آیات قرانی کی تاثیر ۔ پاک اور ناپاک دلوں پر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
قریب کے دشمن کی خبر تفسیر

منافقین اور مونین کے بارے میں گزشتہ مباحث کی مناسبت سے ان دو آیات میں ان دونوں گروہوں کی ایک واضح نشانی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو بعض منافقین ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ یہ سورت نازل ہونے سے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا ہے ( وَإِذَا مَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْھُمْ مَنْ یَقُولُ اٴَیُّکُمْ زَادَتْہُ ھَذِہِ إِیمَانًا ) ۔۱
ایسی باتیں کرکے وہ قرآن کی سورتوں کی عدم تاثیر اور ان کے بارے میں بے اعتنائی کااظہار کرنا چاہتے تھے وہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ یہ آیات کسی اہم اور قابل ِ توجہ مفہوم کی حامل نہیں ہیں ۔ لیکن قرآن انھیں قطعی لب و لہجہ میں جواب دیتا ہے اور لوگوں کے دو گروہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتا ہے : رہے وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ، تو ان آیات کا نزول ان کے ایمان میں اضافہ کرتا ہے اور ان کے چہروں سے مسرت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں ( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْھُمْ إِیمَانًا وَھُمْ یَسْتَبْشِرُونَ) ۔” لیکن جن جن کے دلوں میں نفاق ، جہالت اور عناد اورحسد کی بیماری ہے ان کی ناپاکی پر ایک ناپاکی کا اضافہ ہوجا تا ہے “ ( وَاٴَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا إِلَی رِجْسِھِمْ ) ۔آخر کار وہ کفر اور بے ایمانی کی حالت میں اس دنیا سے جائیں گے ( وَمَاتُوا وَھُمْ کَافِرُونَ) ۔
چند قابل توجہ نکات
۱۔ قرانی آیا کے مختلف لوگوں پر مختلف اثرات: قرآن کی مندرجہ بالا دو آیت اس حقیقت کی تاکید کرتی ہیں کہ صرف حیات بخش تعلیمات اور اچھا لائحہ عمل ہی کسی فریاگروہ کی سعادت کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کے مقدمات کی فراہی اور بیادوں کا مہیا ہونا بھی ایک بنیادی شرط سمجھا جانا چاہئیے ۔
قرآنی آیات بارش کے حیات بخش قطروں کی طرح ہیں جو باغ میں سبزہ زار اگاتے ہیں تھور والی زمین میں خس و خاشاک۔
جو لوگ تعلیم اور ایمان کے جذبے سے اور حقیقت سے عشق کے ساتھ ان کی طرف دیکھتے ہیں وہ ہر سورت بلکہ ہر آیت سے نیا درس لیتے ہیں ۔ جو ان کے ایمان کی پرورش کرتا ہے اور ان میں انسانیت کی واضح مصفات کو تقویت پہنچا تا ہے ۔ لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی ، غرور اور نفاق کے تاریک شیشوں کے پیچھے ان آیا ت کی طرف دیکھتے ہیں وہ نہ صرف ان سے فائدہ اٹھاتے بلکہ ان کے کفر اور عناد کی شدت میں اضافہ ہوجا تا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں ہر نئے فرمان کے بارے میں وہ نئی نافرمانی اور نیا گناہ کرتے ہیں ، ہر حکم کے بارے میں نئی سر کشی اور ہر حقیقت کے سامنے نئی ہٹ دھرمی کرتے ہیں اس طرح ان کے وجود میں عصیان ، نافرمانیاں اور ہٹ دھرمیاں تہ در تہ جمع ہو جاتی ہیں اس طرح ان کی روح میں ان بری صفات کی جڑیں مضبوط ہ وجاتی ہیں آخر کار وہ حالت کفر میں مر جاتے ہیں اور واپسی کا راستہ ان کے لئے بالکل بند ہو جاتا ہے ۔
ایک اور تعبیر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی تربیتی پر وگرام میں فاعل کی فاعلیت کا فی نہیں ہے بلکہ روحِ قبولیت اور قابل کی قابلیت بھی بنیاد ی شرط ہے ۔
۲۔”رجس “ کا مفہوم : لغت میں ” رجس “ کا معنی ہے ” پلید “ اور ” ناپاک “ وجود اور راغب نے اپنی کتاب مفردات میں لکھا ہے کہ پلیدی چار قسم کی ہے ۔
۱۔ طبیعت کے لحاظ سے ، ۲۔ عقل و فکر کے زاویہ سے ،
۳ ۔شریعت کے حوالے سے اور ۔ ۴۔ کبھی تمام پہلووٴں سے ۔
البتہ اس میں شک نیہں کہ وہ پلیدی جو نفاق ، ہٹ دھرمی اور حق کے مقابلے میں شدت سے پیدا ہو تی ہے ، ایک قسم کی باطنی اور معنوی ناپاکی ہے جس کا اثر آخر کار انسان کے تما م وجود ، گفتار اور کردار میں ظاہر ہوتا ہے ۔
۳۔ ” وھم یستبشرون “ کا مطلب : لفط ”بشارت “ کی اصل کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ جملہ ایسے سور اورخوشی کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اذٓیات قرآنی کاتربیتی اثر مومنین میں اس قدر آشکار تھا کہ اس کی علامات فوراً انک ے چہروں میں نمایاں ہو جاتی تھیں ۔
۴۔ دل کی بیماری : مندرجہ بالا آیات میں نفاق اور اس کی گندگی صفات کو دل کی بیماری کہا گیا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ ” قلب “ ایسے مواقع پر روح اور عقل کے معنی میں ہے اور دل کی بیماری ان مواقع رذائل اور روحانی انحرافات کے معنی میں ہے اور یہ تعلیم نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کی روح اور عقل اگر صحیح و سالم ہو تو ان پر بری صفات میں سے کوئی بھی اس کے وجود میں اپنی جڑیں پید انہیں کرسکتی اور ایسا اخلاق جسمانی بیماری کی طرح طبیعت کے بر خلاف ہو گا ۔ لہٰذا ایسی صفات سے آلودگی اصلی طبعی راستے سے انحراف اور روحانی بیماری کی دلیل نہیں ہیں۔2
۵۔ ایک درس : مندرجہ بالاآیت ہم سب مسلمانوں کو ایک عجیب درس دیتی ہے یہ آیات اس حقیقت کی ترجمانی کرتی ہیں کہ جب کوئی قرآنی سورت نازل ہوتی ہے تو پہلے مسلمانوں میں ایک تازہ روح پیدا ہوجاتی تھی اور انھیں نئی تربیت حاصل ہوتی تھی ، اس طرح کہ اس کے آثار بہت جلد ان کے چہروں سے نمایاں ہوجاتے تھے حالانکہ آج کل ہم بظاہر مسلمان افراد کو دیکھتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ایک سورت پڑھ کر ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ قرآن ختم کرکے بھی ان پر تھوڑا سا اثر بھی دکھا ئی نہیں دیتا ۔
تو کیا قرآن کی سورتیں اور آیتیں اپنا اثر کھو بیٹھی ہیں یا پھر افکار کی آلودگی ، دلوں کی بیماری اور ہمارے برے اعمال کے حجابوں نے ہمارے دلوں کو اثر پذیر بنا دیا ہے ایسی حالت پر ہمیں خدا سے پناہ مانگنا چاہئیے اور اس کے درگاہ ِ پاک سے پہلے وقت کے مسلمانوں کے دل عطا ہونے کی دعا کرنا چاہئیے ۔

 

۱۲۶۔ اٴَوَلاَیَرَوْنَ اٴَنَّھُمْ یُفْتَنُونَ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّةً اٴَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لاَیَتُوبُونَ وَلاَھُمْ یَذَّکَّرُونَ ۔
۱۲۷۔ وَإِذَا مَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُھُمْ إِلَی بَعْضٍ ھَلْ یَرَاکُمْ مِنْ اٴَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا صَرَفَ اللهُ قُلُوبَھُمْ بِاٴَنّھُمْ قَوْمٌ لاَیَفْقَھُونَ ۔

ترجمہ
۱۲۶۔ کیاوہ نہیں دیکھتے کہ سال میں ایک یا دو مرتبہ ان کی آزمائش ہو تی ہے پھر بھی وہ تو بہ نہیں کرتے اور متوجہ نہیں ہوتے ۔
۱۲۷۔ اور جس وقت کوئی سورت نازل ہوتی ہے ان( منافقین ) میں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کیا تمہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟( اور اگر ہم بارگاہ پیغمبر سے باہر چلے جائیں تو کوئی ہماری طرف متوجہ نہیں ہوگا ) اس کے بعد وہ لوٹ جاتے ہیں ( اور باہر چلے جاتے ہیں ) خد انے ان کے دلوں کو حق سے پھیر دیا ہے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں ( اور بے علم ہیں ) ۔

 


۱۔ اذا ماانزلت “میں لفظ ”ما “ در حقیقت”مازائدہ “ ہے اور تاکید کے لئے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ ” ماصلہ “ ہے جو حرف شرط یعنی ”اذا“ کو اس کی جزا پرمسلط کرتا ہے اورجملے کی تاکید کرتا ہے ۔
2۔ دل کی بیماری اور قرآ ن میں اس کے مفہوم کے بارے میں ہم جلد اول ص ۹۹ ( ار دو ترجمہ ) پر ایک اور بحث کرچکے ہیں ۔

 

قریب کے دشمن کی خبر تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma