ہمارے سایوں کا ہماری زندگی پر اثر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سائے تک اللہ کے حضور سجدہ زیر ہیںسوره نحل/ آیه 51 - 55


ہمارے سایوں کا ہماری زندگی پر اثر
اس میں شک نہیں کہ ہمارے سائے ہماری زندگی میں ایک اہم کردار کرتے ہیں شاید بہت سے لوگ اس سے غافل ہیں قرآن نے سایوں کا ذکر اس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے کیا ہے ۔
سائے اگر چہ عدم نور کے علاوہ کچھ نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے فوائد کے حامل ہیں مثلاً:
۱۔ سورج کی روشنی اور اس کی حیات بخش شعائیں موجودات کی زندگی اور نشوونما کا باعث ہیں جبکہ سائے کی روشنی کی شعاعوں کی تابش کو اعتدال میں رکھنے کے لئے ایک حیات آفرین کردار کرتے ہیں سورج کی روشنی اگر ایک ہی طویل عرسے کے لئے چمکتی رہے تو ہر چیز پژمردہ ہو جائے اور جل جائے ایسے میں سایے شدت و حدت کو اعتدال عطا کرتے ہیں وہ کم و بیش ہوتے رہتے ہیں کبھی اس جانب کو جھکتے ہیں اور کبھی اس جانب کو ۔ گویا کبھی ادھر نوازش کرتے ہیں اور کبھی اُدھر عنایت کرتے ہیں سایوں کا یہ طرز عمل چیزوں کی حفاظت اور بچاوٴ میں نہایت تاثیر بخش ہے ۔
۲۔ جو لوگ بیابانوں میں پھرتے رہتے ہیں یا جنہیں بیابانوں میں رہنا اور گزرنا پڑجائے ان کے لئے انسانی نجات کے لئے سایوں کی غیر معمولی اثر انگیزی بالکل واضح ہے ایسے میں سایہ بھی وہ جو متحرک ہو اور ایک ہی جگہ ٹھہرنہ جاتا ہو اور ہر طرف حرکت کرتا ہو انسانی خواہش اور ضرورت کے عین مطابق ہوتا ہے ۔
۳۔ سائے ایک مفید پہلو یہ بھی ہے جوعام لوگوں کے خیال کے بر خلاف ہے ۔عام لوگ سمجھتے ہیں چیزوں کو دیکھنے کا ذریعہ صرف روشنی ہی ہے حالانکہ نور ہمیشہ سایے یا نیم سایے کے ساتھ ہوا تو چیزیں دکھائی دیتی ہیں دوسرے لفظوں میں اگر کسی موجود کے ہر طرف ایک جیسی روشنی چمکے اور اس پر کسی قسم کا کوئی سایہ یا نیم سایہ نہ ہو تو روشنی میں مستغرق یہ چیز ہر گز نہیں دیکھی جاسکے گی ۔
یعنی  جس طرح مطلق تاریکی میں کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی اسی طرح مطلق نور میں بھی کوئی چیز نہیں دیکھی جاسکتی بلکہ نور و ظلمت باہم ہوں تو چیزوں کا دیکھا جانا ممکن ہوتا ہے ۔ لہٰذا سایے بھی چیزیں نظر آنے اور ان کی شناخت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ( غور کیجئے گا ) ۔
زیر نظر آیت میں ایک نکتہ اور قابل توجہ ہے آیت میں لفظ” یمین “ (دائیں طرف) مفرد صورت میں آیا ہے جبکہ ”شمائل“ جمع کی صورت میں ہے ” شائل“شماٴل“(بروزن” مشعل“)کی جمع ہے اور شمال کا معنی ہے بائیں طرف۔
تعبیر کا فرق ہوسکتا ہے اس بناء پر ہو کہ جو لوگ جنوب کی طرف رخ کئے ہوں دم صبح سایہ ان کے دائیں طرف پڑتا ہے اور پھر وہ مسلسل بائیں طرف حرکت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وقت ِ مغرب افق مشرق میں محو ہوجا تا ہے ۔2
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ ”یمین“ اگر چہ مفرد ہے لیکن بعض اوقات اس سے جمع مراد ہو تی ہے اور یہاں جمع مراد ہے3
گذشتہ آیت میں صرف سایوں کے سجدہ کرنے کی بات ایک وسیع مفہوم کے طور پر آئی تھی لیکن اگلی آیت میں تمام مادی و غیر مادی آسمانی و زمینی موجودات کے بارے میں فرمایاگیا ہے :آسمانوں اور زمین میں حرکت کرنے والی تمام موجودات اور اسی طرح فرشتے خدا کے حضور سجدہ کرتے ہیں ( وَلِلَّہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلاَئِکَةُ) ۔اور وہ اس میں کسی قسم کا کوئی تکبر نہیں کرتے ( وَھُمْ لاَیَسْتَکْبِرُونَ ) ۔
اور وہ خدا اور اس کے فرمان کے سامنے تسلیم محض ہیں ۔
سجدہ در حقیقت انتہائی خشوع وخضوع اور پرستش کا نام وہ سجدہ جو سات اعضاء کے ساتھ ہم انجام دیتے ہیں سجدہ کے عمومی مفہوم کا ایک مصداق ہے ورنہ سجدہ کا مفہوم بس اسی میں منحصر نہیں ہے ۔
عالم تکوین اور جہان آفرینش میں خدا کی تمام مخلوقات اور موجودات عام قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ۔ اور ان قوانین سے انحراف نہیں کرتیں اور تمام قوانین خدا کی طرف سے ہیں  پس در حقیقت تمام چیزیں بار گاہ الہٰی میں سجدہ ریز ہیں ۔ سب اس کی عظمت کی ترجمان ہیں سب اس کی بزرگی و بے نیازی کا مظہر ہیں مختصر یہ کہ سب اس کی مقدس ذات کی دلیل ہیں ۔
”دابة“ حرکت کرنے والے موجود کے معنی میں ہے نیز اس سے زندگی کا معنی بھی لیا جاتا ہے یہ جوز یر نظر آیت میں کہا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں چلنے والی سب موجودات خدا کے حضور میں سجدہ ریز ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ موجودات کرّارض ہی سے مخصوص ہیں بلکہ آسمانی کرّات میں بھی زندہ چلنے والے موجودات وجود رکھتے ہیں ۔
اگر چہ بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ لفظ”من دابة“ صرف” مافی الارض“ کے لئے ہے یعنی یہاں صرف زمین میں حرکت کرنے اور پھر نے والوں کے بارے میں بات کی گئی ہے لیکن یہ اھتمال بہت بعید معلوم ہوتا ہے خصوصاً جبکہ شوریٰ کی آیہ ۲۹ میں ہے ۔
و من اٰیاتہ خلق السمٰوٰت و الارض وما بث فیھا من دابة
خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین دونوں میں اس کی چلنے پھر نے والی مخلوق موجود ہے ۔
یہ بجا ہے کہ تکوینی اعتبار سے سجدہ اور خشوع و خضوع متحرک موجودات میں منحصر نہیں ہے لیکن چونکہ متحرک موجودات خلقت و آفرینش کے بہت سے اسرار و عجائب کا مظہر ہیں لہٰذا یہاں انہی کی نشادہی کی گئی ہے ۔
آیت کے مفہوم میں چونکہ عقل رکھنے والے انسان اور صاحب ایمان فرشتے بھی شامل ہیں نیز حیوانات اور دوسرے جانور بھی اس کے مفہوم میں داخل ہیں لہٰذا سجدہ یہاں عام اختیاری اور تشریعی معنی کا بھی حامل ہے اور تکوینی و اضطراری معنی کا بھی ۔
رہا یہ سوال کہ زیر بحث آیت میں فرشتوں کا الگ سے ذکر کیوں ہوا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ”دابة“ صرف ان چلنے پھرنے والے موجودات کو کہا جاتا ہے کہ جو جسم رکھتی ہین جبکہ فرشتے چلتے پھرتے تو ہیں لیکن مادی جسم نہیں رکھتے لہٰذا وہ ”دابة“ کے مفہوم میں شامل نہیں ہیں ۔
ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :
اللہ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جوجو ابتدائے آفرینش سے خدا کے حضور سجدہ میں ہیں اور روز قیامت تک اسی طرحسر بسجود رہیں گے اور جب وہ قیامت کے دن سجدے سے سر اٹھائیں گے تو کہیں گے:
ما عبدناک حق عبادک
ہم سے حق عبادت ادا نہ ہو سکا ۔
”وھم لا یستکبرون“ فرشتوں کی اسی کیفیت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بار گاہ حق میں خضوع اور سجدہ کرتے ہیں اور اس میں ان کے اندر غرور وتکبر کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔
لہٰذا اس کے بعد فوراً ان کی دو صفات کا تذکرہ ہے اور یہ دونوں ان میں تکبر کے نہ ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں ۔
ارشاد ہوتا ہے وہ اپنے پر وردگار کی مخالفت سے ڈرتے ہیں کہ جو ان کا حاکم ہے (یخالفون ربھم من فوقھم )اور جس چیز پر وہ مامور ہیں اسے خوب انجام دیتے ہیں ( ویفعلون مایوٴمرون ) ۔
جیسا کہ سورہ تحریم کی آیہ ۶ میں فرشتوں کے ایک گروہ کے بارے میں ہے:
لایعصون اللہ ما امر ھم و یفعلون ما یوٴمرون
وہ فرمان الہٰی کی مخالفت نہیں کرتے اور انھیں جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں ۔
اسی آیہ سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ غرور تکبر کے نہ ہونے کی دو نشانیاں ہیں ۔ ذمہ داریوں کا خوف اور احکام الٰہی کو بے چوں و چرا انجام دینا ۔ ان میں سے ایک تکبر نہ کرنے کی نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے اور دوسری قوانین اور احکام کے بارے میں ان کے طرز عمل کی طرف ۔ طرز عمل در حقیقت نفسیاتی کیفیت کا ردّ عمل ہے اور اس کا عملی مظاہرہ ہے ۔
آیت میں ”من فوقھم“ یقینا حسی اور مکانی طور پر ہونے کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ مقام کی بر تری کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خدا سب سے بر تر اور بالا تر ہے ۔
سورہ انعام کی آیہ ۶۱ میں ہے ۔
وھوالقاھر فوق عبادہ
وہ اپنے بندوں پر قاھر و غالب ہے ۔
قرآن میں ہے کہ فرعون نے قدرت و طاقت کے اظہار کے لئے کہا :
وانّا فوقھم قاھرون
میں ان پر قاہر و غالب ہوں (اعراف۱۲۷)
ان تمام مواقع پر لفظ”فوق“ مقام کی بر تری کو بیان کرتا ہے ۔

 



2۔تفسیر قرطبی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
3۔تفسیر ابو الفتوح رازی جلد ۷ ص ۱۱۰۔
سائے تک اللہ کے حضور سجدہ زیر ہیںسوره نحل/ آیه 51 - 55
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma