یہ خوبی ہے عیب نہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
چند اہم نکات شانِ نزول

آیت مذکورہ کی کئی ایک شانِ نزول بیان کی گئی ہےں جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ لوگ ایک دوسرے کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت رسول اکرم کے متلعق نازیبا اور ناپسند یدہ باتیں کر رہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے کہا ” ایسا کرو “ کیونکہ ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں یہ باتیں محمد کے کان تک نہ پہنچ جائیں او رکہیں وہ ہمیں بر ابھلا نہ کہے ( اور لوگوں کو ہمارے خلاف نہ ابھارے ) ان میں سے ایک نے جس کا نام”جلاس “ تھا کہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ہم جو چاہیں گے اور اگر اس کے کانوں تک یہ بات پہنچ گئی تو ہم اس کے پاس جا ئیں گے اور انکا ر کردیں گے اور وہ ہماری بات قبول کرلیں گے کیونکہ محمد خوش باور اور قول کو تسلیم کرنے والا ہے او رجو شخص جو بات بھی کہے اسے قبول کرلیتا ہے ۔ اس وقت آیتِ بالا نازل ہوئی او راس کے ذریعے انھیں جواب دیا گیا ۔

تفسیر

اس آیت میں جیسا کہ اس کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے ایک یا کئی افراد کے بارے میں گفتگو ہے جو پیغمبر اکرم کو اپنی باتوں سے تکلیف پہنچا تے تھے اور کہتے تھے کہ وہ خوش باور اور قول کا اعتبار کرنے والا ہے (وَمِنْھمْ الَّذِینَ یُؤْذُونَ النَّبِیَّ وَیَقُولُونَ ہُوَ اٴُذُنٌ ) ۔
” اذن “ اصل میں کان کے معنی میں ہے  ان لوگوں کو جو دوسروں کی باتیں بڑی توجہ سے سنتے ہیں اور اصطلاحاً ( فارسی میں ) انھیں ” گوشی “ کہتے ہیں ان کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ۱
وہ لوگ حقیقت میں رسول اکرم کی ایک خوبی کو جس کا ایک رہبر میں ہو نا نہایت ضروری ہے ، ایک برائی کے لباس میں پیش کرتے تھے اور وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ایک محبوب رہبر کے لئے ضروری ہے کہ انتہائی لطف و محبت کا مظاہرہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو لوگوں کو عذر اور معذرت کو قبول کرے اور ان کے عیب چھپائے ۔
مگر وہاں نہیں جہا ں اس کا برا اثر پڑے ۔ اسی لئے قرآن اس کے فوراً بعد فرمایا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ اگر پیغمبر تمہاری باتوں کی طرف کان دھرتا ہے اور تمہارے عذر قبول کرتا ہے اور تمہارے گمان میں ہمہ تن گوش او رجلدی اعتماد کرنے والاہے ، تویہ بات تمہارے فائدے میں ہے (قُلْ اٴُذُنُ خَیْرٍ لَکُمْ )۔کیونکہ اس طرح وہ تمہاری عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے او رتمہارے وقار کو ٹھیس نہیں لگا تا او رتمہارے خیالات و جذبات کو مجروح نہیں کرتا اور اس طریقے سے تمہاری محبت ، اتحاد اور وحدت کے لئے کوشاں ہے ۔
کیونکہ اگر وہ فوراً پردہ اٹھا دیتا اور جھوٹوں کو ذلیل و رسوا کرتا تو تمہارے لئے بڑی کٹھن صورت حال ہوتی ۔ علاوہ ازیں اگر ایک جماعت کے عزت و آبروختم ہو جاتی تو پھر اس کے لئے توبہ اور باز گشت کا راستہ بند ہوجاتا ۔ اور و ہ گنہ گار لوگ جو ہدایت کے قابل تھے بد کاروں کی صف میں جاکھڑے ہوتے اور پیغمبر کے پاس سے دور ہوتے جاتے ۔
ایک ہمدرد اور مہر بان قائد کو جبکہ وہ پختہ کار اور دانا بھی ہے ، ان سب باتوں کو سمجھنا چاہئیے لیکن ایسی بہت سی چیزوں کو زبان پر نہیں لانا چاہئیے تاکہ وہ افراد جو تربیت کی اہلیت رکھتے ہیں انکی تربیت ہو جائے اور ا س کے مکتب سے نہ بھاگیں اور لوگوں کے اسرار بھی ظاہر نہ ہوں ۔ اس کا آیت کے معنی میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ خدا عیب جوئی کرنے والوں کے جواب میں کہتا ہے :
” ایسا نہیں ہے کہ وہ سب کی باتوں کو قابل اعتنا سمجھتا ہے بلکہ سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسی باتوں پر کان دھرتا ہے جو تمہارے فائدے میں ہوں یعنی خداکی وحی کو سنتا ہے ، مفید تجویز پر کان دھرتا ہے او رلوگوں کی عذر خواہی ایسے مواقع پر قبول کرتا ہے جبکہ وہ ان کے اور معاشرے کے مفاد میں ہو“ 2
اس کے بعد اس وجہ سے کہ عیب جوئی کرنے والے کہیں اس بات سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا ئیں اور اسے سند قرار نہ دے لیں یہ اضافہ فرماتا ہے : وہ خدا او راس کے احکامات پر ایمان رکھتا ہے اور سچے مومنوں کیباتوں پر کان دھرتا ہے ، انھیں قبول کرتا او ران پر اقدام کرتاہے (یُؤْمِنُ بِاللهِ وَیُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِینَ )۔
یعنی حقیقت میں پیغمبر دو قسم کے پروگرام رکھتے ہیں ایک ظاہرکی مھافظت اور پر دہ دری سے اجتناب اور دوسرا عمل کا مرحلہ ۔ پہلے مرحلے میں آپ سب کی باتوں کو سنتے ہیں اور بظاہر انکار نہیں ۔ لیکن عمل کے مقام میں ان کی توجہ صرف احکاماتِ خدا اور سچے مومنین کی تجاویز او رباتوں کی طرف ہوتی ہے اور حقیقت پسند قائد کو ایسا ہی ہو نا چاہئیے ۔ کیونکہ معاشرے کے مفادات کا تحفظ اس طریقے کے بغیر ممکن نہیں اس لئے خدا وندِ عالم بلا فاصلہ فرماتاہے : وہ تم میں سے مومنین کےلئے رحمت ہے (وَرَحْمَةٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ )۔
اس مقام پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ ہم چند آیات میں پڑھتے ہیں کہ پیغمبر رحمة للعالمین ہیں ( سورہٴ انبیاء ۱۰۷ ) لیکن مذکورہ آیت کہتی ہے کہ آپ صرف مومنین کے لئے رحمت ہیں ۔ کیا وہ عمومیت اس تخصیص کے ساتھ منا سبت رکھتی ہے ؟ مگر ایک نکتہ کی طرف توجہ دینے دے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے او روہ یہ ہے کہ رحمت کے کئی درجات او رمراتب ہیں جن میں ایک مرتبہ قابلیت اور استعداد ہے اور دوسرا مرتبہ فعلیت ہے ۔ مثلاً بارش اللہ کی رحمت ہے یعنی یہ قابلیت اور اہلیت اس کے سب قطروں میں پائی جاتی ہے کہ وہ خیر و برکت ، نشو ونما اور حیات کا سبب بنیں ۔ لیکن یہ تسلیم شدہ ہے کہ اس رحمت کے آثار کا ظہور صرف انہی زمینوں پر ہوتا ہے جو اس کے قابل ہوں اس وجہ سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بارش کے سب قطرے” رحمت “ ہیں اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ بارش کے یہ قطرے اہل اور قابل زمینوں کے لئے باعث رحمت ہیں ۔ پہلا جملہ اہلیت اور قابلیت کی طرف اور دوسرا جملہ وجود اور فعلیت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اسی طرح حضرت پیغمبر اکرم قابلیت اور استعداد کی رو سے تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں لیکن آپ عملی طور پر مومنین کے لئے مخصوص ہیں ۔
اب یہاں پر ایک چیز باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگ رسول اللہ کو اپنی باتوں سے اذیت و تکلیف پہنچاتے ہیں اور ان کی عیب جوئی کرتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سزا سے بچ جائیں گے یہ ٹھیک ہے کہ حضرت رسول اکرم ان کے بارے میں ایک ذ مہ داری رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ بزرگانہ اور فرخدانہ بر تاوٴ کریں اور انھیں رسوا نہ کریں ۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے اعمال کی سز انہ پائیں گے ۔لہٰذا آیت کے آخر میں قرآن فرماتاہے : وہ لوگ جو رسولِ خدا

 کو اذیت و تکلیف پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے (وَالَّذِینَ یُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَھُمْ عَذَابٌ اٴَلِیم)۔

 

۶۲۔ یَحْلِفُونَ بِاللهِ لَکُمْ لِیُرْضُوکُمْ وَاللهُ وَرَسُولُہُ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُرْضُوہُ إِنْ کَانُوا مُؤْمِنِینَ ۔
۶۳۔ اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّہُ مَنْ یُحَادِدْ اللهَ وَرَسُولَہُ فَاٴَنَّ لَہُ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدًا فِیہَا ذَلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیمُ۔
ترجمہ
۶۲۔ وہ تمہارے سامنے خدا کی قسم کھاتے ہیں تاکہ تمہیں کو رکھیں حالانکہ زیادہ مناسب با ت یہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کو راضی کریں اگر (وہ سچ کہتے ہیں اور ) ایمان رکھتے ہیں ۔
۶۳۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرے ، اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا یہ ایک بڑی رسوائی کی بات ہے ۔

 


۱۔ ار دو میں اسے ” ہمہ تن گوش “ بھی کہا جاتاہے ۔ ( مترجم )
2۔ در حقیقت تفسیر اول کی بنا پر ” اذن خیر“ جوکہ مضاف مضاف الیہ ہے ، صفت موصوف کی طرف اضافت کی قسم سے ہے اور دوسری تفسیر کی بنا پر وصف کی طرف اجافت کے قبیل سے ہے ۔ پہلے احتمال کی بنا پر عبارت کے معنی اس طرح ہوں گے ” وہ تمہارے لئے بات کو قبول کرنے والا اور اچھا سخن پذیر ہے اور دوسرے احتمال کی بنا پر اس کا مفہوم یہ ہے ” وہ اچھی باتوں کو تمہارے فائدے اور نفع کے لئے سنتا ہے “۔
 
چند اہم نکات شانِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma