شہد کی مکھی اور وحی الہٰی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 68 - 69 ۱۔ شہد کس چیز سے بنتا ہے ؟

شہد کی مکھی اور وحی الہٰی


یہاں قرآن کا لب ولہجہ شگفت انگیز ہ وگیا ہے نعمات الٰہی اور اسرار آفرینش کی بات جاری رکھتے ہو ئے شہد کی مکھی اور پھر شہد کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے لیکن اس طرح سے کہ شہد کی مکھی خدا کی طرف سے مامور ہے  بتایا گیا ہے کہ رمز آمیز الہام و ہدایت کے جسے ”وحی“ کا نام دیا گیا ہے کے تحت شہد کی مکھی مشغول کا ر ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے تیرے پر وردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ درختوں ، پہاڑوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے عرشوں اور مچانوں میں گھر بنا (وَاٴَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ اٴَنْ اتَّخِذِی مِنْ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنْ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ) ۔
اس آیت میں چند قابل غور تعبیرات آئی ہیں :
۱۔ ”وحی“ کامفہوم : جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے دراصل تیز اشارہ کے معنی میں ہے بعد ازاں یہ لفظ مخفی طور پر کوئی بات القاء کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ لیکن قرآن ِ مجید میں یہ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ ان سب معانی کی با زگشت اسی اصل معنی کی طرف ہے قرآن کے مفاہیم میں ایک وحی  نبوت ہے زیادہ تر یہ لفظ قرآن میں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱ میں ہے :
وماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا
انسان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ طریق وحی کے سوا کسی طرح اللہ سے کلام کرسکے ۔
نیز ”وحی“ الھام کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے یہ الہام خود آگاہ ( انسانوں کے لئے ) بھی ہو سکتا ہے ۔ مثلا ً
اوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ فاذا خفت علیہ فالقیہ فی الیم
اور ہم نے موسیٰ ﷼ کی ماں کو وحی کی کہ اپنے نو مولود کو دودھ پلا اور جب تجھے اس کے بارے میں دشمنوں کا خطرہ محسوس ہوتو اسے دریا کی لہروں کے سپرد کر دے ۔( قصص۷)
اور یہ الہام نا آگاہ اور طبیعی صورت میں بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ شہد کی مکھی کے بارے میں زیر بحث آیات میں مذکور ہے کیو نکہ یہ بات مسلم ہے کہ یہاں ”وحی “ اشارے کے معنی میں بھی ہے جیسا کہ حضرت زکریا ﷼ کے واقعے میں ہے :
فاوحیٰ الیھم ان سبحوا بکرة و عشیاً
زکریا نے لوگوں کو اشارے سے کہا : صبح و شام اللہ کی تسبیح کرو۔ (مریم ۱۱)
نیز مخفی طور پر مخبر پہنچانے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ جیسا کہ سورہ ٴ انعام کی آیہ ۱۱۲ میں ہے :
یوحی ٰ بعضھم الیٰ بعض زحرف القول غروراً
انسانی اور غیر انسانی شیاطین مخفی طریقے سے پر فریب اور گمراہ کن مطالب ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں ۔
۲۔ کیا طبعی الہام شہد کی مکھیوں سے مخصوص ہے ؟ طبائع و غرائز یا طبعی الہام شہد کی مکھیوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام جانوروں میں موجود ہے اس مقام پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہاں یہ تعبیر استعمال کیوں کی گئی ہے ۔
ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں جبکہ شہد کی مکھیوں کی زندگی کا سائنسدانوں نے نہایت دقت ِ نظر کے ساتھ مطالعہ کیا ہے تو یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اس عجیب و غریب جانور کا تمدن اور شگفت آمیز اجتماعی طرز حیات کئی حوالے سے انسان اور اس کی اجتماعی زندگی سے بڑھ کر ہے ۔
گذشتہ زمانے میں اس کی عجیب و غریب زندگی کچھ تو واضح تھی لیکن عصر حاضر کی مانند اس کی زندگی کے ایک سے ایک بڑھ کر عجیب تر پہلو انسان کے سامنے نہ تھے ۔ قرآن نے نہایت اعجاز آمیز انداز میں لفظ ”وحی“ کے ذریعے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ یہ حقیقت واضح کرے کہ شہد کی مکھی کی زندگی ک اہر ھز چوپایوں اور دیگر جانوروں کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا اس طرح سے قرآن چاہتا ہے کہ ہم اس عجیب جانور کی اسرار آمیز دنیا میں قدم رکھیں اس کے خالق کی عظمت و قدرت سے آشنا ہوں اس آیت میں کلام کا لب و لہجہ بدلنے کایہی راز ہے ۔
۳۔ شہد کی مکھی کا گھر : آیت میں سب سے پہلے شہد کی مکھی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اسے گھر بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے شاید اس بات کا ذکر اس لئے کیا گیا ہو کہ مناسب گھر زندگی کی پہلی ضرورت ہے باقی کاموں کی باری بعد میں آتی ہے یا ہوسکتا ہے یہ اس بناء پر ہو کہ مسدس کمروں کی شکل میں بنی ہوئی شہد کی مکھیوں کی عمارت جو شاید کئی ملین سالوں سے دنا بھر میں یو نہی بنتی چلی آرہی ہے ، ان کی زندگی کی ایک عجیب ترین با ت ہو ۔۱
یہاں تک کہ یہ تعبیر خود شہد بنانے سے عجیب تر۔ شہد کی مکھی کس طرح سے ایک خاص قسم کی موم تیار کرتی ہے اور کیسی عمدہ گی ، نفاست اور صفائی سے پیماش شمدہ مسدسی کمرے بناتی ہے ۔ بنیادی طور پر کسی ایک سطح سے اس طرح سے پورا استفادہ کرنا اس کا کوئی حصہ بے کار نہ رہ جاء یا اس کے زاویے اور کونے تنگ و تاریک نہ ہو ں اس کے لئے مسدس شکل میں بہتر مساوی رادیوں کا کوئی اور انتخاب نہیں ہوسکتا علاوہ ازیں ایسے گھروں میں پائیداری بھی ہوتی ہے ۔
۴۔ گھر کا انتخاب۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے ایسے گھر بعض اوقات پہاڑوں میں بنائے جاتے ہیں  ناقابل ِ عبور پتھروں کے درمیان ان کے ایسے خاص سوراخوں میں جو اس مقصد کے لئے بالکل مناسب ہوتے ہیں ۔
کبھی شہد کی مکھیاں یہ گھر درختوں کی ٹہنیوں میں بناتی ہیں ، اور گا ہ ان گنبد نما جگہوں میں کہ جو لوگ ان کے لئے عرشوں کے اوپر بناتے ہیں ۔
اس تعبیر سے ضمناً معلوم ہوتا ہے کہ شہد کا چھتہ پہاڑ، درخت اور عرشہ کی بلند جگہ پر ہونا چاہئیے تاکہ وہ اس سے اچھی طرح فائدہ اٹھا سکیں ۔
 
اس کے بعد شہد کی مکھی کی دوسری ذمہ داری بیان کی گئی ہے قرآن کہتا ہے : اس کے بعد ہم نے اسے یہ وحی کی کہ تو تمام قسم کے پھلوں سے کھا ۔ ( ثُمَّ کُلِی مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ ) ۔اور جو راستے تیرے رب نے تیرے لئے معین کئے ہیں ان میں بڑی راحت سے چل پھر ۔(فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً ) ۔
” ذلل“ ”ذلول“ کی جمع ہے اس کا معنی ہے ” ہموار اور ”تسلیم“ یہ راستوں کی توصیف کے لئے آیا ہے اس لئے کہ یہ راستے اس باریک بینی کے ساتھ معین کئے گئے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کے سامنے تسلیم اور ہموار ہیں اس سلسلے میں ہم بعد از یں وضاحت کریں گے ۔
آخر میں ایک نتیجہ کی صورت میں ان کی ماموریت کا آخری مر حلہ بیان کیا گیا ہے : شہد کی مکھیوں کے اندر سے ایک خاص طرح کی پینے کی چیز نکلتی ہے جو مختلف رنگ کی ہوتی ہے (یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِہَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ اٴَلْوَانُہُ ) ۔
یہ شراب حلال انسانوں کے لئے بڑی اہم شفا بخش چیز ہے (فِیہِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ) ۔
شہد کی مکھیوں کی یہ زندگی انسان کے لئے غذا مہیا کرتی ہے اور شفا بھی اور سبق آموز بھی ہے اس میں اہل فکر و نظر کے لئے عظمت و قدرت پر وردگار کی واضح نشانی ہے ۔ ( إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔
اس آیت میں بھی چند پر معنی اور قابل توجہ نکات ہیں ۔


 


۱۔ابھی تک شہد کی مکھیوں کی ۴۵۰۰ اقسام دریافت ہو چکی ہیں لیکن یہ بات بڑی عجیب ہے کہ مہاجرت اختیار کرنے میں ان کا طرز عمل ، شہد بنا نا ، پھولوں کا رس چوسنا اور کھانا سب کچھ ایک جیسا ہے ،۔( اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر جلد ۵ ص ۵۵)
2۔سفینة البحار ، جلد ۲ ص۱۹۰۔
سوره نحل/ آیه 68 - 69 ۱۔ شہد کس چیز سے بنتا ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma