خدائی سزا میں شک نہ کرو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
چند اہم نکات قرآن خدا کی عظیم رحمت ہے

گزشتہ آیا ت میں مجرمیں کے لئے اس جہان میں اور آرت میں سزا اور عذاب کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیر نظر آیات میں یہی بحث جاری ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : مجرمین اور مشر کین تجھ سے تعجب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اس جہان میں اور دوسرے جہان میں خدائی سزا والا وعدہ حق ہے

( وَیَسْتَنْبِئُونَکَ اٴَحَقّ ھُوَ ) ۔
یاد رہے کہ یہاں ” حق “ ” باطل “ کے مقابلے میں نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ کیا یہ سزا او رکیفر کردار واقعیت رکھتا ہے اور متحقق ہوگا ؟ کیونکہ ”حق “ اور تحقیق“دونوں ایک ہی مادہ سے ہیں البتہ اگر یہاں وہ ” حق “مراد لیا جائے جو ” باطل “ کے مقابلے میں ہے تو پھر اس کا ایک وسیع معنی ہوگا اور یہ ہر موجود کی حقیقت پر محیط ہو گا اور اس نقطہ مقابل معدوم اور باطل ہو گا ۔
خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ اس سوال کا جواب میں بڑی تاکید سے کہہ دو : مجھے اپنے پروردگار کی قسم ! یہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ( قُلْ إِی وَرَبِّی إِنَّہُ لَحَقٌّ ) ۔
اور اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ تم خدائی سزا کی گرفت سے بھاگ سکتے ہوئے تو تم نے بہت بڑا اشتباہ کیا ہے کیونکہ ” تم ہر گز اس سے نہیں بچ سکتے اور نہ ہی اپنی طاقت سے تم اسے عاجز سکتے ہو۔ (وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ) ۔
درحقیقت یہ جملہ مندرجہ بالا جملے کے ساتھ مقتضی اور مانع کے بیان کے قبیل میں سے ہے ۔ پہلے جملے میں فرمایا گیا ہے ، کہ مجرمین کی سزا ایک حقیقت ہے اور دوسرے جمل؛ے میں مزید کہا گیا ہے کہ کوئی طاقت اس سے بچا نہیں سکتی ۔ سورہ طور کی آیت ۷ ۔ ۸،میں بالکل اسی طرح ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :۔ ان عذاب ربک لواقع مالہ من دافع۔
یقیناس تیرے رب ک اعذاب واقع ہو کر رہے گا او رکوئی اس سے بچا نے والا نہیں ہے
زیر بحث آیت میں جو تاکید یں دکھائی دیتی ہیں وہ قابل توجہ ہیں ۔ ایک طرف قسم کھا کر بات کی گئی ہے دوسری ”انّ“ اور لام تاکید ہے اور تیسری طرف ”وماانتم بمعجزین“کا جملہ یہ سب اس امر پر تاکید ہیں کہ سنگین جرائم کے ارتکاب پر خدائی سزا حتمی ہے ۔
بعد والی آیت میںاس سزا کے عظیم ہونے خصوصاً قیامت میں اس کے بڑے ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : عذابِ الٰہی اس طرح سے وحشت ناک اور ہول انگیز ہے کہ ظالموں میں سے ہ رایک زمین کی تمام تر ثروت کا مالک ہوتو وہ تیار ہو گا کہ سب کچھ دے تاکہ اس عذاب اور سزا سے رہائی پالے

 (وَلَوْ اٴَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاٴَرْضِ لَافْتَدَتْ بِہِ ) ۔ ۱
در حقیقت وہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لئے بڑی بڑی رشوت دینے کو تیار ہیں لیکن ان سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور سوئی کی نوک کے برابر بھی ان کی سزا میں کمی نہیں کی جائے گی ۔
خصوصاً ان میں سے بعض سزائیں تو معنوی پہلو رکھتی ہیں اور وہ یہ کہ وہ عذاب الہٰی کے مشاہدے پر پشیمان ہوتے ہیں لیکن دوسرے مجرموں یا اپنے پیروکاروں کے سامنے زیادہ رسوائی سے بچنے کے لئے اظہار ندامت نہیں کرتے( وَاٴَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاٴَوْا الْعَذَابَ ) ۔
اس کے بعد تاکیداً کہا گیا ہے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود ان کے درمیان عمل سے فیصلہ ہو گا اور ان کے بارے میں ظلم نہیں ہو گا (وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لاَیُظْلَمُونَ ) ۔
یہ جملہ قرآنی روش کے مطابق تمام مقامات پر سزا میں عدالت کے سلسلے میں تاکید ہے کیونکہ گزشتہ آیت میں سزا کے بارے میں موجود تاکیدوں سے غافل لوگ یہ وہم کرتے کہ یہاں انتقام جوئی کا جذبہ کار فرما ہے لہٰذا قرآن پہلے کہتا ہے کہ ان کے درمیان عدل سے فیصلہ ہو گا اور پھر تاکید کے طور پر کہتا ہے کہ ان پر ظلم نہیں ہوگا ۔
اس کے بعد اس بناء پر کہ کہیں لوگ اللہ کے اس وعدہ اور و عید کو مذاق نہ سمجھیں اور یہ خیال نہ کریں کہ خدا اسے انجام دینے سے قاصر ہے ، قرآن مزید کہتا ہے : آگاہ رہوجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کامال ہے اور اس کی مالکیت و حکومت تمام جہان ِ ہستی پر محیط ہے اور کوئی اس کی سلطنت سر باہر نہیں جاسکتا( اٴَلاَإِنَّ لِلَّہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔
نیز اگاہ رہو کہ مجرمین کی سزاکے بارے میں خد اکا وعدہ حق ہے اگر چہ بہت سے لوگ جن کے نفس پر جہالت نے اپنا منحوس سایہ ڈال دیا ہے اس حقیقت کو نہیں جانتے( اٴَلاَإِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَھُمْ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔
زیر نظر آخری آیت بھی اسی مسئلہ حیات کے بارے میں مزید تاکید ہے ، ارشاد ہوتا ہے : خدا ہے کہ جو زندہ کرتا ہے اور وہی ہے جو مارتا ہے (ھُوَ یُحْیِ وَیُمِیتُ ) ۔لہٰذا وہ بدنوں کو مارنے اور انھیں قیامت کے عدالت کے لئے زندہ کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے ۔
اور آکر کا تم سب کے سب اس کی طرف پلٹ جاوٴ گے (وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ) ۔اور وہاں پھر اپنے اعمال کی جزا اور سزا پاوٴگے ۔

دو اہم نکات

ایک سوال اور اس کا جواب :زیربحث آیا ت کے بارے میں ایک سوال کیا جاتا ہے کہ خدائی سزا کے واقعی ہونے کے بارے میں مشرکین کا سوال تمسخر تھا یا حقیقی سوال تھا بعض کہتے ہیں کہ حقیقی سوال شک کی نشانی ہے اور یہ مشرکین کی کیفیت نہ تھی ۔
لیکن بہت سے مشرکین شک اور تردد کی حالت میں تھے اور ان میں ایک گروہ پیغمبر اکرم کی حقانیت کا علم رکھنے کے باوجود ہٹ دھرمی تعصب اور عناد وغیرہ کی وجہ سے مخالفت پر اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ اس صورت ِ حال کی طرف توجہ کرتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی طرف سے حقیقی سوال کیا جانا کوئی بعید نہیں ہے ۔
۲۔ ”ندامت “ کا مفہوم : ”ندامت “ کا مطلب ہے ایسے کام پر پشیمانی جس کے غیر مطلوب آثار واضح ہو چکے ہوں ، چاہے انسان اس کا مداوا کرسکے یا نہ کرسکے ۔ مجرمین کی قیامت مین پشمانی دوسری طرح کی ہے اور اسے پوشیدہ رکھنا اس بناء پر ہے کہ اسے واضح کرنا زیادہ رسوائی کو موجب ہے ۔

۵۷۔ یَااٴَیّھَا النَّاسُ قَدْ جَائَتْکُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ وَھُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ۔
۵۸۔ قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ھُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ۔

ترجمہ

۵۷۔ اے لوگو! تمہارے پر وردگار کی طرف سے تمہارے لئے نصیحت اور موعظہ آیا ہے او رجو کچھ سنیوں میں ہے اس کے لئے باعث شفاہے او رمومنین کے لئے ہدایت اور رحمت ہے ۔
۵۸۔ کہہ دو کہ خدا کے فضل اور رحمت سے خوش رہو، کیونکہ جو کچھ انھوں نے جمع کرکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے ۔


1-در حقیقت مندر جہ بالا جملے میں یہ عبارت مقدر ہے : من حول القیامة و العذاب۔
 
چند اہم نکات قرآن خدا کی عظیم رحمت ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma