دو قابل توجہ نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
پہلا مرحلہ موعظہ اور پندو نصیحت ہے ۔خد اہر جگہ ناظر ہے

۱۔ کیا دل احساسات کا مر کز ہے ؟ زیر بحث پہلی آیت اور اس قسم کی بعض دیگر قرآنی آیات کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اخلاقی بیماریوں کا مرکز دل ہے ۔ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں یہ اعتراض پیدا ہوتا کہ ہم جانتے ہیں کہ تمام اخلاقی اوصاف او ر فکری و جذباتی مسائل کا تعلق روح ِ انسانی سے ہے اور دل تو صرف ایک خود کا رپمپ کے طور پر خو ن کی نقل و انتقال اور بدن کے سالموں کی آبیاری اور انھیں غذا پہنچانے کا کام کرتا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ  حق یہی ہے کہ دل صرف جسم انسانی کو منظم رکھنے پر مامور ہے اور نفسیاتی مسائل کا تعلق روح سے ہے لیکن ایک دقیق نکتہ موجود ہے کہ جس کی طرف توجہ کرنے سے قرآن کی اس تعبیر کا مقصد واضح ہو جائے گا اور وہ یہ کہ جسم انسانی میں مرکز موجود ہیں کہ جن میں سے ہر ایک انسان کے نفسانی اعمال کا مظہر ہے یعنی ان دومراکز میں سے ہر ایک نفسانی فعل اور انفعال پر فوراً ردّ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ان میں سے ایک دماغ پر ہوتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں دماغ روح کو فکری مسائل میں مدد دینے کے لئے ایک آلہ ہے ۔اسی لئے غور و فکر کرتے وقت خون دماغ میں تیزی سے حرکت کرتا ہے ، دماغ کے لئے سالمے (Molecules)زیادہ فعل و انفعال کرتے ہیں ، زیادہ غذا جذب کرتے ہیں اور زیادہ لہریں بھیجتے ہیں ۔ مگر جب معاملہ جذبات سے متعلق ہو، مثلاً عشق و محبت ، عزم غصہ ، کینہ ، حسد اور در گزر وغیرہ تو انسان کے دل میں عجیب طرح کی فعالیت پیدا ہو جاتی ہے ، بعض اوقات دل کی دھڑکن بڑی تیزی ہوجاتی ہے اور کبھی حرکت قلب اتینی کمزور پڑجاتی ہے کہ گویا اب دل کام کرنا چھوڑ دے گا ، گاہے ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا دل پھٹنے لگا ہے ۔ یہ سب کچھ اس نزدیکی تعلق کی بناء پر ہے جو دل اور ان نفسیاتی معاملات کے مابین ہے ۔
اسی بناء پر قرآن مجید ایمان کی نسبت دل کی طرف دیتا ہے ۔
ولما یدخل الایمان فی قلوبکم
اور تمہارے دلوں میں ایمان ہر گز داخل نہ ہوگا ۔ ( حجرات  ۱۴)
اسی طرح جہالت ، ہٹ دھرمی اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کو دل کے اندھے پن سے تعبیر کیا گیا ہے :
ولٰکن تعمی القلوب التی فی الصدور
اور لیکن وہ دل جو سینوں میں ہیں ، اندھے ہیں ۔ (حج ۴۶)
یہ بات کہے بغیر نہیں نہ رہ جائے کہ انسان ہمیشہ ، کینہ یا حسد وغیرہ کے وقت ایک خاص اثر اپنے دل میں محسوس کرتا ہے یعنی ان فسیاتی مسائل کے شعلے تپش جسم انسانی میں سب سے پہلے دل میں محسوس ہوتی ہے ۔
البتہ ان تمام باتوں کے علاوہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکاہے کہ ” قلب “ کے معانی میں سے ایک معنی انسانی عقل اور روح کے بھی ہے ۔ لہٰذا اس کا معنی اسی عضو کے ساتھ مخصوص نہیں جو سینے کے اندر ہے اور یہ امر آیات قلب کے لئے خود ایک تفسیر ہے ۔ لیکن تمام آیات ِ قلب کے لئے نہیں بلکہ بعض آیات میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ دل جو سینوں میں ہیں ۔ ( غور کیجئے گا )
۲۔ ”فضل “ اور ” رحمت “ میں کیا فرق ہے ؟ : زیر بحث دوسری آیت میں ”فضل“ اور ” رحمت “ کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟ اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے ۔
الف: بعض نے فضل الہٰی کو ظاہری نعمتوں کی طر ف اور رحمت کو باطنی نعمتوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایک نعمت ِ مادی کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا لفظ نعمت ِ معنوی کی طرف ( اور بار ہا قرآنی آیات میں ” و ابتغوا من فضلہ“ یا ” لتبتغوا من فضلہ “ تحصیل روزی اور مادی نعمتوں کے لئے آیا ہے ) ۔
ب: کچھ مفسرین نے کہا ہے کہ فضل الہٰی نعمت کا آغاز ہے اور اس کی رحمت نعمت کا دوام ہے ( البتہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے فضل نعمت بخشنے کے معنی میں ہے اور اس کے بعد رحمت کے ذکر میں کسی چیز کا اضافہ ہو نا چاہئیے یہ تفسیر قابل فہم ہے ) ۔
یہ جو متعدد روایات میں ہے کہ کہ فضل الہٰی سے مراد جو پیغمبر اور نعمت نبوت ہے اور رحمت پر وردگار سے مراد وجدِ علی اور نعمت ولایت ہے ، شاید اسی تفسیر کی طرف اشارہ ہو کیونکہ رسول اللہ سر آغاز اسلام ہیں ، علی (ع) کی بقاء اور حیات ِ دوام کا سبب ہیں (ایک علت محدثہ اور ایجاد کنندہ ہیں اور دوسرے علت مبقیہ اور بقائے دینے والے ہیں ) ۔۱
ج: یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ” فضل “ پر وردگار کی اس نعمت کی طرف اشارہ ہے جو دوست و دشمن کے لئے عام ہے اور گزشتہ آیت میں ” للموٴمنین ‘ ‘ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ” رحمت“ اس کی مخصوص رحمت کی طرف اشارہ ہے جو باایمان افراد سے مختص ہے ۔
د: ایک اور تفسیر جو ان دونوں الفاظ کے لئے ذکر ہوئی ہے یہ ہے کہ پر وردگار کا فضل ایمان کی طرف اشارہ ہے اور رحمت قرآن کی طرف کہ جس کے بارے میں اس سے پہلے کی آیت میں گفتگو ہو ئی ہے ۔
ان میں سے زیادہ تر معانی آپس میں تضاد نہیں رکھتے اور ہوسکتا ہے یہ سب مفاہیم فضل اور رحمت کے ایک جامع معنی میں جمع ہوں ۔

 

۵۹۔ قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ مَا اٴَنْزَلَ اللهُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ اٴَاللهُ اٴَذِنَ لَکُمْ اٴَمْ عَلَی اللهِ تَفْتَرُونَ ۔
۶۰۔ وَمَا ظَنُّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَھُمْ لاَیَشْکُرُونَ ۔
۶۱۔ وَمَا تَکُونُ فِی شَاٴْنٍ وَمَا تَتْلُوا مِنْہُ مِنْ قُرْآنٍ وَلاَتَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُودًا إِذْ تُفِیضُونَ فِیہِ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَبِّکَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفِی السَّمَاءِ وَلاَاٴَصْغَرَ مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْبَرَ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ۔

 

ترجمہ

۵۹۔ کہہ دو: کیاوہ رزق کو خدائے نے تم پر نازل کیا ہے تم نے اسے دیکھا ہے کہ اس میں سے کچھ تم نے حلال قرار دے دیا ہے اور کچھ کو حرام ۔ کہہ دو : کیا تمہیں خدا نے اجازت دی ہے یا خدا پر افتراء باندھتے ہو( اور اپنی طرف سے کسی کو حلال قرار دیتے ہو او رکسی کو حرام ) ۔
۶۰۔ جو خد اپر افتراء باندھتے ہیں وہ روز قیامت ( کی سزا ) کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ خدا سب لوگوں کےلئے فضل (اوربخشش) کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر گزاری نہیں کرتے ۔
۶۱۔ تم کسی حالت ( اور فکر ) میں نہیں ہوتے، نہ قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کرتے ہواور نہ ہی تم کوئی عمل انجام دیتے ہو مگر یہ کہ جب تم ان میں وارد ہوتے ہو ہم تم پر نگران ہوتے ہیں اور زمین و آسمان میں کوئی چیز تیرے پر وردگار سے مخفی نہیں رہتی ذرہ برابر اور نہ اس سے کم و بیش ۔ مگر یہ کہ وہ سب کچھ واضح کتاب ( اور علم خدا کی لوحِ محفوظ ) میں ثبت ہے ۔
 


۱۔ ان روایات سے آگاہی کے لئے تفسیر نور الثقلین ج۲ ص ۳۰۷ اور ص ۳۰۸ کی طرف رجوع کریں ۔

 

پہلا مرحلہ موعظہ اور پندو نصیحت ہے ۔خد اہر جگہ ناظر ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma