۔

 

تفسیرچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma