شان نزول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
ایک سوال اور اس کا جوابمسجد کے روپ میں بت خانہ

زیر نظر آیات منافقین کے ایک گروہ کے بارے میں ہیں ۔ جنھوں نے اپنی منحوس سازشوں کی تکمیل کے لئے مدینہ میں ایک مسجد قائم کی تھی جو بعد میں ” مسجد ضرار“ کے نام سے مشہور ہ وئی ۔ یہ بات تمام اسلامی مفسرین اور بہت سی کتب حدث و تاریخ نے ذکر کی ہے ،اگر چہ اس کی تفصیلات میں کچھ فرق نظر آتا ہے ۔مختلف تفاسیر اور احادیث سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے پیش نظر اس واقعہ کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے :
کچھ منافقین رسول اللہ کے پاس آئے عرض کی ا: ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم قبیلہ بنی سالم کے درمیان ، مسجد قبا کے قریب ایک مسجد بنالیں تاکہ ناتواں ، بیمار اور بوڑھے جو کوئی کام نہیں کرسکتے اس میں نماز پڑھ لیا کریں ۔ اسی طرح راتوں میں بارش ہوتی ہے ان میں جو لوگ آپ کی مسجد میں نہیں آسکتے اپنے اسلامی فریضة کو اس میں انجام دے لیا کریں ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب پیغمبر خدا جنگ تبوک کا عزم کرچکے تھے آنحضرت نے انھیں اجازت دے لیا کریں ۔
انھوں نے مزید کہا : کیا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ خود آکر اس میں نماز پڑھیں ؟ بنی اکرم نے فرمایا: اس وقت تو میں سفر کا ارادہ کرچکا ہو ں البتہ واپسی پر خدا نے چاہا تو اس مسجد میں آکر نماز پڑھو ں گا ۔
جب آپ جنگ تبوک سے لوٹے تو یہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے :ہماری در خواست ہے کہ آپ ہماری مسجد میں آکر نماز پڑھائیں اور خدا سے دعا کریں ہمیں برکت دے ۔
یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ابھی آنحضر ت مدینہ کے دروازے میں داخل نہیں ہوئے تھے اس وقت وحی خدا کا حامل فرشتہ نازل ہوا اور مندرجہ بالا آیات لایا اور ان کے کرتوت سے پردہ اٹھا یا ۔
اس کے فوراً بعد رسول اللہ نے حکم دیا کہ مذکورہ مسجد کو جلا دیا جائے اور اس کے باقی حصے کو مسمار کردیا جائے اور اس کی جگہ کو ڑا کرکٹ ڈال جایا کرے ۔
ان لوگوں کے ظاہراً کام کو دیکھا جا ئے تو ہمیں شروع میں تو اس حکم پر حیرت ہو گی کہ کیا بیماروں اور بوڑھوں کی سہولت کے لئے اور اضطراری مواقع کے لئے مسجد بنانا برا کام ہے جبکہ یہ ایک دینی اور انسانی خدمت معلوم ہوتی ہے کیا ایسے کام کے بارے میں یہ حکم صادر ہو اہے ؟ لیکن اگر ہم اس معاملہ کی حقیقت پر نظر کریںگے تو معلوم ہوگاکہ یہ حکم کس قدر بر محل و جچا تلا تھا ۔
اس کی وضاحت یہ کہ ابو عامر نامی ایک شخص نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور راہبوں کے مسلک سے منسلک ہو گیا تھا ۔ اس کا شمار عابدوں اور زاہدوں میں ہوتا تھا ۔ قبیلہ خزرج میں اس کا گہرا رسوخ تھا ۔ رسول اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مسلمان آپ کے گرد جمع ہو گئے تو با وعامر جو خود کبھی پیغمبر کے ظہور کے خبر دینے والوں میں سے تھا نے دیکھا کہ اس کے گرد ا گرد سے لوگ چھٹ گے ہیں اس پر وہ اسلام کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑاہوا۔ وہ مدینہ سے نکلا اور کفار کے پاس پہنچا اس نے ان سے پیغمبر اکرم کے خلاف جنگ کے لئے مدد چاہی اور قبائل عرب کو بھی تعاون کی دعوت دی ۔ وہ خود مسلمانوں کے خلاف جنگ ِ اھد کی منصوبہ بندی میں شریک رہا تھا اور راہنمائی کرنے والوں میں سے تھا ۔ اس نے حکم دیا کہ لشکر کی دو صفو ں کے در میان گڑھے کھودے جائیں ۔ اتفاقاً پیغمبر ِ اسلام ایک گڑھے میں گر پڑے ، آپ کی پیشانی پر زخم آئے اور دندان ِ مبارک ٹوٹ گئے۔
جنگ احدختم ہوئی ، مسلمانوں کو اس میدان میں آنے والی مشکلات کے باوجوداسلام کی آواز بلند تر ہوئی او رہر طرف صدائے اسلام گونجنے لگی ۔ تو مدینہ سے بھاگ گیا اور بادشاہ روم ہر قل کے پاس پہنچا تا کہ اس سے مدد چاہے اور مسلمانوں کی سر کوبی کے لئے ایک لشکر مہیا کرے ۔
اس نکتے کابھی ذکر ضروری ہے کہ ان کی ان کارستانیوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام نے اسے ”فاسق “ کا لقب دے رکھا تھا ۔
بعض کہتے ہیں کہ موت نے اسے مہلت نہ دی کہ اپنی آرزو ہر قل سے کہتا لیکن بعض دوسری کتب میں ہے کہ وہ ہر قل سے جاکر ملا اور اس کے وعدوں سے مطمئن اور خوش ہوا ۔
بہر حال اس نے مرنے سے پہلے مدینہ کے منافقین کو ایک خط لکھا اور انھیں خوشخبری دی کہ روم کے ایک لشکر کے ساتھ وہ ان کی مدد کو آئے گا ۔ اس نے انھیں خصوصی تاکید کی کہ وہ اس کے لئے ایک مرکز بنائیں تاکہ اس کے آئندہ کی کا گذار یوں کے لئے وہ کام دے سکے لیکن ایسا مرکز چونکہ مدینہ میں اسلام دشمنوں کی طرف سے اپنے نام پر قائم کرنا عملی طو رپر ممکن نہ تھا ۔ لہٰذا منافقین نے مناسب یہ سمجھا کہ مسجد کے نام پر بیماروں ار معذروں کی مدد کی صور ت میں اپنے پروگرام کو عملی شکل دیں ۔
آخر کار مسجد تعمیر ہو گئی یہاں تک کہ مسمانوں میں سے مجمع بن حارثہ( یامجمع جاریہ ) نامی ایک قرآن فہم نوجوان کو مسجد کی امات کے لئے بھی چن لیا گیا لیکن وحی الٰہی نے ان کے کا مسے پردہ اٹھا دیا۔
یہ جو پیغمبر اکرم نے جنگ تبوک کی طرف جانے سے قبل ان کے خلاف سخت کار روائی کاحکم نہیں دیا اس کی وجہ شاید یہ ہوکہ ایک تو ان کی حقیقت زیادہ واضح ہوجائے اور دوسرا یہ کہ تبوک کے سفر میں اس طرف سے کوئی اور ذہنی پریشانی نہ ہو۔ بہر حال جو کچھ بھی تھا رسول اللہ نے نہ صرف یہ کہ مسجد میں نماز پڑھی بلکہ بعض مسلمانوں ( مالک بن خشم ، معنی بن عدی اور عامر بن سکر یا عاصم بن عدی ) کو حکم دیا کہ مسجد کو جلا دیں اور پھر اس کی دیواروں کو مسمار کروادیا۔ اور آخر کار اسے کوڑا کر کٹ پھینکنے کی جگہ قرار دے دیا۔ ۱

 


۱- مجمع البیان ، تفسیر ابو الفتوح رازی ، تفسیر المنار ، تفسیر المیزان ، تفسیر نور الثقلین اور دیگر کتب۔

 

ایک سوال اور اس کا جوابمسجد کے روپ میں بت خانہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma