دنیاوی زندگی کی دور نمائی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
تفسیر دو قابل تووجہ نکات
گزشتہ آیات میں دنیاوی زندگی کی ناپائیداری کی طرف اشارہ ہواہے زیر نظر آیت میں اس حقیقت کو ایک عمدہ مثال کے ذریعے بیان کیا گیا ہے تاکہ غرور اور غفلت کے پردے غافل اور طغیان گروں کی نظروں کے سامنے سے ہٹا دئیے جائیں ۔
ارشاد ہوتا ہے : دنیاوی زندگی کی مثال اس پانی کی طرح ہے
جسے ہم نے آسمانوں سے نازل کیا ہے (إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ اٴَنْزَلْنَاہُ مِنْ السَّمَاءِ ) ۔ بارش کےیہ حیات بخش قطرہ آمادہ زمینوںپر گرتے ہیں اور ان کے ذریعے طرح طرح کے نباتات اگتے ہیں ان میں سے بعض انسانوں کے لئے مفید ہیں اور بعض جانوروں کے لئے ( فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْاٴَرْضِ مِمَّا یَاٴْکُلُ النَّاسُ وَالْاٴَنْعَامُ ) ۔
یہ نباتات زندہ موجودات کے لئے غذا بھی فراہم کرتے ہیں اور علاوہ ازین سطح زمین کو بھی ڈھانپ دیتے ہیں اور اسے زینت بخشتے ہیں یہاں تک کہ زمین بہترین زیبائی حاصل کرتی ہے اور مزین ہو جاتی ہے ( حَتَّی إِذَا اٴَخَذَتْ الْاٴَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَت) ۔
اس طرح شکوفہ شاخساروں کو زینت بخشتے ہیں ، پھول کھلتے ہیں ، سبزہ زار نور آفتاب سے چمکنے لگتے ہیں ، تنے اور شاخیں ہواوٴں کے چلنے سے رقص کرنے لگتے ہیں ۔اناج کے دانے اور پھل آہستہ آہستہ نکلنے لگتے ہیں اور صحنِ دنیا میں بھر پور زندگی مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہے، دل امید سے اور آنکھیں سرور سے معمور ہو جاتی ہے ،پھولوں سے بھی استفادہ کریں گے اور حیات بخش دانوں سے بھی ( وَظَنَّ اٴَھْلُھَا اٴَنَّہُمْ قَادِرُونَ عَلَیْھَا) ۔
لیکن اچانک ہمارا حکم آپہنچتا ہے ( سخت سردی، شدید ژالہ باری یا تباہ کن طوفان ان پر مسلط ہو جاتا ہے ) اور ہمیں انہیں اس طرح سے کاٹ دیتے ہیں گویا وہ اصلاً تھے ہیں نہیں ( اٴَتَاھَا اٴَمْرُنَا لَیْلًا اٴَوْ نَھَارًا فَجَعَلْنَاھَا حَصِیدًا کَاٴَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْاٴَمْسِ) ۔
”تغن“ مادہ ”غنا“ سے ، کسی جگہ قیام کرنے کے معنی میں ہے ، اسی بناء پر ” لم تغن بالامس “ کا معنی ہے ” کل وہ اس مکان میں نہ تھا “ اور یہ کنایہ کے طور پر اس چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اس طرح سے بالکل ختم ہو جائے کہ گویا اس کا ہر گز وجود ہی نہ تھا ۔
آیت کے آخر میں زیادہ تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: یوہم تفکر کرنے والوں کے لئے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں ( کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔
جوکچھ کہا جاچکا ہے وہ نائیدار ، پر فریب اور زرق و برق مادی دنیا کی واضح اور بدلتی تصویر ہے ۔اس زندگی کا مقام پائدار ہے ، نہ ثروت اور نہ ہی یہ امن و سلامتی کی جگہ ہے لہٰذا بعد والی آیت میں ایک مختصر سے جملے کے ذریعے اس کے مد مقابل دوسری زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا دار السلام ، صلح و سلامتی اور امن و آشتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے ( وَ اللهُ یَدْعُو إِلَی دَارِ السَّلَامِ ) ۔وہ جگہ کہ جہاں مادی زندگی کے ان غارت گروں کی کشمش کی کوئی خبر ہے اور نہ ہی خدا سے بے خبر ذخیرہ اندوزوں کی احمقانہ مزاحمت کا کوئی پتہ اور نہ ہی وہاں جنگ ، خونریزی ، استعمار اور استمشار ہے اور یہ تمام مفاہیم لفظ” دار السلام“ ( یعنی امن و سلامتی کا گھر ) جمع ہیں ۔
اگر دنیا کی زندگی بھی توحیدی اور آخرت والی شکل اختیار کرلے تو یہ بھی دار السلام میں تبدیل ہو جائے اور اس کی صورت ” مزرعہ بلا دیدہ و طوفان زدہ “ والی نہیں رہے گی ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیاہے : خدا جسے چاہے ( اور اہل پائے ) راہ ِ مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے کہ جو راہ ِ دار السلام ہے اور جو امن و آشتی کے مرکز تک جا پہنچتی ہے (وَیَھْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیم) ۔
تفسیر دو قابل تووجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma