منافقین کی ایک اور غلط حرکت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
چند اہم نکات چند توجہ طلب نکات

ان آیات میں بھی منافقین کے افکار و اعمال ک اذخر جاری ہے تاکہ مسلمان واضح طور پر اس گروہ کو ہیچان لیں اور ان کے غلط منصوبوں اور سازشوں کا شکار نہ ہوں ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : وہ جنھوں نے (تبوک میں ) جہاد میں شرکت نہیں کی اور بے ہودہ بہانے کرکے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اوراپنے گمان میں انھوں نے میدانِ جنگ میں خطرات پر سلامتی کو دی ترجیح دی ، وہ رسول خدا کے خلاف اس عمل پر خوش( فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللهِ
اور راہ خدا میں مال و جان سے جہاد کرنے او رمجاہدین کے عظیم اعزازات و افتخار ات حاصۺ کرنے کا ناپسند کرتے ہیں ( وَکَرِھُوا اٴَنْ یُجَاھِدُوا بِاٴَمْوَالِھِمْ وَاٴَنفُسِھِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ
انھوں نے میدان جہاد میں شر کت نہ کرنے پر قناعت نہیں کی بلکہ وہ شیطانی وسوسوں سے دوسروں کو بھی بددل کرنے یا پھر نے کی کوشش میں تھے ۔ انھوں نے دوسروں سے کہا :موسم گرما کی اس جلادینے دالی گرمیں میں میدان جنگ کی طرف نہ جاوٴ( وَقَالُوا لاَتَنفِرُوا فِی الْحَرِّ
در حقیقت وہ ایک تو مسلمانوں کے ارادوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں او ردوسرا اپنے جرم میں بہت سے افراد کو شریک کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے بعد قرآن پیغمبر اکرم کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انھیں دو توک الفاظ میں اور تنبیہ کرتے ہوئے ” کہہ دو کہ دوزخ کی جلادینے والی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے اگر تم سمجھو( قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اٴَشَدُّ حَرًّا لَوْ کَانُوا یَفْقَھُونَ
لیکن وہ کمزور ایمان اور ناسمجھی کی وجہ سے توجہ نہیں کرتے کہ کیسی جلانے والی آگ ان کے انتظار میں ہے ، ایسی آگ کہ جس کی چھوٹی سی چنگاری دنیا کی ہر قسم کی آگ سے زیادہ جلادینے والی ہے ۔
بع دکی دو آیتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ اس گمان میں ہیں کہ انھیں کامیابی حاصل ہو گئی ہے ، جہاد سے دور رہنے والے او رمجاہدین کے حوصلے پست کرنے سے وہ اپنے ہدف کو پہنچ گئے لہٰذا وہ قہقہے لگاتے ہیں جیسا کہ ہر دور کے منافقین کرتے رہے ہیں لیکن قرآن انھیں خطرے سے ڈراتے ہوئے کہتا ہے : انھیں تھوڑا ہنسنا چاہئیے اور زیادہ رونا چاہئیے ( فَلْیَضْحَکُوا قَلِیلًا وَلْیَبْکُوا کَثِیراً)۔
ہاں انھیں رونا چاہئیے اپنے تاریک مستقبل پراور ان دردناک سزاوٴں پر جو ان کے انتظار میں ہیں انھیں رونا چاہئیے اس بنا پر کہ وہ واپسی کے راستے کے تمام پلو ں کو بر باد کرچکے ہیں ۔ انھیں رونا چاہئیے کہ وہ اپنی تمام تر استعداد اور زندگانی کا سرمایہ دے کر اپنے لئے رسوائی او ربد بختی خرید چکے ہیں ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے ۔ یہ ان کے اعمال کی سزا ہے جو وہ انجام دیتے تھے ( جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ
ہم نے جو کچھ کہا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ اس جہان میں ہنسیں کم اورروئیں زیادہ ۔ کیونکہ آگے ان کے لئے ایسی دردناک سزا ہے کہ اگر اس سے آگاہ ہو جائیں تو بہت روئیں اور ہسیں بہت کم۔
لیکن بعض مفسرین نے اس جملے کے معنی کے متعلق ایک او راحتمال بھی ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جتنا بھی ہسیں دیان کی عمر اتنی تھوڑی ہے کہ وہ پھر بھی کم ہے اور آخرت میں وہ اتنا روئیں گے کہ دنیاوی گریہ و زاری اس کے مقابلے میں بہت حقیر ہے ۔
لیکب پہلی تفسیر ظاہر آیت سے اور تقریر و تحریر میں استعمال ہونے والی اس سے مشابہ تعبیرات سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے خصوصاً جب کہ دوسری تفسیر کا لازمہ یہ ہے کہ صیغہ امر اخبار کے معنی میں ہو اور یہ خلافِ ظاہر ہے ۔
ایک مشہور حدیث میں کہ جسے بہت سے مفسرین نے پیغمبر اکرم سے نقل کیا ہے ،آپ نے فرماتے ہیں :
” لاتعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلا و لبکیتم کثیراً “
اگر اسے جو ( قیامت کی ہولناک سزاوٴں کے متعلق )جانتا ہوں تم بھی جانتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔
یہ حدیث بھی پہلے معنی پ رایک شاہد ہے ( غور کیجئے گا )۔
زیر بحث آخری آیت میں منافقین کی ایک او رسچی سمجھی خطر ناک روش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ جب کسی غلط کام کو ظاہر بظاہر انجام دیتے ہیں تو اپنی براٴت کے لئے تلافی کرنے کے عذم ک ااظہار کرتے ہیں اور اس طرح اپنی بدعات اور خلافِ اسلام حرکات کو چھپانے کی کو شش کرتے ہیں ۔ آیت کہتی ہے: جس وقت خدا تجھے ان کے کسی گروہ کی طرف پلٹا ئے اور وہ تجھ سے جہاد کے دوسرے میدان میں شرکت کی اجازت چاہیں تو ان سے کہہ دو کہ تم میرے ساتھ کبھی میدان جہاد میں شرکت نہ کر سکو گے اور میری معیت میں کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے ( فَإِنْ رَجَعَکَ اللهُ إِلَی طَائِفَةٍ مِنْھُمْ فَاسْتَاٴْذَنُوکَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِی اٴَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِی عَدُوًّا
یعنی رسول اللہ انھیں ہمیشہ کے لئے مایوس کردیں اور واضح کردیں کہ ان کی حنارنگ نہیں لائے گی اور کبھی کوئی ان کے فریب میں نہیں آئے گا اورکیا ہی اچھا ہوکہ وہ مکرو فریب کہ یہ جال کہیں اور لے جائیں کیونکہ یہاں اب کوئی ان کے دام فریب میں نہیں آئے گا۔
اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ” طآئفة منھم “ ( ان میں سے ایک گروہ )کے الفاظ نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ سب ایسا کرنے کو تیار نہ تھے اور دوسرے جہاد میں شرکت پر آمادگی کا اظہار سے سب نے نہیں کیا تھا ۔ شاید اس کی جہ یہ تھی کہ ان میں سے بعض اس قدر رسوا اور شرمندہ تھے کہ وہ اس رسول اللہ کی خدمت میں پیش ہو کر اپنی یہ تجویز ہی پیش نہیں کرسکتے تھے ۔
اس کے بعد ان کی پیش کش قبول نہ کرنے کی دلیل یوں بیان کی گئی ہے : میدانِ جہاد سے کنارہ کشی کرنے اور گھروں میں بیٹھ رہنے پر تم پہلے بھی راضی ہو چکے ہو پھر اب بھی منہ موڑنے والوں کے ساتھ مل جاوٴ اور ان کے ساتھ گھروں میں بیٹھ جاوٴ( إِنَّکُمْ رَضِیتُمْ بِالْقُعُودِ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِینَ

 

چند اہم نکات چند توجہ طلب نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma