منافقین کا خطر نا ک پرگرام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
شانِ نزولمنافقوں کی نشانیاں

شان نزول

مذکورہ بالا آیتوں کی مختلف شان ِ نزول نقل ہو ئی ہےں ان سب کا تعلق جنگ تبوک کے بعد منافقوں کی حرکتوں اور شرارتوں سے ہے ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ منافقوں کی ایک جماعت نے خفیہ میٹنگ میں حضرت رسول اکرم کے قتل کی سازش کی ۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جنگ ِ تبوک سے واپسی پرراستے کی ایک گھاٹی میں چپکے سے صورت بدل ک گھات میں رہیں گے اور جب رسول اللہ اپنی اونٹنی پرگذریں گے تو اونٹنی کو بد کائیں گے اور رسول اللہ کو قتل کردیں گے۔ خدا نے اپنے پیغمبر کو اس سازش کو اطلاع کردی ۔
آپ نے حکم دیا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ نگرانی کرے اور ان لوگوں کو تتر بتر کردے جب حضرت رسول اکرم اس گھاٹی پر پہنچے تو آپ کی اونٹنی کی مہار حضرت عمار کے ہاتھ میں تھی اور حذیفہ اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے ۔ رسول اللہ نے حذیفہ سے فرمایا کہ ان کی سواریوں کے منہ پر ( چابک)مارو اور انھیں بھگا دو ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ۔ جب آپ گھاٹی سے صحیح سلامت نکل آئے تو حضر نے حذیفہ سے فرمایا تونے انھیں پہنچا نا نہیں ؟ تو اس نے عرض کیا ” نہیں میں نے تو ان میں سے کسی کو نہیں پہچانا ۔ اس کے بعد حضرت پیغمبر ان سب کے نام گنوائے ۔ حذیفہ نے عرض کیا جب صور ت حال یہ ہے تو آپ ایک گروہ کو کیوں یہ حکم نہیں دیتے کہ وہ جاکر انھیں قتل کردے ۔ آپ نے فرمایا : میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ عرب یہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں پر کامیاب ہو گیا تو انھیں قتل کرنا شروع کردیا ۔
یہ شان ِ نزول حضرت امام محمد باقر - سے نقل ہوئی ہے اور حدیث و تفسیر کی بہت سی کتابوں میں آئی ہے ۔
ایک دوسری شان ِ نزول یہ لکھی ہےکہ جب منافقوں نے جنگ تبوک میں دشمن کے مقابلے میں حضرت کی جگہ دکھی تو مذاق کے طور پر کہنے لگے کہ یہ شخص گمان کرتا ہے کہ شام کے محل اور شامیوں کے مضبوط قلعے فتح کرے گا ، یہ تو قطعی طور پر محال ہے ۔
خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ نے حکم دیا کہ اس گروہ کا راستہ بند کردیا جائے اس کے بعد آپ نے ا نھیں بلا یا اور لعنت ملا مت کی اور فرمایا کہ تم نے لوگوں سے یہ باتیں کی ہیں انھوں نے معافی مانگی کہ اس سے ہمارا کوئی خاص مقصد نہ تھا ہم تو مذاق کررہے تھے اور اس با ت پر قسم کھائی ۔

منافقین کا خطر نا ک پرگرام

گذشتہ آیات سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ منافق کس طرح قوت کے اسباب کو کمزوری کے ذرائع سمجھتے تھے اور مسلمانوں میں تفرقہ اور اختلاف ڈالنے کےلئے پروپیکنڈے کرتے تھے ۔ جن آیات پربحث کی جارہی ہے ان میں ان کے منصوبوں اور طریق کار کے ایک اور حصے کی طرف اشارہ ہے پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا پیغمبر اکرم کو منافقوں کی سازشوں سے بچا نے کے لئے بعض اوقات ان کے اسرار سے پردہ اٹھادیتا ہے اور ان سے مسلمانوں کی جماعت کو آگاہ کردیتا تھا تاکہ وہ چوکنے ہو جائیں اور ان کے دھوکے میں نہ آئیں اور وہ بھی اپنی حیثیت کی طرف متوجہ رہیں اور اپنے دست و پا سمیٹ کر رکھیں ۔ اس وجہ سے منافق اکثر اوقات خوف زدہ او رحیران و پریشان رہتے تھے ۔ چنانچہ قرآن ان کی اس حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
منا فق ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جو اس سے انھیں ( مسلمانوں کو) اگاہ کردے

(یَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ اٴَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُھُم ْ بِمَا فِی قُوبِھمْ )۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ پھ ربھی انتہائی دشمنی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیغمبر کے کاموں کا مذاق۱ڑانے سے باز نہیں آتے تمسخر اڑانے کا سلسلہ ترک نہیں کرتے لہٰذا خدا اس آیت کے آخرمیں اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے : ان سے کہہ دو تم سے جتنا ہو سکے مذاق اڑاوٴ، لیکن جان لو کہ جس چیز کاتمہیں خوف ہے خدا اسے ظاہر کردے گا اور تمہیں ذلیل و رسوا کرکے رہے گا (قُلْ اسْتَہْزِئُوا إِنَّ اللهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ)۔
البتہ استہزؤا “ ( ہنسی مذاق اڑاوٴ) تہدید کی قبیل سے فعل امر ہے جیسے انسان اپنے دشمن سے کہتاہے ۔ جس قدر دکھ تکلیف تو پہنچا سکتا ہے پہنچا لے ہم ا س کاایک ہی مرتبہ جواب دیں گے ۔ اس قسم کی باتیں دھمکی کے موقع پر کی جاتی ہیں ۔
ضمنی طور پر توجہ دیجئے تو اوپر والی آیت سے معلوم ہو تا ہے کہ منافق دل میں پیغمبر کی دعوت کی سچائی کو اچھی طرح جانتے تھے اور خدا سے آنحضرت کے ارتباط سے وہ خوب واقف تھے ۔ لیکن اس کے باوجود ہٹ دھرمین اور دشمنی کی وجہ سے ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے مخالفت کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے قرآن کہتا ہے : منافقوں کواس بات کا ڈر تھا کہ کہیں ان کے خلاف قرآنی آیا ت نازل ہوں اور ان کے دلوں میں چھپے ہو ئے رازوں کو طشت ازبام کردیں ۔
اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ” تنزل علیھم “ کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس قسم کی آیتیں منافقین پرنازل ہوتی تھیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ وہ ان کے بارے اور ان کے خلاف تھیں اگر چہ حضرت رسول اکرم پر نازل ہوتی تھیں ۔
خدا اس کے بعد میں آنے والی آیت میں منا فقین کے ایک اور منصوبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :۔
” اگر ان سے پوچھو کہ تم نے اس قسم کی غلط بات کیوں کی ہے اور اس قسم کی غلط حرکت کیوں کی ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ ہم دل لگی او رہنسی مذاق کرتے تھے او راس سے ہماری کوئی غرض نہ تھی ( وَلَئِنْ سَاٴَلْتَھُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ )۔۱
اصل میں یہ ایک انوکھی راہ فرار تھی ۔ سوچ سمجھ کر سازشیں کرتے تھے اور زہریلی باتیں اس ارادے سے کرتے کہ ان کارازظاہر نہ ہو اور ان کا منحوس مقصد پورا ہوگیا تو اپنی دلی مراد پالیں گے اور اگر بھانڈا پھوٹ گیا تو اپنے آپ کو ہنسی مذاق کے پر دے میں چھپا لیں گے اور جھوٹ موٹ بہانہ بازیا ں کرکے رسول اکرم اور لوگوں کی طرف سے سزا اور رد عمل سے بچ جائیں گے ۔
اس زنے کے منافق بلکہ ہر زمانے کے منافقوں کے منصوبے ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں اس طریقے سے وہ بہت سے فائدے اٹھا تے ہیں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن مقاصد کے وہ سختی سے پابند ہو تے ہیں انھیں عام مذاق اور دل لگی کے لباس میں پیش کرتے ہیں اگر اپنا مقصد پالیا تو کیا کہنے ورنہ مذاق اور خوش طبعی کے بہانے سزا کے چنگل سے بچ جاتے ہیں ۔
لیکن قرآن ابھی یقینی سزا دینے کا اعلان کرتا ہے اور رسالتِ مآب کو حکم دیتا ہے کہ ان سے کہہ دو کیا تم خدا ، اس کی آیتوں اور ا س کے رسول کا مذاق اڑاتے ہو اور اس سے استہزا اور دل لگی کرتے ہو ( قُلْ اٴَبِاللهِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ تَسْتَہْزِئُونَ )۔یعنی کیا ہر ایک سے مذاق کیا جاسکتا ہے ، یہاں تک کہ خدا ، پیغمبر اور آیات قرآن کے ساتھ بھی ؟ کیا پختہ ترین اسلامی اصول بھی ہنسی مذاق کے لائق ہیں ؟ کیا حضرت رسول کرام کی اونٹنی ک وبد کانا اور بھگا نا اور اس خطر نا ک گھاٹی میں پیغمبر کا گرنا ۔ ایسی چیزیں ہیں جن کو مذاق کے پردے میں چھپا یا جا سکے ؟
یا آیات خداوند ی کا مذاق اڑانا اور پیغمبر کی آئندہ کامیابیوں کی پیش گوئیوں پر پھبتیاں کسنا بھی مزاح سمجھا جا سکتا ہے یہ سب باتیں گواہی دیتی ہیں کہ وہ خطر ناک ارادے رکھتے تھے جنھیں ان پردوں میں چھپا نا چاہئیے تھے۔
اس کے بعد خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم یدا ہے ہ منافقوں سے صراحت کے ساتھ کہہ دو کہ ” ان فضول اور جھوٹے حیلے بہانوں سے باز آجاوٴ

“( لاَتَعْتَذِرُوا )۔
” کیونکہ تم نے ایما ن کے بعد کفر کی راہ اختیار کرلی ہے (قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ )۔
اس بات سے پتہ چلتاہے کہ مذکورہ بالا گروہ سے منافقوں کی صف میں نہ تھا بلکہ یہ لوگ کمزور ایمان رکھنے والوں کی صف میں تھے لیکن مندرجہ بالا واقعہ کے بعد انھوں نے کفر کا راستہ اختیار کرلیا ۔
مندرجہ بالا جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جماعت اس سے پہلے بھی منافقوں کے صف میں داخل تھی لیکن کیونکہ ان سے ظاہر بظاہر کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی اس لئے پیغمبر اور مسلمانوں کافرض تھا کہ وہ ان سے مومنوں کا سا سلوک کریں لیکن جب جنگِ تبوک کے واقعہ کے بعد ہٹا اور انکا کفر و نفاق ظاہر ہوگیا تو انھیں اس امر سے خبر دار کیا گیا کہ تم آئندہ مومنین کی صف میں شمار نہ ہوگے۔ آخر کار آیت کو اس جملے پر ختم کیا گیا ہے : اگر ہم تم سے ایک جماعت کو بخش دیں تو دوسرے گروہ کو اس بنا پر کہ وہ مجرم ہے سزا دیں گے ( إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْکُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِاٴَنَّہُمْ کَانُوا مُجْرِمِینَ)۔یہ جو کہا گیا ہے کہ ہم ایک گروہ کو ان کے جرم و خطا کی پاداش میں سزا دیں گے یہ اس بات کی دلیل ہے ایسے لو گ قابل معافی ہیں جنھوں نے گناہ او رجرم کی نشانیوں کوتوبہ کے پانی سے دھو ڈالا ہے ۔ آئندہ آیات مثلاً آیات مثلاً آیہ ۷۴ میں بھی اس بات کا قرینہ پایا جاتا ہے ۔ اس آیت کے ضمن میں بہت سی روایتیں ہیں جو اس امر کی حخایت کرتی ہیں کہ ان منافقوں میں سے جن کا ذکر اوپر کی آیات میں ہو چکا ہے بعض اپنے کئے پر پشمان ہو ئے اور انھوں نے توبہ کی ۔ لیکن کچھ دوسرے منافقو اپنے طریقے پر ڈٹے رہے۔ مزید وضاحت کے لئے تفسیر نور الثقلین جلد ۲ صفحہ ۲۳۹ ملاحظہ فرمائیے ۔

 

۶۷۔ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضھُمْ مِنْ بَعْضٍ یَاٴْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنْ الْمَعْرُوفِ وَیَقْبِضُونَ اٴَیْدِیَھُمْ نَسُوا اللهَ فَنَسِیھُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ ھُمْ الْفَاسِقُونَ۔
۶۸۔ وَعَدَ اللهُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدِینَ فِیھَا ھِیَ حَسْبُھُمْ وَلَعَنَھُمْ اللهُ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُقِیمٌ ۔
۶۹۔ کالّذین مِنْ قَبْلِکُمْ کانوا ٓ اشدّ منکم قوة و اکثر اموالا و اولاداً فاستمعوا بخلاقھم فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بِخَلَاقِہِمْ وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خَاضُوا اٴُوْلَئِکَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْخَاسِرُونَ ۔
۷۰۔ اٴَلَمْ یَاٴْتِہِمْ نَبَاٴُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاہِیمَ وَاٴَصْحَابِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکَاتِ اٴَتَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالبَیِّنَاتِ فَمَا کَانَ اللهُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلَکِنْ کَانُوا اٴَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ ۔
ترجمہ
۶۷۔ منا فق مرد اور عورتیں سب ایک ہی گروہ سے ہیں وہ برے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور اچھے کوموں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو ( سخاوت اور بخشش سے ) باندھ لیتے ہیں انھوں نے خدا کو فراموش کردیا ہے اور خدا نے ان کو بھلا دیا ہے ( اس نے اپنے رحمت ان سے منقطع کرلی ہے ) یقینا منافق فاسق ہیں ۔
۶۸۔ خدا نے منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ وہی ان کے لئے کافی ہے اور خدا نے انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے ۔
۶۹۔ ( تم منافق لوگ ) ان افراد کی طرح ہو جو تم سے پہلے تھے ( اور انھوں نے نفاق کا راستہ اختیار کیا تھا ) وہ تم سے زیادہ طاقت ور تھے اور مال اور اولاد کے لحاظ سے تم سسے بڑ چڑھ کر تھے ۔ انھوں نے ( دنیا میں ہواو ہوس او رگناہ کے ذریعے ) اپنے حصے سے استفادہ کیا ۔ تم نے بھی ( اسی طرح ) اپنے حصے سے استفادہ کیا ہے جیسا کہ انھوں نے استفادہ کیا تھا تم ( کفر ، نفاق او رمومنین کا مذاق اڑانے میں ) مگن ہو جسیے وہ مگن تھے ( لیکن آخر کار ) ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں ملیامیٹ ہ وگئے اور وہ خسارہ میں ہیں ۔
۷۰۔ کیا انھیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے تھے ۔ قومِ نوح ۔، عاد ثمود اور براہیم کی قوم اور اصحاب مدیَن ( قوم ِ شعیب ) اور وہ شہر جو تہ و بالا ہوئے تھے ( قوم ِ لوط) کہ جن کے پیغمبر ان کی طرف روشن اور واضح دلیلوں کے ساتھ آئے تھے ( لیکن انھو ں نے پیغمبروں کی کوئی بات نہ مانی )خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔

 


۱۔ ”خوض “( بر وزن” حوض “ ) جیسا کہ کتب لغت میں ہے ، آہستہ آہستہ پانی میں داخل ہونے کے معنی میں ہے بعد ازں بطور کنایہ مختلف کاموں میں داخل ہونے کے معنی میں بولا جانے لگا لیکن قرآن میں زیادہ تر بر کام شروع کرنے یا قبیح او ربری باتوں کا سلسلہ شروع کرنے کے مفہوم میں آیا ہے ۔
 
شانِ نزولمنافقوں کی نشانیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma