چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 08
زکوٰة فرد او رمعاشرے کو پا ک کرتی ہے ایک اور گروہ فر مان خدا سے نکل گیا ۔

۱۔ قبول کی گئی زکوٰة : گزشتہ آیات کے بارے میں جو شان ِ نزول ہم نے ذکر کی ہے اس سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت ان آیا ت سے قریبی تعلق رکھتی ہے جن کا ربط ابو لبابہ اور اس کے ساتھیوں کی توبہ کے واقعہ سے ہے کیونکہ وہ اپنی تو بہ قبول ہونے کے شکرانے پر اپنا سب مال رسول اللہ کی خدمت میں لے آئے اور آپ نے ان کے مال میں سے کچھ حصہ لے لیا لیکن یہ شان ِ نزول ا س کے منافی نہیں کہ آیت زکوٰة کے بارے میں ایک عمومی حکم رکھتی ہو او ریہ جو بعض مفسرین نے ان دونوں کے درمیان تضاد و خیال کیا ہے درست نہیں ہے جیسا کہ ہم نھے باقی آیات اور ان کی شان ، نزول کے بارے میں کئی مرتبہ کہا ہے ۔
ایک ہی سوال باقی رہ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق رسول اللہ نے ابو لبابہ اور اس کے ساتھیوں کے مال میں سے ایک تہائی حصہ قبول کیا تھا جب کہ زکوٰة کی مقدار کسی مقام پر بھی ۳/۱نہیں ہے ۔ گندم، جو ، خرما اور کشمش میں دسواں حصہ ہوتا ہے اور کبھی بیسواں ۔ سونا اور چاندی میں ڈھائی ( ۲/۱ ۔۲) فیصد زکوٰة ہوتی ہے اور گائے ، گوسفند اور اونٹ میں بھی زکوٰة کی مقدار ایک تہائی نہیں بنتی۔
لیکن اس سوال کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ نے ان کے اموال میں سے ایک حصہ زکوٰة کے طور پر اور باقی ان کے گناہوں کے کفارے پر وصول کیا اس بناء پر آپ نے ان سے واجب زکوٰة لی اور کچھ مقدارانھیں گناہوں سے پاک کرنے کے لئے قبول کی جس کی کل مقداران کے اموال کا ۳/۱ حصہ بنتی ہے ۔
۲۔ ”خذ“کا مفہوم : اس کا معنی ہے ”لے لو“ یہ حکم اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اسلامی حکومت کا سر براہ لوگوں سے زکوٰةلے سکتا ہے نہ یہ کہ وہ منتظر رہے کہ اگر لوگ چاہیں تو ادا کریں اور اگر نہ چاہیں تونہ کریں ۔
۳۔ ”صل علیھم “ کے حکم کی عمومیت :” صل علیھم “ اگر چہ رسول اللہ سے خطاب ہے مگر واضح ہے کہ یہ ایک کلی اور عمومی حکم ہے ( کیونکہ کلی قانون یہ ہے کہ پیغمبر کی خصوصیات کو دلیل خاص کا ذریعہ ہو نا چاہئیے )۔
لہٰذا بیت المال کے ذمہ دار اور نگران ہر زمانے میں زکوٰة دینے والوں کو ” اللھم صلی علیھم “ کہہ کر دعا دے سکتے ہیں ۔
اس کے باوجود اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ اہل سنت میں سے کچھ متعصب افراد آلِ نبی پر درود و صلٰوة کو بالکل جائز نہیں سمجھتے یعنی اگر کوئی کہے ” اللھم صلی علی ٓعلی امیر المومنین “ یا ” صلی علی فاطمة الزھرآء “ تو اسے ممنوع شمار کرتے ہیں ۔ 2
حالانکہ ایسی دعا ممنوع ہونے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے نہ کہ جواز کے لئے دلیل کی احتیاج ہے ۔
علاوہ ازیں جیسا کہ سطور بالا میں ہے قرآن صراحت سے اجازت دیتا ہے کہ عام افراد کے بارے میں ایسی دعا کی جائے ،چہ جائیکہ اہل بیت رسول ، ،جانشینان ، پیغمبر اور اولیاء ِ الٰہی کے لئے ۔ لیکن کیا کیا جاسلتا ہے کہ بعض اوقات تعصبات قرآنی آیات بھی سمجھنے نہیں دیتے ۔
بعض گنہ گار مثلاً جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ سے اصرار کرتے تھے کہ آپ ان کی تو بہ قبول کرلیں ۔ اس سلسلے میں زیر بحث دوسری آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ تو قبول کرنا رسول کا کام نہیں ہے ” کیا وہ جانتے نہیں کہ خدا ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ( اٴَلَمْ یَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ )۔وہ نہ فقط توبہ قبو ل کرنے والا ہے بلکہ زکوٰة یادوسرے صدقات جوگناہ کے کفارہ کے طورپر یا پروردگار کے تقرب کے لئے دئیے جاتے ہیں وہ بھی خدا ہی لیتا ہے ( وَیَاٴْخُذُ الصَّدَقَاتِ
اس میں شک نہیں کہ زکوٰة و صدقات پیغمبر ، امام او رمسلمانوں کے پیشوا وصول کرتے ہیں یا مستحق افراد لیتے ہیں ۔ بہر صورت بظاہر ان سے یہ چیزیں خد ا نہیں لیتا ۔ لیکن چونکہ پیغمبر اور ہادیان ِ بر حق کا ہاتھ خد اکا ہاتھ ہے ( اس لئے کہ وہ خدا کے نمائدے ہیں ) تو گویا خدا ہی ان صدقات کو وصول کرتا ہے اس طرح ضرورت مند بندے جو خدا کی اجازت او رفرمان سے ایسی مدد قبول کرتے ہیں در حقیقت اسی کے نمائندے ہیں اس طرح ان کا ہاتھ بھی خدا ہی کا ہاتھ ہے یہ ایک انتہائی لطیف چیز ہے جو زکوٰة کے اس اسلامی حکم کی عظمت و شکوہ کی تصویر کشی کرتی ہے ۔
اس عظیم خدائی فریضہ کی ادائیگی کے لئے مسلمانوں کو شوق دلانے کے علاوہ اس طرح سے انھیں خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ زکوٰةو صدقات ادا کرنے میں انتہائی ادب و احترام ملحوظ نظر رکھیں کیونکہ لینے والا خدا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوتاہ فکری سے یہ تصور کرلیا جائے کہ ضرورت مند شخص کی تحقیر و تذلیل میں کوئی حرج نہیں یا اسے اس طرح زکوٰة دی جائے کہ اس کی شخصیت مجروح ہو بلکہ اس کے بر عکس چاہئیے کہ یہ انکساری کے ساتھ اپنے ولی نعمت کے سامنے ادب کے اظہار کے ساتھ زکوٰة اس کے مستحق تک پہنچائی جائے ۔
رسول اکرم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :
ان الصدقة تقع فی ید اللہ قبل ان تصل الیٰ ید السآئل
صدقہ حاجت مند کے ہاتھ میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں پہنچتا ہے ۔
دوسری حدیث میں امام سجاد (ع) سے منقول ہے :
ان الصدقة لاتقع فی ید العبد حتیٰ تقع فی ید الرب
صدقہ بندے کے ہاتھ میں اس وقت تک نہیں پہنچتا جب تک کہ پہلے پروردگار کے ہاتھ میں نہ جائے

 ( پہلے خدا کے ہاتھ میں جاتا ہے پھر بندے کے ہاتھ میں جاتا ہے )3
یہاں تک کہ ایک روایت میں ہے:
اس بندے کے تمام اعمال فرشتے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں سوائے صدقہ کے کہ جو براہ ِراست خدا کے ہاتھ میں جاتا ہے ۔ 4
یہی مضمون جو مختلف تعبیروں کے ساتھ ہم نے روایات اہل بیت (ع)میں پڑھا ہے اہل سنت کے طرق سے بھی ایک اور تعبیر کے ساتھ نقل ہوا ہے ۔ صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
ما تصدق احد کم بصدقة من کسب حلال طیب  ولاتقبل اللہ الا الطیب الا اخذھا الرحمن بیمینہ و ان کانت تمرة فتربوا فی کف الرحمن حتیٰ تکون اعظم من الجبل ۔
تم میں سے کوئی شخص حلال کمائی میں سے صدقہ نہیں دے گا - اور البتہ خدا حلال کے علاوہ قبول نہیں کرت- مگر یہ کہ خدا اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لے گا ۔ اگر خرمے کا ایک دانہ ہو ۔ پھر وہ خدا کے دست قدرت میں بڑھنا شروع ہو گایہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بھی بڑا ہو جائے گا ۔ 5
یہ حدیث معنی خیز تشبیہات او رکنایہ جات سے معمور ہے ۔ اس سے اسلامی تعلیمات میں انسانی خد مت اور حاجت مندوں کی مدد کی بہت زیادہ اہمیت واضح ہو تی ہے ۔
احادیث میں اس ضمن میں کئی ایک اور تعبیرات بھی آئی جو بڑی جاذب ِ نظر اور اہم ہیں ۔ ان میں مکتب اسلام کے پرورش یافتہ افراد کو حاجت مندوں کو مدد دیتے ہوئے ایسا منکر بنا کر پیش کیا گیا ہے گویا ھاجت مندوں نے مدد قبول کرکے ان پر احسان کیا ہے اور انھیں اعزاز و افتخار سے نوازا ہے ۔ مثلاً بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ معصومین بعض اوقات حاجت مند کو صدقہ دینے سے پہلے احترام اور تعظیم کی علامت کے طور پر اپنے ہاتھ کا بوسہ لیتے یا یہ کہ پہلے وہ مال حاجت مند کو دے دیتے پھر اسے لے کر بوسہ لیتے اور سونگھتے پھر اسے واپس کردیتے چونکہ وہ دستِ خدا کے رو برو ہوتے تھے لیکن وہ لوگ ان تعلیمات سے کس قدر دور ہیں کہ جو اپنے ضرورت مند بھائیوں یا بہنوں کی تھوڑی سی مدد کرتے ہوئے ان کی تذلیل کرتے ہیں یا ان سے سختی یا بے اعتنائی سے پیش آتے ہیں ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات بے ادبی سے ان کی طرف پھینکتے ہیں ۔
البتہ جیسا کہ اپنے مقام پر ہم نے کہا ہے کہ اسلام اپنی پور ے اسلامی معاشرے میں کوئی فقیر اورحاجت مند نہ رہے لیکن اس میں شک نہیں کہ ہر معاشرے میں کچھ آبرو مند و ناتواں، ننھے یتیم اور بیمار وغیرہ ہوتے ہیں جو کمانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ضروری ہے کہ بیت المال او رمتمکن افراد کے ذریعے انتہائی ادب و احترام سے ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے ۔
آیت کے آخر میں زیادہ تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے : خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (وَاٴَنَّ اللهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ) ۔
توبہ اور اس کی تلافی جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ گناہ پر صرف ندامت اور پشیمانی کانام نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ندامت کے ساتھ ساتھ اصلاح اور تلافی بھی شامل ہو۔ ممکن ہے یہ تلافی بھی شامل ہو ۔ ممکن ہے یہ تلافی ضرورت مندوں کی بلا عوض امداد کی صورت میں ہو جیساکہ مندرجہ بالا آیات میں اور ابو لبابہ کے واقعہ میں ہم نے پڑھا ہے ۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ گناہ مالی امور سے متعلق ہو یا کسی اور سے متعلق ، جیسا کہ ہم جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کے مسئلہ میں پڑھ چکے ہیں ۔ در حقیقت مقصد یہ ہے کہ گناہ سے آلودہ روح کو نیک ، صالح او رشائستہ عمل سے دھو یا جائے اور اسے پاک کیا جائے اور پہلی اور فطری پاکیز گی کو لوٹا یا جائے۔
بعد والی آیت میں گذشتہ مباحث کے بارے میں نئی شکل میں تاکید کی گئی ہے ۔ پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو اس امر کی تبلیغ کریں اور کہیں کہ اپنے اعمال او رذمہ دار یاں انجام دو او رجان لو کہ خدا ، اس کا رسول اور مومنین تمہارے اعمال کو دیکھیں گے ( وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی تصور نہ کرے کہ اگر وہ کسی خلوت کے مقام پر یا کسی جماعت کے اندر کوئی عمل انجام دیتا ہے تو وہ علم خدا کی نگاہ سے اوجھل رہ جاتا ہے بلکہ خدا کے علاوہ وہ پیغمبر او رمومنین بھی اس سے آگاہ ہیں ۔ اس حقیقت کی طرف توجہ اور اس پر ایمان اعمال اور نیتوں کے پا ک رہنے کے لئے بہت موٴثر ہے عام طور پر اگر انسان یہ احساس کرکہ اسے ایک آدمی دیکھ رہا ہے تو وہ اپنی کیفیت ایسی بنالے گا کہ جو قابل اعتراض نہ ہو چہ جائیکہ اسے یہ احساس ہو کہ خدا و رسول او رمومنین اس کے اعمال سے باخبر ہیں ۔ عنقریب تم ایسی ہستی کی طرف لوٹ جاوٴ گے جو مخفی اور آشکار سے آگاہ ہے اور وہ تمہیں تمہارے عمل کی خبر دے گا اور اس کے مطابق جزا دے گا (وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ

 


۱۔ مجمع البیان ، زیربحث آیے کے ذیل میں ۔
2۔ان لوگوں کی ایل بیت رسالت سے دشمنی اس حد تک ہے کہ آنحضرت کے لئے بھی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہتے ہیں اور ” صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “ نہیں کہتے ۔ جب کہ رسول اللہ نے خود آل کے ذکر کے بغیر صلوٰت کو ” دم کٹی صلوات“ قرار دیا ہے ۔ کدا وند عالم مسلمانوں کو عظلمت اہل ِ بیت (ع) کا اقرار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ( مترجم )
3 ۔ تفسیر صافی زیر بحث آیت کے ذیل میں بحوالہ تفسیر عیاشی ۔
4۔ تفسیر بر ہان زی بحث آیت کے ذیل میں بحوالہ تفسیر عیاشی ۔
5۔ تفسیر المنار ج ۱۱ ص ۳۳ ( یہ حدیث طرق اہلِ بیت سے امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے ۔ بحار الانوار ج۹۶ ص ۱۴۳ طبع جدید کی طرف رجوع فرمائیں )

 

زکوٰة فرد او رمعاشرے کو پا ک کرتی ہے ایک اور گروہ فر مان خدا سے نکل گیا ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma