گزشتہ آیات میں چونکہ انبیاء اور اقوام کی سر گذشت کے کچھ حصے بیان کئے گئے ہیں لہٰذا ممکن تھاکہ بعض مشرکین اور دعوتِ پیغمبر کے منکر ان کی صداقت میں شک کرتے ۔ قرآن ان سے چاہتا ہے کہ ان کہی ہوئی باتوں کی صداقت سمجھنے کے لئے اہل کتاب کی طرف رجوع کریں اور ان کے بارے میں ان سے معلوم کریں کیونکہ ان کی کتب میں اس قسم کے بہت سے مسائل آئے ہیں لیکن مخالفین کی طرف روئے سخن کرنے کی بجائے پیغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے اگر تجھے اس کے بارے میں شک وتردد ہے تو ان سے جو تجھ سے پہلے آسمانی کتب پڑھتے ہیں پوچھ لے ( فَإِنْ کُنْتَ فِی شَکٍّ مِمَّا اٴَنْزَلْنَا إِلَیْکَ فَاسْاٴَلْ الَّذِینَ یَقْرَئُونَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ) ۔
تاکہ اس طرح سے یہ ثابت ہو جائے کہ ” ج وکچھ ہم نے تجھ پر نازل کیا ہے وہ تیرے پر وردگار کی طرف سے حق ہے ( لَقَدْ جَائَکَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ ) ۔لہٰذا کسی قسم کے شک و شبہ کو ہر گز اپنے قریب نہ آنے دے ( فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ المُمْتَرِینَ) ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مندرجہ بالا دعوت پیغمبر کی صداقت کے بارے میں ایک نئی اور مستقبل بحث شروع کررہی ہو اور مخالفین سے کہتی ہو کہ اھر اس کی حقانیت کے بارے میں انھیں کوئی شک و تردد ہے تو اس کی نشانیاں جو گزشتہ کتب مثلاً تورات اور انجیل میں ہیں اہل کتاب سے پوچھ لیں ۔
ایک شان نزول جو بعض کتب تفسیر ( تفسیر الفتوح رازی ،ج۶ ،ص ۲۲۷، مذکورہ آیت کے ذیل میں ) ۔ میں نقل ہو ئی ہے وہ بھی اس معنی کی تائید کرتی ہے ۔ اور وہ یہ ہے : کفار قریش کا ایک گروہ کہتا تھا کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوا بلکہ ( معاذاللہ ) محمد پر شیطان القا ء کرتا ہے ۔ ان کی اس گفتگو کی وجہ سے بعض لوگ شک و تردد کا شکار ہو گئے اس آیت کے ذریعے الہ نے انھیں جواب دیا۔