خدا شناسی اور قیامت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
تفسیردو قابل توجہ نکات

وحی اور نبوت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ، اس سورہ کی ابتدائی آیات میں قرآن تمام انبیاء کی تعلیمات کے دو بنیادی اصولوں یعنی مبداء اور معاد کا رخ کرتا ہے زیر نظر دو آیت میں ان دو اہم اصولوں کو مختصر اور واضح عبارت میں بیان کیا گیا ہے پہلے فرمایا گیا ہے : تمہارا پروردگار وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ( إِنَّ رَبَّکُمُ اللَّہُ الَّذی خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضَ فی سِتَّةِ اٴَیَّام)جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں لفظ ” یوم “ عربی زبان میں اور ” روز “ فارسی زبان میں اور اسی طرح دوسری زبانوں میں ان کے متبادل الفاظ بہت سے موقع پر دور کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ ایک دن تھا جب استبداد کا دور تھا اور اس دور کے خاتمے پر لوگوں کی نجات اور آزادی کا دور آن پہنچا ہے ۔ ۱
اس بناء پر مندرجہ بالا جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ پروردگار نے آسمان اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا کیا اور چونکہ ان چھ ادوار کے بارے میں ہم پہلے گفتگو کر چکے ہیں لہذا یہاں تکرار نہیں کرتے ۔ ۲ ا
لفظ ” عرش “ بعض اوقات چھت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس چیزکے معنی میں بولا جاتا ہے جو چھت کے رکھتی ہو اور بعض اوقات یہ اونچے پاوٴں والے تخت کے معنی میں آتاہے اس کا اصلی معنی ہے ” قدرت “ مثلاً ہم کہتے ہیں فلاں شخص بیٹھا یا اس کے تخت کے پائے گر گئے یا اس ے تخت سے اتار دیا گیا ۔ یہ سب اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار کھو دینے کے لئے کنایہ ہیں حالانکہ ہوسکتا ہے ، تخت اصلاً ہو ہی نہیں ۔ لہٰذا ” استوی علی العرش “ کے معنی ہیں خدا نے امور عالم کی باگ دوڑ اپنے دست قدرت میں لی ۔۳
”تدبر “ تدبیر “ کے مادہ سے مشتق ہے اور در اصل ” دبر “ ( بر وزن ) ”ابر“) کسی چیز کے پیچھے اور انجام کے معنی میں ہے اس بناء پر” تدبیر “کاموں کے انجام کی تحقیق کرنے او رمصالح کو منظم کرکے ان کے مطابق عمل کرنے کے معنی میںہے ۔
جب یہ واضح ہو گیا کہ خالق اللہ ہے او ر عالم ہستی کو وہی چلاتا ہے او رتما م امو رکی تدبیر اس کے فرمان سے ہو تی ہے واضح ہے کہ بے جان ، عاجز اور ناتواں بتوں انسانوں کی سر نوشت میں کوئی اثر نہیں ہے اس لئے بعد والے جملہ میں فرمایاگیا ہے : اس کے اذن کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے ( ما مِنْ شَفیعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِہ)۔ ۴
جی ہاں .حقیقت یہی ہے کہ اللہ تمہارا پر وردگار ہے لہٰذا اس کی پرستش کرو نہ کہ اس کے غیر کی (ِ ذلِکُمُ اللَّہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوہُ
کیا اس واضح دلیل سے تم متذکر اور متوجہ نہیں ہوتے ( اٴَ فَلا تَذَکَّرُونَ
جیسا کہ ہم اشار ہ کرچکے ہیں ” بعد والی آیت میں معاد اور قیامت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں یہ معاملہ ، اس کی دلیل اور اس کا مقصد بیان کیا گیا ہے ۔
پہلے قرآن کہتا ہے : تم سب کی باز گشت خدا کی طرف ہے ( إِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمیعاً
اس کے بعد تاکیداً فرمایاگیا ہے : خدا کا یہ قطعی وعدہ ہے ( وَعْدَ اللَّہِ حَقًّا
بعد از آں اس کی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے : خد انے خلقت کی ابتداء کی اور پھر اس کی تجدیدکرے گا ( إِنَّہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعیدُہُ
یعنی جو لوگ معاد اور قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں انھیں آغازخلقت کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہئیے ۔
خدا جس نے دنیا کو ابتداء میں ایجادکیا وہ اسے دوبار پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے یہ استدلال ایک دوسری شکل میں سورہ اعراف آیت ۲۹ میں ایک مختصر سے جملہ میں بیان ہوا ہے اس کی تفصیل سورہ اعراف کی تفسیر میں گذر چکی ہے ۔
قیامت او رمعاد سے مربوط آیات نشان دہی کرتی ہیں کہ مشرکین اور مخالفین کے شک کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ انھیں ایسی چیز کے امکان میں شک تھا اور تعجب سے سوال کرتے تھے کہ کیا یہ بوسیدہ اور خا ک بنی ہوئیں ہڈیاں دوبارہ لباس حیات پہنیں گی اور اپنی پہلی شکل میں پلٹ آئیں گی ۔
اس لئے قرآن نے بھی اس مسئلہ کے امکان پر انگلی رکھی ہے اور کہتا ہے : اس ذات کو فراموش نہ کرو جو اس جہاں کو از سر نو ساز و سامان بخشے گا او رمردوں کو زندہ کرے گا کیونکہ وہی آفریدگار ہے جس نے آغاز میں یہی کا م کیا تھا ۔
اس کے بعدمعادکے مقصد کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے : یہ اس بناء پر ہے کہ خدا ایسے افراد کو جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک اعمال انجام دئیے ہیں انھیں عادلانی جزا او ربدلہ دے گا ۔
بغیر اس کے کہ ان کا کوئی چھوٹا سا عمل بھی بغیر لطف و رحمت کی نظر سے مخفی رہے اور اجر و ثواب کے بغیر رہ جائے ( لِیَجْزِیَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ
” اور وہ لوگ کہ جنہوں کفر اور انکا ر کا راستہ طے کیا ہے اور پھر فطری طور پر ان کاکوئی نیک عمل بھی نہ تھا ( کیونکہ اچھے عمل کی جڑ اچھا عقیدہ ہے ) ان کے درد ناک سزا ہے ۔ ان کے پینے کے لئے گرم اور جلانے والا پانی ہے اور ان کے کفر کی وجہ سے عذاب الیم ان کے انتظار میں ہے ( وَ الَّذینَ کَفَرُوا لَہُمْ شَرابٌ مِنْ حَمیمٍ وَ عَذابٌ اٴَلیمٌ بِما کانُوا یَکْفُرُون

 

 


۱- مزید توضیح اور اس سلسلے میں عربی فارسی مثالوں کے لئے تفسیر نمونہ جلد ششم سورہ اعراف کی آیت ۵۴ کے ذیل میں رجوع کریں ۔
2-اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : خدا نے عالم کو پیدا کرنے کے بعد اس کے امور کی باگ ڈور اپنے دست قدرت میں لی ( ثم استوی علیٰ العرش) ۔ تمام کام اس کے فرمان سے ہوتے ہیں اور تمام چیزیں اس کے قبضہ تدبیر میں ہیں ( ید بر الامر )
۳۔زیادہ وضاحت اور ”عرش“ کے مختلف معانی سے باخبر ہونے کےلئے تفسیر نمونہ جلد ۶ ص۱۸۰( اردو ترجمہ ) اور ج۲ ص ۱۵۸ ( اردو ترجمہ )
۴-شفاعت جیسے اہم مسئلہ پر ہم بحث پہلے ہی کرچکے ہیں اس کے لئے جلد اول ص۱۸۷ ( اردو ترجمہ ) اور جلد دوم ص ۱۵۵( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

 

تفسیردو قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma