نازل ہو نے والی آخری آیات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
تفسیر اس سورہ کے مضامین اور فضیلت

بعض مفسرین کے بقول زیر نظر آیات رسول اللہ پر نازل ہونے والی آخری آیات ہیں ۔ سورہٴ براٴت ان پر ختم ہو رہی ہے ۔ یہ آیات فی الحقیقت ان تمام مسائل کی طرف اشارہ ہیں جو اس سورہ میں گزر چکے ہیں ، کیونکہ ،ایک طرف تو ان میں تمام لوگوں کو چاہے وہ مومن ہو ں ، یا منافق کہا گیا ہے کہ پیغمبر اور قرآن کی طرف سے سخت گیر یاں اور ظاہری سختیاں جن کے نمونے اس سورہ میں آئے ہیں سب اس لئے ہیں کہ پیغمبر کو ان کی ہدایت ، تربیت ، تکامل اور ارتقاء سے عشق ہے ۔
دوسری طرف پیغمبر اکرم کو بھی خبر دی گئی ہے کہ وہ لوگوں کی سر کشی اور نافرمانیوں پر جن کے بہت سے واقعے اس سورہ میں گذرے ہیں پریشان اور کبیدہ خاطر نہ ہوں او ریہ یقین رکھیں کہ خدا وند عالم ہر حالت میں ان کا پشتیبان ، دوست اور یا ور ہے ۔
لہٰذا پہلی آیت میں روئے سخن لوگوں کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : پیغمبر جو خود تمہی سے ہے تمہاری طرف آیا ہے ( لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ ) ۔
آیت میں ” منکم “ کی بجائے ” من انفسکم “ یہ خصوصیت سے پیغمبر اکرم کے لوگوں سے شدت ارتباط کی طرف اشارہ ہے گویا وہ خود لوگوں کی جان کا ایک ٹکڑا ہے اور معاشرے کی روح کا ایک حصہ پیغمبر کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے تمام دکھ درد جانتا ہے ، ان کی مشکلات سے آگاہ ہے اور پریشانی اور غم و اندوہ میں ان کا شریک ہے . ان حالات میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ان کے فائدے کے سوا کوئی بات کہے اور حقیقت میں یہ پیغمبر کی پہلی صفت ہے جو مندرجہ بالا آیات میں پیغمبر اکرم کے لئے ذکر ہوئی ہے ۔
تعجب کی بات ہے کہ بعض مفسرین جو نسلی اور عربی تعصبات کے زیر اثر تھے انھوں نے کہا ہے کہ اس آیت میں مخاطب عرب نسل کے لوگ ہیں یعنی پیغمبر اس نسل میں سے تمہاری طرف آیا ہے ۔ ہمارے نظرئیے کے مطابق اس آیت کے لئے ذکر ہونے والی یہ بد ترین تفسیر ہے ۔
کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ چیز کا قرآن میں ذکر تک نہیں ہے وہ نسل پرستی ہے کوینکہ قرآن میں تمام جگہوں پر ” یا ایھا الناس “ ، ” یا ایھا الذین اٰمنوا “ اور اس قسم کے دیگر الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے اور کسی جگہ پر بھی ” یا ایھا العرب “ اور ” یا قریش“ وغیرہ کا وجود نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ آخری حصہ میں ارشاد ہوتا ہے : وہ مومنین پر روٴف اور مہر بان ہے ” بالمومنین روٴف رحیم “ یہ جملہ بھی وضاحت سے اس کی تفسری کی نفی کرتا ہے کیونکہ تمام مومنین کے بارے میں ہے چاہے وہ کسی قوم و ملت او رکسی نسل و خاندان سے ہوں ۔
افسوس کا مقام ہے کہ بعض متعصب علماء قراان کو اس کے عالمی اور انسانی مرتبے سے نیچے لے آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے چھوٹے سے نسلی دائرے میں محصور اور محدود کردیا جائے ۔
بہر حال ” من انفسکم “کی صفت بیان کرنے کے بعد رسول اللہ کی چار ممتاز صفات کی طرف اشارہ کی اگیا ہے یہصفات لوگوں کے میلانات کی تحریک کے لئے ان کے احساساو جذبات کو جذب کرنے کے لئے گہرا اثر رکھتی ہیں ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : تمہیں کوئی بھی تکلیف ، ضراور نقصاب پہنچے ،پیغمبر کے لئے سخت اور ناراضی کا باعث ہے (عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ ) ۔ یعنی وہ نہ صرف تمہاری تکلیف سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ اس تکلیف سے الگ نہیں رہ سکتا، تماہیرے رنج و غم سے رنجیدہ ہوتا ہے اور اگر تمہاری ہدایت اور طاقت فرسا، پر زحمت جنگوں پر اصرار کرتا ہے تو وہ بھی تمہاری نجات اور ظلم ، گناہ اور بد بختی کے چنگل سے تمہاری رہائی کے لئے ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ” وہ تمہاری ہدایت سے سخت لگاوٴ رکھتا ہے “ اور تمہاری ہدایت سے عشق رکھتا ہے ( حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ) ۔
لغت میں ”حرص“ کا معنی ہے ” کسی چیز سے شدید لگاوٴ رکھنا “ ۔ یہ بات جاذب نظر ہے کہ زیر بحث میں بطور اطلاق کہا گیا ہے کہ ” تم پر حریص ہے “ نہ ہدایت کے بارے میں بات کی گئی ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کے بارے میں ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اسے تماہری ہر طرح کی سعادت پیش رفت ، ترقی اور خوش بختی سے عشق ہے ( اصطلاح میں کہتے ہیں کہ ” متعلق کا خذف ہو نا عموم کی دلیل ہے “) ۔ اس کے بعد تیسری اور چوتھی صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : وہ مومنین کے لئے روٴف و رحیم ہے ( بِالْمُؤْمِنِینَ رَئُوفٌ رَحِیمٌ) ۔
لہٰذا اگر وہ مشکل اور طاقت فرسا حکم دیتا ہے تو یہ بھی اس کی طرف سے ایک طرح کی محبت اور لطف ہے یہانتک کہ گرمیوں کے موسم میں طاقتور دشمن کے مقابلے میں جنگ تبوک کے لئے بھوک اور پیاس کے ساتھ طویل اور جلانے والے بیا بانوں سے گذرنا بھی اس کے مہر و محبت کی علامت ہے ۔
”روٴف “ اور ”رحیم “ میں کیا فرق ہے . اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن ایسا معلوم، ہوتا ہے کہ بہترین تفسیر یہ ہے کہ روٴف فرمانبر داروں کے لئے مخصوص محبت و لطف کی طرف اشارہ ہے جب کہ رحیم گناہ گاروں کے لئے رحمت کی طرف اشارہ ہے ۔
البتہ اس بات کا فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ یہ دونوں الفاظ جب الگ الگ ہوں ہوتو ہو سکتا ہے کہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوں لیکن جہاں ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوں تو بعض اوقات دو مختلف معانی دیتے ہیں ۔
بعد والی آیت میں جوکہ اس سورہ کی آخری آیت ہے ، پیغمبراکرم کی دلجوئی کرتے ہوئے کہ وہ لوگوں کی سر کشیوں اور نافرمانیوں سے ملول نہ ہوں فرمایا گیا ہے : اگر حق سے منہ نہ پھیر لیں تو پریشان نہ ہو اور کہہ دے کہ ” خدا میرے لئے کافی ہے “ کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرترکھتا ہے ( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِی ) ۔
” وہی خد اکہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے “ لہٰذا وہی اکیلا پناہ گاہ ہے (اللهُ لاَإِلَہَ إِلاَّھُوا) ۔
جی ہاں میں نے صرف اسی معبود پر تکیہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی دل باندھا ہے اور اپنے کام اسی کے سپرد کئے ہیں ( عَلَیْہِ تَوَکَّلْت) ۔
اور وہی عرش عظیم کا مالک اور پر وردگار ہے ( وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ) ۔
عرش، عالم بالا ماوائے طبیعت اپنی پوری عظمت کے ساتھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور ا س کی حمایت و کفالت میں ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ وہ مجھے اکیلا چھوڑ دے اور دشمن کے مقابلے میں میری مدد کرے ؟ کیا کوئی قدرت اس کی قدرت کے مقابلے میں ٹھہر سکتی ہے یا کوئی رحمت و مہر بانی اس کی رحمت و مہر بانی اس کی رحمت و مہر بانی سے بالاتر تصور ہو سکتی ہے ۔
خد ایا ! اس وقت جبکہ ہم یہ سورہ ختم کررہے ہیں او ریہ سطور لکھ رہے ہیں دشمنوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیررکھا ہے اور ہماری رشید اور بہادر قوم ظلم ، برائی اور استبداد کے خاتمے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے ، تمام صفوں اور طبقوں میں ایسا بینظیر اتحاد و اتفاق پید اہو گیا ہے جس کا تصور نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ ننھے ننھے بچے بھی اس جہاد میں شریک ہیں اور کوئی بھی کسی قسم کی فدا کاری اور قربانی سے دریغ نہیں کر رہا ہے ۔
پر ور دگار! تو ان تمام چیزوں کو جانتا ہے اور دیکھتا ہے ، ت ومہر و محبت کا مر کز ہے تو نے مجاہدین سے کامیابی اور کامرانی کا وعدہ کررکھا ہے ۔ پس اپنی نصرت و مدد قریب کردے او رہمیں آخری اور مکمل فتح عطا فرما اور ان پیاسوں اور عاشقوں کو ایمان ، عدل اور آزادی کے شفاف پانی سے سیراب فرما   انک علی کل شیء قدیر ( تو ہر چیز پر قادر ہے ) ۔۱

 

۱۔یہ حصہ انقلاب اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے شاہ کے خلاف قیام کے زمانے میں لکھا گیا ہے ۔

تفسیر اس سورہ کے مضامین اور فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma