روحانی سکون ایمان کے زیر سائی ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
خد اہر جگہ ناظر ہے دو اہم نکات

گزشتہ آیات میں مشرکین اور بے ایمان افراد کے حالات کا کچھ حصہ پیش کیا گیا تھا ۔ ان آیات میں ان کے مد مقابل مخلص، مجاہد اور پرہیز گار مومنین کی کیفیت بیان ہوئی ہے تاکہ موازنہ ہو سکے ۔ جیسا کہ قرآن کی روش ہے کہ وہ نور کو ظلمت سے اور سعادت کو بد بختی سے میّز کر تا ہے ۔
پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : آگاہ رہو کہ اولیاء ِ خدا پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ انھیں کوئی حزن و غم ہے (اٴَلاَإِنَّ اٴَوْلِیَاءَ اللهِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُونَ) ۔
اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے اولیاء کا معنی خوب معلوم ہونا چاہئیے ” اولیاء “ ”ولی “ کی جمع ہے یہ اصل میں ”ولی یلی “ کے مادہ سے لیا گیا ہے جو دو چیزوں کے نزدیک واسطہ نہ ہونے اور ان کے ایک دوسرے کے نزدیک پے در پے ہونے کے معنی میں ہیں لہٰذا ہر اس چیز کو جو دوسری سے مکان ، زمان ، نسب یا مقام کے لحاظ سے قرابت رکھتی ہے ” کہا جا تا ہے ۔ اس لفظ کا ” سر پرست “ اور ”دوست“ وغیرہ کے لئے استعمال بھی اسی بناء پر ہے اس لئے اولیاء وہ ہیں جن کے اور خدا کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو ۔ اولیاء ِ خد ا معرفت اور ایمان کے نور سے اور اپنے پاک عمل کی بناء پر خد اکو دل کی آنکھ سے اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کے دل میں کسی قسم کا کوئی شک اور ترد پیدا نہیں ہوتا اور خدا کہ جو بے انتہا ہے جس کی قدرت بے پایاں ہے او رجو کما ل ِ مطلق ہے ، سے اسی آشنائی کے سبب جو کچھ خدا کے علاوہ ہے ، ان کی نگاہ میںحقیر ، بے وقعت ، ناپائیدار اوربے مقدار ہے ۔ جو شخص سمندر سے آشنا ہے قطرہ اس کی نگاہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتی اور جوآفتاب کو دیکھتا ہے وہ ایک سمع بے فورح سے بے اعتناء ہے ۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انھیں کیوں خوف و اندوہ نہیں ہے کیونکہ خوف عام طور پر میسر نعمتوں کے فقدان کے احتمال پر ہوتا ہے یا ان خطرات سے ہو سکتا ہے جبکہ خدا کے اولیاء اور سچے دوست مادی دنیا کی ہر قسم کی وابستگی اور عقد سے آزاد ہیں اور ” زہد “ اپنے حقیقی مفہوم میں ان کے وجود پر حکومت کرتا ہے وہ نہ مادی وسائل کے چھن جانے پر واویلا کرتے ہیں اور نہ آئندہ کے لئے ایسے مسائل کا احتمال ان کے اذہان کو اپنی طرف مشغول رکھتا ہے : ان کے وجود میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
کسی چھوٹے سے برتن کا پانی انسان کی ایک پھونک ہی سے متلاطم ہو جاتا ہے لیکن ایک وسیع سمندر کے لئے طوفان بھی کم اثر ہوتے ہیں ۔ اسی لئے سمندر کو سکون کہاجاتا ہے ۔
لکی لا تاٴسوا علی مافاتکم ولا تفرحوا بما اٰتاکم ۔
تاکہ نہ افسوس کرو تم اس چیز کا جو تم سے چھن جائے اور نہ خوش ہو تم اس چیز سے جو تم کو دی جائے ۔ (حدید۔۲۳)
نہ وہ دن کہ جب دنیا ان کے پاس تھی انھوں نے اس سے دل لگا یا اور نہ آج جبکہ اس سے جدا ہورہے ہیں انھیں اس کا غم ہے ۔ ان کی روح بزرگ تر ہے اور ان کی روح سے بالا تر ہے کہ ایسے حوادث ان کے گزشتہ اور آئندہ پر اثر انداز ہوں گے ۔
اس طرح سے حقیقی امن و سکون ان کے وجود رپر حکم فرما ہے ۔ قرآن کے مطابق :
اولٰئک لھم الامن
انہیں لوگوں کے لئے امن اور سلامتی ہے ۔( انعام ۔ ۸۲) ۔
یا دوسرے لفظوں میں :
الا بذکراللہ تطمئن القلوب۔
خدا کی یاد ان کے دلوں کے سکون کاباعث ہے ۔ ( رعد ۔ ۲۸)
خلاصہ یہ کہ عموماً غم اور خوف انسانوں میں دنیا پرستی کی روح کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ جو لوگ اسی روح سے تہی داماں ہیں اگر انھیں کوئی غم اور خوف نہ ہو تو یہ بہت فطری اور طبعی بات ہے یہ اس مسئلہ کا استدلالی بیان ہے ۔ کبھی اس مسئلے کو عرفانی صورت میں یوں بیان کیا جاتا ہے :
اولیاء اللہ اس طرح صفات جلال و جمال میں مستغرق ہیں اور کی ذات پاک کے مشاہدہ میں محو ہوتے ہیں اور اس کے غیر کو بھول جاتے ہیں کہ کسی چیز کے لئے کھو جانے کے غم میں اور کسی خطرناک دشمن کے خوف کی ان کے دل میں کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ جس کے دل میں خدا کے سوا کسی کے لئے کوئی گنجائش نہ ہو اور جو اس کے غیر کی فکر نہ کرے اور اس کی روح اس کے علاوہ کسی کو قبول نہ کرے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی غم و اندوہ یا خوف و وحشت سے دو چار ہو۔
جو کچھ ہم نے کہ اہے اس سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ اس سے مراد مادی نج و غم اور دنیاوی خوف و ہراس ہے ۔ ورنہ اللہ کے دوستوں کا وجود اس کے خوف سے مالا مال ہوتا ہے ۔ فرائض اور ذمہ دار یوں کے انجام نہ دینے کا خوف اور ان مواقع کا دکھ کہ جو ان سے جائع ہو گئے ۔ یہ حزن و ملال روحانی پہلو اور وجود انسان کے تکامل اور ترقی کا باعث ہے جبکہ اس کے بر عکس مادی خوف اور غم انحطاط اور تنزل کا سبب ہیں ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے مشہور خطبہ ہمام میں اولیا ء اللہ کے حالات کی نہایت خوبصورت تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قلوبھم مخزونة و شرورھم مامونة ۔
ان کے دل مخزونو غمزہ ہیں اور لوگ ان کے شر سے امان میں ہیں ۔
آپ(ع) مزید فرماتے ہیں :
ولو لا الاجل الذی کتب اللہ علیھم لم تستقرارواحھم فی اجسادھم طرفة عین شوقاً الیٰ الثواب وخوفاً من العقاب۔
اگر وہ اجل جو خدا نے ان کے لءء مقرر کی ہے نہ ہوتی تو ثوابِ الہٰ ی کے شوق میں اور عذاب الہٰی کے خوف سے ان کے جسموں میں ان کی روح چشم زدن کی دیر بھی ٹھہرتی ۔ ( نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۳(صبحی صالح )،) ۔
قرآن مجید بھی مو منین کے بارے میںکہتا ہے :
الذین یخشون ربھم بالغیب وھم من الساعة مشفقون۔
وہ لوگ جو پر وردگار سے اس کے غضب کو نہ دیکھنے کے باجود ڈرتے ہیں ۔( انبیاء ۔ ۴۹)
اس بناء پر ان کا خوف و ہراس دوسری قسم کا ہے ۔ ۲
۲ اس وقت جب کہ ہم یہ آیات لکھ رہے ہیں اللہ کے ایک سچے ولی کی شہادت کی خبر پہنچی ہے یعنی فلسفی ، عالم ، مجاہد ِ عظیم آقائے مرتضی مطہری کی خبر شہادت ۔ اس شہادت نے ہمارے لئے یہ حقیقت ایک مرتبہ ثابت کردی ہے کہ عظیم اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے جسے ہم نے دورِ حاضر میں اس ملک میں شروع کررکھا ہے اور جس میں قوم کے تمام طبقے شریک ہیں ، ابھی ہمیں بہت سا خون اور بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی ۔ لیکن اب کے دشمنوں نے ہم سے ایک ایسے جواں مرد کو چھینا ہے جس کی ساری عمر علم و دانش کی خدمت میں صرف ہوئی تھی اور ا سکے گراں بہا آثار علمی اس دعویٰ پر شاہد ناطق ہیں ۔ وہ مخلص مجاہد اور آزاد مومن تھے ۔ وہ بھی انہی افراد میںسے تھے کہ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ :۔ ” نہ انھیں خوف ہے او رنہ غم و حزن“ کیونکہ اس شہید نے اپنے پیغام اور ذمہ داری کو عمدہ طریقے سے انجام دیا اور اپنے پیغام اور ذمہ داری کی راہ میں شہید ہو گیا ۔
( ۱۲ اردی بہشت ۱۳۵۸ ہجری شمسی )
یہ کہ اولیاء خدا سے مراد کون سے افراد ہیں ، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن دوسری آیت اس مطلب کو واضح کرتی ہے اور بحث کردیتی ہے  ار شاد ہوتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ہمیشہ تقویٰ اور پر ہیز گاری کو اختیا ر کئے رکھا ( الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ) ۔
یہ امر جاذب توجہ ہے کہ ایمان کا ذکر ما ضی مطلق کی صورت میں ہے اور تقویٰ کا ذکر ماضی استمراری کی شکل میں ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان کا ایمان حد کامل کو پہنچ گیا ہے لیکن تقویٰ جوکہ روزمرہ کے عمل میں منعکس ہوتا ہے ، ہر گھڑی نئے کام کا مطالبہ کرتا ہے اور تدریجی پہلو رکھتا ہے یہ ان کے لئے ایک دائمی ذمہ دای کی صورت میں ہے ۔
جی ہاں یہ وہ لوگ ہیں جو دین اور شخصیت کے ان دو بنیادی ار کان کے حامل ہیں اور اس کی وجہ سے اپنے اندر ایک ایسا سکو ن محسوس کرتے ہیں کہ جسے زندگی کا کوئی طوفان مضطرب نہیں کرسکتا بلکہ :
الموٴمن الحبل الراسخ لاتحرکہ العواصف ۔
مومن مضبوط پہاڑ کی طرح ہے جسے تیز آندھیاں ہلا نہیں سکتیں ۔
یعنی وہ پہاڑ کی طرح حوادث کی تند ہوا کے سامنے استقامت اور پا مردی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
تیسری آیت میں اولیاء ِ حق کے وجود میں خوف و غم اور وحشت و اضطراب کے نہ ہونے کی تاکید یوں کی گئی ہے : ان کے لئے دنیاوی زندگی میں اور آخرت میں بشارت، خوشحالی اور سرور نصیب ہو گا ( توجہ رہے کہ البشریٰ میں الف لام جنس کے حوالے سے مطلق ذکر ہوا ہے اور اس میں طرح طرح کی بشارتوں کا مفہوم موجود ہے ) ۔
دوبارہ تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے : پر وردگار کی باتوں اور خڈائی وعدوں میں تغیر نہیں ہوتا اور خدا اپنے دوستوں کے بار ے میں اپنا وعدہ پورا کرے گا (لا تبدیل کلمات اللہ )، اور یہ جسے نصیب ہوا اس کے لئے عظیم کامیابی اور سعادت ہے (ذَلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ) ۔
آخری آیت میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے جو اولیاء اللہ اور دوستان خدا کے سردار ہیں ۔ ان کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : غافل اور جاہل مخالفین اور مشرکین کی غیر موزوں باتیں تجھے غمگین نہ کریں ( وَلاَیَحْزُنْکَ قَوْلھُم جمیعاً) ۔کیونکہ تمام عزت و قدرت خدا کے لئے ہے اورخدا کے ارادہٴ حق کے سامنے دشمن کچھ نہیں کرسکتے ( إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّہِ ) ۔ خدا ان کی سب سازشوں سے باخبر ہے ۔ ان کی باتوں کو سنتا ہے اور ان کے اندر ونی اسرار و رموز سے آگاہ ہے ( ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ) ۔

 

خد اہر جگہ ناظر ہے دو اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma