من پسند معجزات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
تفسیر تفسیر

ایمان اور اسلام سے رو گردانی کرتے ہوئے مشرکین جو بہانے بناتے تھے قرآن دوبارہ ان کا ذکر کرہا ہے کہتا ہے : مشرکین کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے پیغمبر پر کوئی معجزا کیوں نازل نہیں ہوتا ( وَ یَقُولُونَ لَوْ لا اٴُنْزِلَ عَلَیْہِ آیَةٌ مِنْ رَبِّہِ )
البتہ قرآن سے جن کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مراد ہر قسم کا معجزا نہیں تھا ۔ کیونکہ مسلم ہے کہ پیغمبر اسلام کے قرآن کے علاوہ اور بھی معجزات تھے ۔ تو اریخ اسلام اور بعض آیات قرآن اس حقیقت پر گواہ ہے بلکہ ان کی مراد یہ تھی کہ جب بھی وہ کسی من پسند معجزے کی خواہش کریں فوراً اسے پورا کیا جائے ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اعجاز ایک ایسی چیز ہے جو پیغمبر کے اختیار میں ہے اور آپ خود جس وقت جس قسم کے معجزے کا ارادہ کریں انجام دے سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں شاید وہ سمجھتے تھے کہ اپنی اس قوت سے ہر ہٹ دھرمی اور بہانہ جو مدعی کے سامنے کام لیں اور اس کی خواہش کے مطابق عمل کرے ۔
لہذا بال فاصلہ پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ معجزہ خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور عالم غیب اور ما وراء الطبیعت سے مربوط ہے ( فَقُلْ إِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّہ) اس بناء پر معجزا کوئی ایسی چیز نہیں جو میرے اختیار میں ہو اور میں تمہاری خواہش کے مطابق ہر روز ایک نیا معجزا دکھاوٴں اور پھر بھی تم حیلے بہانے کرکے ایمان نہ لاوٴ ۔
آیت کے آخر میں انہیں دھمکی کے انداز میں کہا گیا ہے : اب جبکہ تم ہٹ دھرمی سے دست بردار نہیں ہوتے تو انتظار میں رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں ( ِ فَانْتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرینَ )۔ تم خدائی سزا کے انتظار میں رہو اور میں بھی کامیابی کا منتظر ہوں یا یہ کہ تم اس قسم کے معجزہ کے انتظار میں رہو اورمیں بھی تم ہٹ دھرم لوگوں کی سزا کے انتظار میں ہوں ۔

 

دو اہم نکات

۱۔ آیت میں معجزے سے مراد کیاہے : جیسا کہ ہم سطور بالا میں اشارہ کر چکے ہیں لفظ ” آیہ “ ( معجزہ ) اگر چہ مطلق ہے اور اس کے مفہوم میں ہر قسم کا معجزا شامل ہے لیکن ہامرے پاس ایسے قرائن موجود ہیں جو نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ معرفت پیغمبر کے لئے معجزہ طلب نہین کرتے تھے بلکہ دل پسند معجزات کے خواہاں تھے یعنی وہ ہر روز ایک نئے معجزے کے طلب گار ہوتے تھے اوراس کے لئے روزانہ رسول اللہ سے ایک نیا مطالبہ کرتے تھے اور توقع رکھتے تھے کہ آپ ان کا مطالبہ قبول کر لیں گویا ان کی نظر میں پیغمبر ایک بیکار انسان تھے کہ جنہوں نے تمام معجزات کی کلید اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی اور منتظر رہتے تھے کہ کوئی کسی طرف سے آجائے اوران سے معجزے کی فرمائش کرے وہ اس بات سے غافل تھے کہ اول تو معجزہ فعل خدا ہے اور اسی کے فرمان سے انجام پاتا ہے اور دوم یہ کہ معجزہ پیغمبر کی شناخت کے لئے لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے اور اس کا ایک ہی موقع اس مقصد کے لئے کافی ہے ۔ علاوہ ازیں پیغمبر اسلام نے کافی معجزات ان کے سامنے پیش بھی کئے تھے ۔ مزید برآں ان لوگوں کا مقصد اپنی ذاتی کاہش کی تسکین کے اور کچھ نہ تھا ۔
مندرجہ بالا جملے میں ” آیة “ سے مراد من پسن کے معجزات ہیں ۔ اس بات کے لئے مندرجہ ذیل امور کو بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے ۔
۱۔ آیت کے ذیل میں انھیں دھمکی دی گئی ہے اور اگر واقعاً وہ حقیقت شناسی کے لئے معجزا طلب کرتے توانھیں ہر گز تحدید نہ کی جاتی ۔
۲۔ پہلے کی چند آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ وہ اس قدر ہٹ دھرم تھے کہ رسول اللہ سے کہتے تھے کہ اپنی آسمانی کتاب کو تبدیل کرکے کوئی دوسری کتاب لے آئیں یا کم ازکم وہ آیات جو بت پرستی کی نفی کرتی ہیں ۔ ان میں رد و بدل کر دیں ۔
۳۔ قرآن حکیم میں آیات کی تفسیر کے لئے ایک تسلیم شدہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ القرآن یفسرہ بعضہ بعضاً۔
یعنی ......قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۔
اس حوالے سے اگر قرآن کی آیات مثلا ً سورہ بنی اسرائیل ۹۰ اور ۹۴ . کو دکھایا جائے تو اچھی طرح سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ہٹ دھرم بت پرست ہدایت کے لئے معجزہ طلب نہیں کرتے تھے اسی لئے کبھی کہتے تھے کہ ہم اس وقت تک آپ ایمان نہیں لائیں گے جب تک اس خشک زمین سے چشمے نہ نکال کر دکھاوٴ ۔ کوئی کہتا یہ بھی کافی نہیں ہے بلکہ تمہارے پاس سونے کا محل ہونا چاہیے ۔ کوئی اور کہتا کہ اس سے بھی ہماری تسلی نہیں ہوگی بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان کی طرف پرواز کرو کوئی کہتا کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا بھی کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے ہمارے نام خط لے کر آوٴ ۔ اسی طرح کی یادہ گوئیاں اور فضول باتیں کرتے تھے ۔
جو کچھ ہم نے اس ضمن میں کہا ہے اس سے واضح ہو گیا ہے کہ جو لوگ چاہتے ہیں کہ زیر بحث آیت کو ہر قسم کے معجزے یا قرآن کے علاوہ معجزات کی نفی کی دلیل قرار دیں وہ اشتباہ میں ہیں ۔
اس مسئلے کے بارے میں مزید وضاحت انشاء اللہ سورہ بنی اسرائیل کی آیہ ۵۹ کے ذیل میں آئے گی ۔
۲ ۔ انما الغیب للہ ” میں غیب “ کا مفہوم : ہو سکتا ہے یہ اس طرف اشارہ ہو کہ معجزہ ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق عالم غیب سے ہے اور وہ میرے اختیار میں نہیں ہے اور خدا کے ساتھ مخصوص ہے یا اس طرف اشارہ ہو کہ مصالح امور اور یہ کہ کسی موقع پر حکمت مصلحت کا تقاضا ہے کہ معجزا پیش کیا جائے ۔ دوسرا یہ غیب میں سے ہے اور خدا کے ساتھ مخصوص ہے ۔ وہ جس موقع پر مصلحت دیکھتا ہے اور معجزہ طلب کرنے والے کو حقیقت کا متلاشی سمجھتا ہے ۔ معجزہ نازل کرتا ہے ۔ کیونکہ غیب اور اسرار نہاں اس کی ذات پاک سے مخصوص ہیں ۔
ان میں سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ۔


۲۱۔وَ إِذا اٴَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاء َ مَسَّتھمْ إِذا لَھُمْ مَکْرٌ فی آیاتِنا قُلِ اللَّہُ اٴَسْرَعُ مَکْراً إِنَّ رُسُلَنا یَکْتُبُونَ ما تَمْکُرُون ۔
ھُوَ الَّذی یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتَّی إِذا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِھِمْ بِریحٍ طَیِّبَةٍ وَ فَرِحُوا بِھا جاء َتْھا ریحٌ عاصِفٌ وَ جاء َہھمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکانٍ وَ ظَنُّوا اٴَنّھُمْ اٴُحیطَ بِھمْ دَعَوُا اللَّہَ مُخْلِصینَ لَہُ الدِّینَ لَئِنْ اٴَنْجَیْتَنا مِنْ ھذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرینَ ۔
۲۳ ۔ فَلَمَّا اٴَنْجاھُمْ إِذا ھُمْ یَبْغُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ یا اٴَیّھا النَّاسُ إِنَّما بَغْیُکُمْ عَلی اٴَنْفُسِکُمْ مَتاعَ الْحَیاةِ الدُّنْیا ثُمَّ إِلَیْنا مَرْجِعُکُمْ فَنُنَبِّئُکُمْ بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۔
۲۱ ۔جب لوگو کق پہنچنے والے نقصان کے بعد ہم انھیں رحمت کا مزہ چکھائےں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں مکر کرتے ہیں کرتے ہیں ( اور اس نعمت و رحمت کے لئے غلط سلط توجہات کرتے ہیں ) کہہ دو کہ خدا تم سے زیادہ جلدی چارہ جوئی کرتا ہے اور جو کچھ مکر ( اور سازش ) تم کرتے ہو ہمارے رسول اسے لکھتے ہیں ۔
۲۲ ۔ وہ وہ ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں سیر کراتا ہے یہاں تک کہ تم کشتی میں ہوتے ہو اور موافق ہوائیں انھیں( منزل مراد کی طرف ) لے جاتی ہیں ۔ اچانک سخت آندھیاں چلنے لگتی ہیں اور ہر طرف سے موجیں انھیں گھیر لیتی ہیں اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہلاک ہو جائیں گے تو اس وقت خدا کو خلوص سے پکارتے ہیں کہ اگر تو ہمیں نجات دے دے تو ہم یقینا شکر ادا کریں گے ۔
۲۳ ۔ لیکن جب اس نے انھیں نجات بخشی تو وہ ( دوبارہ ) زمین میں ناحق ظلم کرتے ہیں ۔ اے لوگو! تمہارے ظلم و ستم تمہارے لئے ہی نقصان دہ ہیں ۔ دنیاوی زندگی سے فائدہ ( اٹھاتے ہو ) پھر جلد ہی تمہاری بازگشت ہماری طرف ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ( خدا ) تمھیں اس کی خبر دے گا ۔

 

تفسیر تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma