چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
عظمت الہی کی نشانیاں جنتی اور دوزخی

۱۔ ضیا اور نور میں فرق : اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے ۔
بعض دونوں کو مترادف اور ہم معنی سمجھتے ہیں ۔
بعض کہتے ہیں کہ ضیاء جو مندرجہ بالا آیت میں سورج کی روشنی کے لئے استعمال ہوا ہے وہ قوی اور طاقتور نور ہے لیکن لفظ” نو ر “ جو چاند کے بارے میںآیا ہے ، کمزور نور کے بارے میں ہے ۔
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ” ضیاء “ ذاتی طور پر یہ نور کے معنی میں ہے لیکن نور ایک عام مفہوم رکھتا ہے جو ذاتی اور دوسرے سے حاصل کردہ دونوں کے لئے ہے ۔ اس صورت میں مندرجہ بالا آیت میں تعبیر کا فرق اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے سورج کو نور پھوٹنے کا منبع قرار دیا ہے جبکہ چاند کا نور دوسرے سے حاصل کردہ ہے اور اس کا سر چشمہ سورج ہے ۔
قرآن کی کچھ آیات کی طرف توجہ کرنے سے یہ فرق زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے ۔
سورہ نوح کی آیہ ۱۶ میں ہے :
و جعل القمر فیھن نوراً وجعل الشمس سراجاً
ان میں سے چاند کو نور اور سورج کو چراغ قرار دیا ہے ۔
سورہ فرقان آیہ ۶۱ میں ہے -:
و جعل فیھا سراجا و قمرامنیرا۔
ان میں سے چراغ اور روشنی دینے والا چاند قرار دیا ہے۔
اور اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” سراج “ ( یعنی چراغ) اپنی طرف سے نور برساتا ہے اور وہ نور کا منبع اور سر چشمہ ہے اور سورج کو مندرجہ بالا دو آیات میں چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے واضح ہو جاتا ہے کہ زیر بحث آیات میں بھی یہ فرق بہت ہی مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
۲۔” ضیاء “ جمع ہے یا مفرد : اس سلسلے میں اہل ادب اور اہل لغت میں اختلاف ہے ۔ موٴلف قاموس کی طرح بعض نے اسے مفرد سمجھا ہے لیکن زجاج کی طرح بعض دوسرے افراد نے ” ضیاء “ کو ”ضو“ کی جمع قرار دیا ہے ۔ تفسیر المنار اور تفسیر قرطبی کے موٴلفین نے بھی دوسرا معنی قبول کیا ہے ۔
خصوصاً المنار کے موٴلف نے اسی بنیاد پرآیت سے بہت استفادہ کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے :
سورج کے نور کے بارے میں قرآن میں ” ضیاء “ کا جمع کی صورت میں ذکر اس چیز کی طرف اشارہ ہے جسے اس زمانے کی سائنس نے کئی صدیوں کے بعد ثابت کیا ہے اور وہ یہ کہ سورج کا نور سات انوار سے مرکب ہے یا دوسرے لفظوں میں سات رنگوں میں ہے وہی رنگ جو قوس قزح میں اور بلوریں سوراخوں سے گذرتے ہوتے ہوئے روشنی میں نظر آتے ہیں ۔
لیکن یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ چاند کا نور اگر چہ ضعیف ہے پھر بھی کیا وہ مختلف رنگوں سےمرکب نہیں ہے ؟
۳۔ ”قدرہ منازل “ کی ضمیر: ”قدرہ منازل “( اسکے لئے کئی منزلیں مقرر کیں )کی ضمیر کا مرجع صرف چاند ہے یا یہ چاند اور سورج دونوں کی طرف اشارہ ہے ۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے بعض کا نظریہ ہے کہ یہ ضمیر اگر چہ مفرد ہے پھر بھی دونوں کی طرف لوٹتی ہے ۔ ایسی نظیریں عربی ادب میں بہت ہے ۔ اس نظریہ کا انتخاب اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ صرف چاند ہی کی نہیں بلکہ سورج کی بھی منزلیں ہیں اور وہ ہر وقت کسی مخصوص برج میں ہوتا ہے ۔برجوںکایہی اختلاف تاریخ اورشمسی مہینوںکے بننے کی بنیادہے۔
لیکن انصاف یہ ہے کہ آیت کاظہورنشاندہی کرتا ہے کہ یہ ضمیرمفرد صرف ”قمر “ کی طرف لوٹتی ہے جواس کے قریب ہے اوراس میں بھی ایک نکتہ ہے۔۔۔۔۔کیونکہ:
وہ مہینے کہ جنہیں اسلام میں قانونی طور پر قبول کیا گیا ہے ، قمری مہینے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ چاند ایک متحرک کرّہ ہے اور اس کی کئی منزلیں ہیں لیکن سورج نظام شمسی کے وسط میں ہے اور اس نظام میں اس کی کوئی حرکت نہیں ۔
باقی رہا برجوں کا اختلاف اور بارہ فلکی برجوں میں سورج کی سیر کہ جو حمل سے شروع ہوکر حوت پر جا کر ختم ہوتی ہے تو وہ سورج کی حرکت کی وجہ نہیں ہے بلکہ زمین کی چاند کے گرد حرکت کی وجہ سے ہے اور زمین کی یہ گردش سبب بنتی ہے کہ ہم سورج کو ہر مہینے میں بارہ آسمانی برجوں میں سے ایک میں دیکھتے ہیں ۔ لہذا سورج کی مختلف منزلیں نہیں ہیں بلکہ صرف چاند ہی کی منزلیں ہیں ۔
(غور کیجئے گا )
مندرجہ بالا آیات در حقیقت ایک علمی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو آسمانی کرات سے مربوط ہے اس زمانے میں یہ بات نوع بشر کے علم کی نگاہ سے پوشیدہ تھی اور وہ یہ کہ چاند حرکت کرتا ہے لیکن سورج حرکت نہیں رکھتا ۔
۴۔ رات دن کا آنا جانا : زیر نظر آیت میں رات دن کے آنے جانے کو خدا کی ایک نشانی شمار کیا گیا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ اگر سورج کی روشنی ایک ہی طرح مسلسل زمین پر پڑتی رہتی تو یقینا زمین کا درجہ حرارت اتنا بٹرھ جاتا کہ وہ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہتی ( جیسے چاند پر جلانے والی حرارت ہے جو کہ اس کے دنوں میں زمین کے ۱۵ شب و روز کے برابر ہے ) اور اگر اسی طرح رات مسلسل جاری رہتی تو تمام چیزیں سردی کی شدت سے خشک ہوجاتیں

( جیسا کہ چاند کی طویل راتیں ہیں ) لیکن خدا نے ان دونوں کو یکے بعد دیگرے قرار دیا ہے تا کہ زندگی کو کرہ ٴارض پر باقی رکھے ۔ 1
عدد ، حساب ، تاریخ ، سال اور مہینہ کا انسانی نظام حیات ، اس کے معاشرتی رابطوں اور کام کاج پر اثر سب پر واضح ہے ۔
۵۔ تقویم اور تاریخ کا مسئلہ : مندرجہ بالا آیت میں تقویم اور تاریخ کے حساب کے جس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ انسانی زندگی کے اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ کسی نعمت کی اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب زندگی کو اس کے بغیر دیکھیں اگر ہم اس حوالے سے غور کریں کہ اگر تاریخ (DATE)

( جو کہ دنوں ، مہینوں اور سالوں کا امتیاز کرتی ہے ) انسانی زندگی سے ہٹا دی جائے مثلا ہفتے کے دن واضح نہ ہوں ، نہ مہینے کا حساب ہو اور نہ سال کا حساب ہو تو تمام تجارتی و اقتصادی معاملات ، تمام معاہدہ اور مدت کے تعین کا نظام درہم برہم ہو جائے اور کسی کام میں نظم و ضبط نہ رہے یہاں تک کہ کھیتی باڑی ، سرمایہ کاری اور کارخانوں کی حالت بھی حرج مرج کا شکار ہو جائے لیکن خدا نے چونکہ انسان کو ایک سعادت بخش زندگی کے لئے پیدا کیا ہے جس کا ایک نظم و ضبط ہے اسلئے اس نظام کے وسائل بھی اسے مہیا کئے ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ انسان کسی ایک نظام تاریخ کے مطابق کسی حد تک اپنے کاموں کو منظم کر سکتا ہے لیکن اگر یہ حساب کسی فطری میزان کے مطابق نہ ہو تو نہ اس میں عمومیت ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ قابل اعتماد ہو سکتا ہے ۔
گردش مہر و ماہ ( یا زیادہ صحیح لفظوں میں زمین کی سورج کے گرد گردش ) اور اس کی منزلیں ایک فطری تقویم کی بنیاد قائم کرتی ہیں ، جو ہر جگہ اور تمام لوگوں کے لئے واضح اور قابل اعتماد ہے ۔
جیسا کہ رات دن کی مقدر جو کہ ایک چھوٹا سا ارصہ ہے ایک طبیعی عامل کے ما تحت یعنی زمین کے اپنے محور کے گرد حرکت کرنے سے وجود میں آتی ہے اسی طرح مہینہ اور سال کا حساب بھی کسی طبیعی گردش کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔ اس کے لئے کرہٴ ارض کے گرد چاند کی حرکت ایک بڑی اکائی ہے ( اسی کی بنیاد پر بنتا ہے جو تقریبا تیس دن کے مساوی ہے ) اور زمین کی سورج کے گرد حرکت عظیم تر اکائی ہے جس سے سال معرض وجود میں آتا ہے ۔
ہم نے کہا ہے کہ اسلامی تقویم چاند کی گردش کی بنیاد پر ہے ۔ یہ درست ہے کہ بارہ برجوں میں سورج کی گردش بھی تقویم کے حساب کے لئے ایک اچھا ذریعہ ہے اور اس سے شمسی مہینوں کا تعین ہوتا ہے ۔ تا ہم یہ سب کے لئے فائدہ مند نہیں ہے اور اس کی تشخیص صرف علم فلکیات کے ماہرین رصد گاہوں کے ذریعے کر سکتے ہیں لہذا دوسرے لوگ مجبور ہیں کہ ان تقویموں کی طرف رجوع کریں جو علم فلکیات کے ماہرین نے مرتب کی ہیں ۔لیکن زمین کے گرد چاند کی منظم گردش ایسی واضح تقویم پیش کرتی ہے کہ ان پڑھ اور بیابانوں میں رہنے والے بھی اس کے نقوش اور خطوط پڑھ سکتے ہیں اسکی وضاحت یہ ہے کہ آسمان پر ہر رات چاند کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے جو پہلے اور بعد کی رات سے مختلف ہو تی ہے اس طرح سے کہ پورے مہینوں کی دو راتوں میں آسمان پر چاند کی کیفیت اور شکل و صورت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ ہر رات کے چاند کی کیفیت پر اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو آہستہ آہستہ ہمیں عادت ہو جائے گی اور ہم پورے طور پر معین کر سکیں گے کہ یہ مہینے کی کون سی رات ہے ۔
ہو سکتا ہے بعض لوگ یہ تصویر کرےں کہ مہینے کے دوسرے نصف میں بعینہ پہلے نصف کے منظر کا طریقہ ہوتا ہے مثلا اکیسویں شب چاند کا چہرہ ٹھیک ساتویں رات کے چہرے کی طرح ہوتا ہے لیکن یہ ایک بڑا اشتباہ ہے کیونکہ چاند کا ناقص حصہ پہلے نصف مہینے میں اوپر کی طرف ہوتا ہے جبکہ دوسرے نصف حصہ میں ناقص حصہ نیچے کی طرف ہوتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آغاز ماہ میں ھلال کے کونے مشرق کی سمت ہوتے ہیں جبکہ مہینے کے دوسرے حصے میں چاند کی نوکیں مغرب کی طرف ہوتی ہیں ۔ علاوہ ازیں مہینے کے اوائل میں چاند مغرب کی طرف نظر آتا ہے لیکن نصف ماہ کے بعد زیادہ تر مشرق کی طرف ہوتا ہے اور بہت دیر کے بعد طلوع کرتا ہے ۔
اس طرح چاند کی بدلتی صورت سے ایک دن کا حساب کیا جا سکتا ہے اور شکل ہی پر غورو خوض کرنے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہینے کی کون سی تاریخ ہے بحر حال یہ نظام تقویم ایک بڑی نعمت ہے جس پر ہم آفرینش خدا وندی کے ممنون احسان ہیں اور اگر چاند ، سورج اور زمین کی حرکات نہ ہوتیں تو ہماری زندگی میں ایسا حرج مرج ہوتا اور ہم ایسی پریشانی سے دوچار ہوتے کہ جس کا اس وقت ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
وہ قیدی جو کسی تاریک کوٹھڑی میں قید تنہائی میں ہوتے ہیں اور انھیں وقت کا پتہ نہیں چلتا وہ اس مصیبت کا پورے طور پر احساس کرتے ہیں ۔
ہمارے زمانے میں ایک قیدی تقریبا ایک ماہ کے لئے استبداد کے ایجنٹوں کے ہاٹھوں گرفتار رہا ، اسے ایک تاریک کوٹھڑی میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا وہ بیان کرتا ہے : ” میرے پاس وقت نماز کی تشخیص کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ جب وہ دوپہر کا کھانا لاتے تو میں ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھ لیتا اور جس وقت وہ رات کا کھانا لاتے تو میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کر لیتا اور نماز صبح بھی عموما جب وہ ناشتہ لاتے پڑھ لیتا ۔اگر دنوں کو شمار کرنا چہتا تو کھانوں کی تعداد اور حساب کو نظر میں رکھتا ۔ کھانے کے تین اوقات کو ایک دن شمار کرتا تھا ۔ لیکن نہ معلوم کیا ہوا کہ جب میں زندان سے باہر نکلا تو میرا حساب باہر کے لوگوں کے حساب سے مختلف ہو چکا تھا ۔ “

 

۷۔ إِنَّ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنا وَ رَضُوا بِالْحَیاةِ الدُّنْیا وَ اطْمَاٴَنُّوا بِھا وَ الَّذینَ ھُمْ عَنْ آیاتِنا غافِلُونَ ۔
۸۔اٴُولئِکَ مَاٴْواھُمُ النَّارُ بِما کانُوا یَکْسِبُونَ ۔
۹۔ إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ یَہْدیھمْ رَبُّھُمْ بِإیمانِھمْ تَجْری مِنْ تَحْتِھمُ الْاٴَنْھارُ فی جَنَّاتِ النَّعیمِ ۔
۱۰۔ دَعْواھُمْ فیھا سُبْحانَکَ اللَّھُمَّ وَ تَحِیَّتُھُمْ فیھا سَلامٌ وَ آخِرُ دَعْواھُمْ اٴَنِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمین۔
ترجمہ
۷۔ وہ جو ہماری ملاقات ( اور قیامت ) کی امید نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی پر خوش ہیں اور اس پر تکیہ کئے ہوئے ہیں اور وہ جو ہماری آیات سے غافل ہیں ۔
۸۔ ان ( سب ) کے رہنے کی جگہ آگ ہے ، ان کاموں کی وجہ سے جو وہ انجام دیتے تھے ۔
۹۔ ( لیکن ) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے خدا انھیں ان کے ایمان کے سبب ہدایت کرتا ہے ، ان کے ( قصر اور محلات کے ) نیچے سے جنت کے باغوں میں نہریں جاری ہیں ۔
۱۰۔ جنت میں ان کی گفتگو ( اور دعا ) یہ ہے کہ خدایا : تو منزہ ہے اور ان کا تحیہ سلام ہے اور ان کی آخری بات یہ ہے کہ حمد اور تعریف مخصوص ہے عالمین کے پروردگار اللہ کے لئے ۔

 


1 جلد اول تفسیر نمونہ ص ۳۹۷ ( اردو ترجمہ ) اور جلد سوم ص ۱۶۰ (اردو ترجمہ ) پر بھی اس کے بارے میں وضاحت کی جا چکی ہے ۔
 
عظمت الہی کی نشانیاں جنتی اور دوزخی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma