حضرت نوح (ع) کے جہاد کا ایک پہلو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
چند الفاظ کا مفہوم حضرت نوح (ع) کے بعد آنے والے انبیاء

زیر نظر آیات سے تاریخ انبیاء اور گزشتہ اقوام کی سر گزشت کے ایک حصے کا آغاز ہوتا ہے ۔ مشرکوں اور مخالف گروہوں کی بیداری کے لئے خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ مشرکین کے بارے میں جاری گفتگو کی تکمیل گزشتہ لوگوں کی عبرت انگیز تاریخ کے حوالے سے کریں ۔
پہلے حضرت نوح (ع) کی سر گزشت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کے سامنے نوح کی سر گزشت پڑھو، جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! تمہارے درمیان میرا توقف اور آیات ِ الٰہی کا یاد دلانا اگر تمہارے لئے گراں ہے اور ناقابل ِ برداشت ہے تو پھر جو کچھ تم سے ہو سکے کر گزر رو اور اس میں کوتا ہی نہ کرو

( وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاٴَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ یَاقَوْمِ إِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَقَامِی وَتَذْکِیرِی بِآیَاتِ اللهِ) ۔کیونکہ میں نے اللہ پر توکل کیا ہے “ لہٰذا اس کے غیر سے نہیں ڈرتا اور نہ میں کسی سے ہراساں ہو ں ( فَعَلَی اللهِ تَوَکَّلْت) ۔
اس کے بعد تاکیداً فرمایا گیا ہے : اب جب کہ ایسا ہے تو اپنی فکر مجتمع کرلو اور اپنے بتوں کو بھی دعوتِ عمل دو تاکہ وہ تمہارے ارادے میں تمہاری مدد کریں (فَاٴَجْمِعُوا اٴَمْرَکُمْ وَشُرَکَائَکُم) ۔” اس طرح سے کہ کوئی چیز تم پر مخفی نہ رہے اور نہ تمہارے دل میں کوئی غم رہے “ بلکہ پوری وضاحت سے میرے بارے میں پختہ ارادہ کرلو( ثُمَّ لاَیَکُنْ اٴَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّةً ) ۔
” غمة “ ” غم “ کے مادہ سے کسی چیز کے چھپانے کے معنی میں ہے ۔ یہ جو رنج و اندوہ اور حزن و ملال کو غم کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کے دل کو چھپالیتا ہے ۔
اس کے بعد کہاگیا ہے : اگرتم سے ہو سکے تو ” اٹھ کھڑے ہو اور میری زندگی کا خاتمہ کر دو اور مجھے لمحہ بھر کی مہلت نہ دو“ ( ثُمَّ اقْضُوا إِلَیَّ وَلاَتُنْظِرُونِی) ۔۱
حضرت نوح (ع) خدا کے عظیم رسول ہیں ان کے بہت تھوڑے سے ساتھی تھے اور دشمن نہایت سخت اور طاقت ور لیکن وہ پانے یقین کے ساتھ کہ جو اولو العزم پیغمبروں کا خاصہ ہے بڑی شجاعت اور پامردی سے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں ۔ ان کی قوت و طاقت کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کے سازشوں ، افکار اور بتوں کے بارے میں اپنی بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کے افکار و نظر یات پر ایک شدید نفسیاتی ضرب لگاتے ہیں ۔
اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ آیات مکہ میں نازل ہو ئیں اس زمانے میں کہ جب رسول اللہ بھی حضرت نوح (ع) جیسے حالات سے دو چار تھے اور مومنین اقلیت میں تھے ، قرآن چاہتا ہے کہ پیغمبر اکرم کو بھی یہی حکم دے کہ وہ دشمن کی طاقت کو اہمیت نہ دیں ، بلکہ یقین او رشجاعت و شہامت کا مظاہرہ کریں کیونکہ ان کی پناہ گاہ خدا ہے اور اس کی قدرت کے سامنے طاقت نہیں ٹھہر سکتی ۔
بعض مفسرین حضرت نوح (ع) کے اس قیام کو یا تاریخ انبیاء میں ایسے واقعات کو اعجاز کی ایک قسم قرار دیتے ہیں کیونکہ انھوں نے ظاہری وسائل نہ ہونے کے باوجود دشمنوں کو شکست کی دھمکی دی او رانجام کا ر اپنی فتح کی خبر دی اور یہ چیز معجزے کے سوا ممکن نہیں ۔
بہر حال یہ تمام اسلامی رہبروں کے لئے ایک درس ہے کہ وہ دشمنوں کی کثرت سے ہر گز ہراساں نہ ہوں بلکہ پر وردگار پر بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے ، حتمی و قطعی فیصلے کے ساتھ جتنا زیادہ ہو سکے انھیں مقابلہ کی دعوت دیں او ران کی طاقت کی تحقیر و تذلیل کریں کیونکہ یہ اسلام کی پیروکاروں کی روحانی تقویت اور دشمنوں کی روحانی شکست کے لئے ایک اہم عامل ہے ۔
اگلی آیت میں حضرت نوح (ع) کی طرف سے اپنی حقانیت کے لئے اثبات کے لئے ایک اور بیان نقل ہواہے ارشاد ہوتا ہے :اگر تم میری دعوت سے رو گردانی کرو گے تو مجھے کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ میں نے تم سے کسی اجر یا مزدوری کا تو تقاضا نہیں کیا ( فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاٴَلْتُکُمْ مِنْ اٴَجْرٍ )2
کیونکہ میرا اجر اور جزا صرف خدا پر ہے “ ( إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی اللهِ ) ۔
میں اس کام کے لئے کرتا ہوں اور اسی سے اجر و جزا چاہتا ہوں اور ” میں مامور ہوں کہ فقط فرمانِ خدا کے سامنے سر تسلیم خم کروں “ ( وَاٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ ) ۔
یہ جو حضرت نوح(ع) کہتے ہیں کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا خدائی رہبروں کے لئے یہ ایک اور درس ہے کہ وہ اپنی دعوت اور تبلیغ میں لوگوں سے کسی قسم کی کوئی مادی اور معنوی جز کی توقع نہ رکھیں کیونکہ ایسی توقعات ایک قسم کی وابستگی پیدا کردیتی ہیں اور ان کی صریح تبلیغات اور آزادانہ کار کر دگی کی راہ میں دیوار بن جاتی ہیں لہٰذا فطرتا ً ان کی تبلیغات اور دعوت کا اثر کم ہو جائے گا ۔ ۔ اس بناء پر اسلام اور اس کی تبلیغ اور دعوت کے لئے صحیح راستہ بھی یہی ہے کہ مبلغین اسلام اپنی گزر بسر کرنے اور معاش کے لئے بیت المال کا سہارا لیں نہ کہ وہ لوگوں کے محتاج ہوں ۔
زیر بحث آخری آیت میں حضرت نوح کے دشمنوں کے انجام اور آپ پیش گوئی کی صداقت کی یوں بیان کیا گیا ہے : انھوں نے نوح کی تکذیب کی لیکن ہم نے اسے اور ان تمام افراد کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی( فَکَذَّبُوہُ فَنَجَّیْنَاہُ وَمَنْ مَعَہُ فِی الْفُلْکِ) ۔3
” ہم نے یہ صرف انھیں نجات دی بلکہ ستم گر قوم کی جگہ جانشین بنایا “( وَجَعَلْنَاھُمْ خَلَائِف) ۔اور جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا تھا انھیں ہم نے غرق کردیا “ (َ وَاٴَغْرَقْنَا الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ) ۔
آخر میں روئے سخں پیغمبر اکرم کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اب ان لوگوں کا انجام دیکھو جھنیں ڈرایا گیا تھا لیکن انھوں نے خدا ئی تنبیہوں کو نہ سمجھااس طرح ہم تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ( تاکہ وہ کچھ نہ سمجھ سکیں ) ۔

(فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِینَ) ۔

 

۷۴۔ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِہِ رُسُلًا إِلَی قَوْمِھِمْ فَجَائُوھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا بِمَا کَذَّبُوا بِہِ مِنْ قَبْلُ کَذَلِکَ نَطْبَعُ عَلَی قُلُوبِ الْمُعْتَدِینَ۔۔

تترجمہ

۷۴۔ پھر ہم نے نوح (ع) کے بعد کچھ رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے وہ واضح دلائل لے کے ان کے پاس گئے لیکن وہ اس چیز پر ایمان نہ لائے جس کی پہلے تکذیب کرچکے تھے ۔
 


۱۔ ” کان ان کبر علیکم “ کی جزاء شرط کیاہے ؟ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے اس کے لئے جس قدر احتمالات ذخر ہوئے ہیں ان میں سے دو زیادہ قرین عقل ہیں ۔ایک یہ کہ ” فاجمعوا امرکم “ جزائے شرط ہے اور ” فعلی اللہ توکلت “ شرط اور جزا کے درمیان جملہ معترضہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ جزا محذوف ہے او ربعد والے جملے اس پر دلالت کرتے ہیں اور تقدیر اس طرح ہے : فافعلوا ما ترید ون فانی متوکل علی اللہ ۔ در حقیقت جملہ ” فعلی اللہ توکلت“ علت کے قبیل سے ہے جو معلول کی جانشین ہے اور بعد والے جملے میں ” شرکائکم “ بتوں کی طرف اشارہ ہے اور اس سے پہلے واوٴ ہے وہ ” مع“ کے معنی میں ہے ( غور کیجئے گا ) ۔
2۔ اس شرط کا جواب بھی محذوف ہے ۔فان تولیتم فلا تضرونی۔ یا اس طرح ہے : فان تولیتم فانتم و شاٴنکم۔
3۔ ”فلک “ کشتی کے معنی میں یہ لفظ ” سفینہ “ سے مختلف ہے ۔ یہ فرق کہ ” سفینہ “ مفرد ہے اور اس کی جمع ” سفائن “ ہے ، جبکہ ” فلک “ مفرد اور جمع دونوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔

 

چند الفاظ کا مفہوم حضرت نوح (ع) کے بعد آنے والے انبیاء
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma