مندرجہ بالا پہلی آیت ایک عمومی قانون کی طرف اشارہ ہے کہ جس کی عقل بھی تائید کرتی ہے اور وہ یہ کہ جب تک خدا کوئی حکم بیان نہ فرمائے اور شریعت میں اس کے بارے میں وضاحت نہ آجائے کسی شخص کو اس کے سلسلے میں سزا نہیں دے گا دوسرے لفظوں میں مسئولیت اور جوابدہی ہمیشہ احکام بیان کرنے کے بعد ہے اس چیز کو علم ِ اصول میں ” قاعدہ بلا بیان “ سے تعبیر کیا جاتاہے ۔
لہٰذا ابتداء میں فرما یا گیا ہے : ایسا نہ تھا کہ خدا کسی گروہ کو ہدایت کے بعد گمراہ کردے جب تک جس چیز سے اسے پرہیز کرنا چاہئیے وہ اس سے بیان نہ کردے ( وَمَا کَانَ اللهُ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ ھَدَاھُمْ حَتَّی یُبَیِّنَ لَھُمْ مَا یَتَّقُونَ )۔
”یضل “ اصل میں گمراہ کرنے کے معنی میں ہے اس سے مراد گمراہی کا حکم لگا نا ہے جیسا کہ بعض مفسرین کو احتمال ہے جیسے تعدیل اور تفسیق ۔ عدالت اور فسق۔ عدالت کا حکم لگانے کے معنی میں ہیں ۔ ۱
و طائفة قد اکفرونی بحبکم
یعنی ایک گروہ نے آپ کی محبت کی وجہ سے مجھ پر کفر کا حکم لگا یا ہے ۔
یاروز قیامت ثواب و جزا کے راستے سے گمراہ کرنے کے معنی میں ہے جو در اصل سزا دینے کے مفہوم میں ہوگا یاپھر ” اضلال “ سے مرد وہی ہے جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں اور و ہ ہے نعمت ِ توفیق سلب کرنا اور انسان کو اس حالت پر چھوڑ دینا ۔ اس کا نتیجہ طریق ہدایت سے گمراہی اور سر گر دانی یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ گناہوں کا تسلسل زیادہ گمراہی اور طریق ہدایت سے دور رہنے کا سر چشمہ ہے ۔ ۲
آیت کے آخر میں فرمایا گیا : خد اہر چیز کو جانتا ہے ( إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ) ۔یعنی خد اکے علم کا تقاضا ہے کہ جب تک اس نے کسی کے بارے میں اپنے بندوں سے کچھ کہا نہیں اس کے بارے میں کسی کو جوابدہ نہ سمجھے اور اس سے مواخذہ نہ کرے ۔