کیا رسول اللہ کو شک تھا ؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
شک کو اپنے قریب نہ آنے دوصرف ایک گروہ بر محل ایمان لایا

ہو سکتا ہے کہ ابتدائی نظر میں یوں لگے کہ آیت کہہ رہی ہے کہ پیغمبر ِ خد ان آیات کی حقانیت کے بارے میں شک رکھتے تھے کہ جو ان پر نازل ہوتی تھیں اور خڈا نے اس طریقے سے ان کا شک و شبہ رد کردیا ۔
لیکن اس طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ پیغمبر خد انے تو وحی کو شہود اور مشاہدہ سے پایا تھا ۔ جیسا کہ آیات ِ قرآنی اس بات کی حکایت کرتی ہیں لہٰذا اس صورت میں شک اور ردد کوئی مفہوم ہی نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بات مروج ہے کہ دور کے لوگوں کو تنبیہ کرنے کے لئے نزدیک کے افراد کو مخاطب کیا جاتا ہے ۔ جیسے عربوں میں مثل مشہور ہے :
ایاک اعنی و اسمعی یا جارة
اس کی نظیر فارسی میں بھی ہے ایسی گفتگو بہت سے مواقع پر صریح خطاب سے زیادہ موٴثر ہوتی ہے ۔ مزید بر آں جملہ شرطیہ ہمیشہ احتمال وجود شرط کی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ بعض اوقات ایک بات کی تاکید کے لئے ایک عمومی قانون بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے ۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل کی آیہ ۲۳ میں ہے :
وقضی ربک الاّ تعبدوا الایاہ و بالوالدین احساناً و اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلا ھما فلا تقل لھما افٍ۔
تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرواور ماں باپ کی ساتھ نیکی کرو۔ جب ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے کبھی تھوڑی سی بھی دکھ دینے والی اور ناراحت کرنے والی بات نہ کہو۔
توجہ رہے کہ اس جملے میں ظاہراً مخاطب صرف رسول اللہ ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ کے والد کی ولادت سے قبل ہی وقات پاچکے تھے ابھی آپ پچپن ہی میں تھے کہ والدہ بھجی چل بسیں تو اس حالت میں ماں باپ کے احترام کا حکم ایک عمومی قانون کے طور پر بیان ہوا ہے اگر چہ ظاہراً مخاطب پیغمبر خدا ہی ہوں ۔
نیز سورہ طلاق میں ہے :
یا ایھاالنبی اذا طلقتم النساء
اے پیغمبر! جس وقت تم لوگ عورتوں کو طلاق دو۔
یہ تعبیر اس امر کی دلیل نہیں کہ پیغمبر خد انے اپنی زندگی میں کسی بیوی کو طلاق دی ہے بلکہ یہاں ایک عمومی قانون بیان کیا گیا ہے ۔ یہ بات جاذب نظر ہے کہ اس جملے کی ابتداء میں رسول اللہ مخاطب ہیں او رجملے کے آخر میں سب لوگ مخاطب ہیں ۔
بہت سے قرائن جو تائید کرتے ہیں کہ آیت میں اصلی مقصود مشرکین اور کفار ہیں ان میں سے ایک اس آیت کے بعد کی آیات ہیں جو انکے کفر اور بے ایمانی کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اس کی نظیر حضرت عیسیٰ (ع) سے مربوط آیات میں دکھائی دیتی ہیں کہ جس وقت خدا اس سے قیامت کے دن پوچھے گا کہ کیا تونے لوگوں کو اپنی اور اپنی ماں کی عبادت کی دعوت دی تھی وہ صراحت سے اس کا انکار کرتے ہیں اور مزید کہتے ہیں :
ان کنت قلتہ فقد علمتہ۔
اگر میں نے یہ بات کی ہوتی تو تیرے علم میں ہوتا۔ (مائدہ ۔ ۱۱۶) ۔
بعد والی آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے : اب جبکہ آیات ِ پروردگار اور اس دعوت کی حقانیت تجھ پر واضح ہو چکی ہے تو ان لوگوں کی صف میں کھڑا نہ ہوجنہوں نے آیات الٰہی کی تکذیب کی ہے ورنہ زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا ( وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ فَتَکُونَ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ۔
درحقیقت قرآن پہلی آیت میں کہتا ہے کہ اگر شک و تردد رکھتے ہو تو ان سے پوچھو جو آگاہی اور علم رکھتے ہیں اور اس آیت میں کہتا ہے کہ اب جبکہ تردد کے عوامل بر طرف ہوچکے ہیں تو ان آیات کے سامنے تجھے سر تسلیم خم کرنا چاہئیے ورنہ حق کی مخالفت کا نتیجہ خسارے اور نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔
یہ آیت اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ گزشتہ آیت میں میں حقیقی مقصود عام لوگ تھے اگر چہ روئے سخن پیغمبر خدا کی طرف تھا کیونکہ واضح نقصان ہے کہ پیغمبرہر گز آیات الٰہی کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ وہ تو سختی سے اپنے دین کی حمایت اور دفاع کرتے ہیں ۔
اس کے بعد رسول اللہ کو بتا یا گیا کہ تیرے مخالفین میں تعصب اور ہٹ دھرم لوگ موجود ہیں جن کے ایمان لانے کی تقوع عبث ہے ۔ وہ فکری لحاظ سے اس قدر مسخ ہو چکے ہیں اور وہ باطل راستے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان کا بیدار ِ انسانی وجدان کھو چکا ہے وہ ناقابل اثر وجودمیں تبدیل ہو چکے ہیں البتہ قرآن اس بات کو یوں بیان کرتا ہے : وہ لوگ کہ جن پر تیرے پر وردگار کا فرمان ثابت ہو چکا ہے وہ ایمان نہیں لائےں گے( إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْھِمْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔
یہاں تک کہ اگرخدا کی تمام آیات اور نشانیاں ان کے پاس آجائیں وہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ خدا کے دردناک عذاب کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لیں ۔ جبکہ اس وقت کے ایمان کا انھیں کوئی فائدہ نہیں ( وَلَوْ جَائَتْھُمْ کُلُّ آیَةٍ حَتَّی یَرَوْا الْعَذَابَ الْاٴَلِیمَ) ۔
در حقیقت زیر بحث پہلی آیت تمام لوگوں کو مطالعہ ، تحقیق او رباخبر لوگوں سے سوال کرنے کی دعوت دیتی ہے اور پھر تقاضا کرتی ہے کہ حق واضح ہو جانے پر اس کی حمایت اور دفاع کے لئے کھڑے ہو جائیں لیکن آخری آیات میں فرمایا گیا ہے کہ تمہیں سب کے ایمان لانے کی توقع نہیں رکھنا چاہئیے کیونکہ کچھ لوگ تو اس قدر فاسد ہو چکے ہیں کہ اب وہ اصلاح کے قابل نہیں رہے لہٰذا نہ تو ان کے ایمان نہ لانے پر دل سرد اہو اور نہ ہی ان کی ہدایت کے صرف ہونے والی توانائی کو رائیگان سمجھ بلکہ ان لوگوں کی طرف توجہ دے جو زیادہ تعداد میں ہیں اور قابل ہدایت ہیں ۔
جیسا کہ ہم بارہا تکرار کر چکے ہیں کہ ایسی آیات ہر گز کسی ” جبر “ پر دلالت نہیں کرتیں بلکہ یہ تو عمل انسانی کے آثار بیان کئے گئے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ چونکہ ہر چیز کا اثر حکم خدا سے ہے اس لئے بعض اوقات ان امور کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قبل کی چند آیات میں ہم نے فرعون کے بارے میں پڑھا ہے کہ اس نے نزول ِ عذاب اور طوفان میں پھنسنے کے بعد اظہار ایمان کیا لیکن ایسا چونکہ اضطراری پہلو رکھتا ہے اس لئے اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ لیکن زیر بحث آیات میں فرمایا گیا ہے : یہ صرف فرعون کا طریقہ تھا بلکہ تمام ہٹ دھرم ، خود دار ، مستکبر اور سیاہ دل افراد کہ جو طغیان و سر کشی کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے ہیں ان کی بھی یہ حالت ہے وہ بھی دردناک عذاب کو دیکھے بغیر ایمان نہیں لاتے ۔ وہی ایمان جو ان کے لئے بالکل بے اثر ہے ۔


۹۸۔ فَلَوْلاَکَانَتْ قَرْیَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَھَا إِیمَانھَا إِلاَّ قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَاھُمْ إِلَی حِینٍ ۔
ترجمہ
۹۸۔ تمام آباد یاں اور شہر کیوں ایمان نہیں لائے کہ ( جن کا ایمان بر محل ہو اور ) ان کی حالت کے لئے مفید ہو ،مگر یونس کی قوم کہ جب وہ ایمان لائی تو ان کی زندگی سے ہم نے رسوا کن دنیاوی عذاب بر طرف کردیا او رہم نے مدت معین ( زندگی کے اختتام او ران کی اجل ) تک انھیں بہرہ مند کیا ۔

شک کو اپنے قریب نہ آنے دوصرف ایک گروہ بر محل ایمان لایا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma