گزشتہ آیات میں ہٹ دھرمی پر مبنی مشرکین کے انکار کے بارے میں بحث آئی ہے ۔ یہاں بھی اسی بحث کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔
پہلی آیت میں ایک نئے طریقے سے پیغمبر کو مقابلے کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اگر وہ تیری تکذیب کریں تو ان سے کہہ دو کہ مریا عمل میرے لئے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ( وَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ لِی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُم) ۔
جو میں انجام دیتا ہوں اس سے تم بیزار ہو اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو میں اس سے بیزار ہوں (اٴَنْتُمْ بَرِیئُونَ مِمَّا اٴَعْمَلُ وَاٴَنَا بَرِیءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ) ۔
بیزاری اور بے اعتنائی کا یہ اعلان جس سے اپنے مکتب پر قطعی اعتماد اور ایمان جھلکتا ہے خاص طور پر ہٹ دھرمی منکرین پر ایک مخصوص نفسیاتی اثر رکتھا ہے یہ اعلان ان پر واضح کرتا ہے کہ اس مکتب کو قبول کرنے میں کوئی اصرار اور جبر نہیں ہے وہ حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو محرومیت کی طرف لے گئے ہیں اور اس طرح صرف اپنے ہی کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
ایسی تعبیریں قرآن کی دیگر آیات میں بھی ہیں ۔ جیسا کہ سورہٴ کافرون میں ہے :۔
لکم دینکم ولی دین ۔
تمہارا دین تمہارے لئے او رمیرا دین میرے لئے ۔
اس بیان سے واضح ہو جا تا ہے کہ ایسی آیات کا مفہوم مشرکین کے مقابلے میں تبلیغ او رجہاد کے حکم کے منافی نہیں کہ ہم انھیں منسوخ سمجھنے لگیں بلکہ جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ یہ بے اعتنائی او ربے نیازی کے انداز میں ہت دھر م او رکینہ پر ور افراد سے ایک منطقی مقابلہ ہے ۔
بعد والی آیات میں حق سے ان کے احراف او رعدم تعلیم کی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: ایک انسان کی ہدایت کے لئے صرف صحیح ، ہلادینے والی اور پر اعجاز آیات اور واضح دلائل کافی نہیں ہیں بلکہ قبول کرنے کے لئے آمادہ گی اور قبولیت حق کی لیاقت بھی ضروری ہے جیسا کہ سبزہ پھول اگانے کے لئے صرف تیارشدہ بیج کافی نہیں ہے ۔ آمادہ زمین بھی ضروری ہے ۔
اسی لئے پہلے فرمایا گیا: ان میں سے ایک گروہ تیری طرف کان تو دھر تاہے لیکن گویا یہ لوگ بہرے ہیں (ومنھم یستمعون الیک ) ۱
باوجودیکہ وہ سننے والا کان نہیں رکھتے ، کیا تم ان بہروں کے کانوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہو، چاہے وہ عقل و ادراک نہ رکھتے ہوں (افانت تسمع الصم ولوکانوا لایعقلون ) ۔
” اور ایک گروہ تیرے طرف آنکھ لگائے ہوئے ہے اور تیرے اعمال دیکھتا رہتا ہے کہ جن میں سے ہر ایک تیری حقانیت او رراست گوئی کی نشانیوں کو دیکھ سکتاہے لیکن گویا یہ لوگ اندھے ہیں “ (وَمِنْھُمْ مَنْ یَنْظُرُ إِلَیْک) ۔ کیا اس کے باوجود تو ان نابینوں کو ہدایت کرسکتا ہے اگر چہ ان کے پاس کوئی بصیرت نہ ہو
( اٴَفَاٴَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوا لاَیُبْصِرُونَ) ۔۲
لیکن جان لو اور وہ بھی جالیں کہ یہ فکری نارسائی، عدم بصیرت ، حق کا چہرہ دیکھنے کے بارے میں اندھا پن او رکلام الہٰی کے لئے ناشنوائی کو ئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے وہ شکم مادر سے اپنے ساتھ لائے ہیں اورخدا نے ان پر کوئی ظلم کیا ہو خود انہیں نے اپنے غلط اعمال ، حق دشمنی اور گناہوں سے اپنی روح کو تاریک کرکے اپنی دیکھنے والی آنکھے اور اہنے سننے والے کان کو بیکار کردیا ہے ، کیونکہ ” خد اکسی شخص پر ظلم کرتا لیکن یہ لوگ ہیں جو خود اپنے اوپر ظلم روا رکھتے ہیں “ ( إِنَّ اللهَ لاَیَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَلَکِنَّ النَّاسَ اٴَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُونَ) ۔