ہٹ دھرمی اور محسوسات کا انکار

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره حجر / آیه 10 -15 ۱۔ ”شیع کا مفہوم “

ہٹ دھرمی اور محسوسات کا انکار
ان آیات میں پیغمبر اکرم اور مومنین کو اپنی دعوت میں در پیش مشکلات کے مقابلے میں تسلی و تشفی کے لئے گذشتہ انبیاء کی زندگی اور گمراہ و متعصب قوموں کے مقابلے میں ان کی مصیبتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : تجھ سے پہلے ہم نے گذشتہ امتوں کے درمیان بھی نبی بھیجے تھے ( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی شِیَعِ الْاٴَوَّلِینَ) ۔
لیکن وہ لوگ ایسے ہٹ دھرم اور سخت مزاج تھے کہ ” جو پیغمبر بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا تمسخر اڑاتے ( وَمَا یَاٴْتِیھِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ کَانُوا بِہِ یَسْتَھْزِئُونَ ) ۔
یہ استہزاء چند امور کی وجہ سے ہوتا تھا
۔انبیاء کی شان و شوکت کو کم کرنے اور حق کے متلاشی اور حق طلب افراد کو ان سے دور کرنے کے لئے ۔
۔ خدائی رسولوں کی منطق کے مقابلے میں ان کی اپنی ناتوانی کی وجہ سے چونکہ وہ لوگ ان کے دندان شکن دلائل کا جواب نہیں دے سکتے تھے لہٰذا تمسخر کا سہارا لیتے یعنی بے منطق ناداں کا حربہ استعمال کرتے تھے ۔
۔ اس بناء پر کہ انبیاء بد عت شکن تھے اور غیر مناسب رسوم و رواج کے خلاف قیام کرتے تھے لیکن جاہل متعصب کہ ان غلط رسول و رواج کو ابدی سمجھتے تھے انہیں ان کام پر تعجب ہو تا تھا اور وہ استہزاء کرنے لگتے تھے ۔
۔یہ لوگ اس لئے بھی استہزاء کرتے تھے کہ اپنے خوابیدہ ضمیر کو سلائے رکھیں اور کہیں کوئی ذمہ داری اور مسئولیت ان کے سر نہ آجائے ۔
۔ اس لئے کہ بہت سے انبیاء کے ہاتھ مالِ دنیا سے تہی ہوتے تھے اور ان کی زندگی سادہ ہوتی تھی جو لوگ اپنے دل کے اندھے پن کی وجہ سے شخصیت کو نئے لباس ، اعلیٰ سواری اور نگین زندگی میں منحصر سمجھتے تھے انھیں تعجب ہوتا تھا کہ کیا ایک فقیر اور تہی دست انسان ان دولت مندوں او ر خوشحال لوگوں کا رہبر ہوسکتا ہے ؟ لہٰذا وہ اس کا تمسخر اڑانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔
۔ آخر کار یہ بھی تھا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انبیاء کی دعوت قبول کرنے سے ان کی شہوات و خواہشات محدود ہ وجائیں گی او ر ان کی حیوانی آزادی چھن جائے گی ۔ اور ان کے لئے فرائض اور ذمہ دار یاں پیدا ہو جائیں گی لہٰذا وہ استہزاء سے کام لیتے تاکہ اپنے آپ کو ان فرائض اور ذمہ داریوں سے بچا سکیں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا : اسی اسی طرح ہم آیات قرآن مجرموں کے دلوں میںں بھیجتے ہیں ( کَذَلِکَ نَسْلُکُہُ فِی قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ ) ۔
لیکن ان تمام تبلیغ ، تاکید ، منطقی بیان اور معجزات دکھا نے کے باوجود یہ متعصب تمسخر اڑانے والے ” اس پر ایمان نہیں لاتے“ ( لاَیُؤْمِنُونَ بِہ) ۔
البتہ یہ انہی پر منحصر نہیں ہے ” ان سے پہلے گذشتہ اقوام کی بھی یہی روش تھی ( وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔
شہوات میں غوطہ زنی اور باطل پر ہٹ دھرمی کے باعث معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اگر ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی در وازہ کھول دیں اور ہمیشہ آسمان کی طر ف چڑھیں اور اتریں ( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھمْ بَابًا مِنْ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِیہِ یَعْرُجُونَ) ۔
تو کہیں گے کہ ہماری چشم بندی کی گئی ہے ( لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ اٴَبْصَارُنَا) ۔بلکہ ہمیں جادو گر دیا گیا ہے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ، اس میں قطعاً کوئی حقیقت نہیں ہے (بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ ) ۔
یہ جائے تعجب نہیں کہ انسان عناد اور ہ دھرمی کے اس در جے پر پہنچ جائے کیونکہ انسان کی پاک روح اور خرابی سے بچی ہوئی فطرت کہ جو ادراک ِ حقائق اور واقعیات کے اصلی چہرے کے مشاہدہ پر قدرت رکھتی ہے ، گناہ جہالت اور حق سے دشمنی رکھنے کے زیر اثر آہستہ آہستہ تاریکی میں جا گرتی ہے البتہ ابتدائی مراحل میں اسے پاک کرنا پوری طرح ممکن ہے لیکن اگر خدا نخواستہ یہ حالت ِ انسان میں راسخ ہو جائے اور ” ملکہ “ کی شکل اختیار کرلے تو پھر اسے آسانی سے ختم کیا جاسکتا اور یہ وہ مقام ہے کہ حق کا چہرہ انسان کی نظر میں دگر گوں ہو جاتا ہے یہاں تک کہ محکم ترین عقلی دلائل اور واضح ترین حسی براہین اس کے دل پر اثر نہیں کرتے اور اس کا معاملہ معقولات اور محسوسات دونوں کے انکار تک جا پہنچتا ہے ۔

سوره حجر / آیه 10 -15 ۱۔ ”شیع کا مفہوم “
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma