قرآن اور مسئلہ تکامل انواع

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
مفروضہ تکامل اور مسئلہ خدا شناسیسوره حجر / آیه 45 - 50

قرآن مسئلہ تکامل انواع
یہ بات جاذب نظر ہے کہ مسلمانوں میں تکامل انواع کے حامیوں اور مخالفوںدونوں نے اپنے مقصد کے اثبات کے لئے آیات ِ قرآن سے تمسک کیا ہے لیکن شاید دونوں نے بعض اوقات اپنے عقیدے اور نظرے کے زیر اثرہوکر ایسی آیات سے استدلال کیا ہے کہ جو ان کے مقصود سے بہت کم ربط رکھتی ہیں ۔ لہٰذا وہ دونوں طرف سے زیر بحث آنے والی آیات کا انتخاب پیش کرتے ہیں ۔
اہم ترین آیت کے جس کا تکامل کے طرفداروں نے سہارا لیا ہے سورہ ٴ آل عمران کی آیہ ۳۳ہے ۔
ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحاً و آل ابراہیم و اٰل عمران علی العالمین
اللہ نے آدم (علیہ السلام) ، نوح (علیہ السلام) ، آل ابراہیم (علیہ السلام) اور آل عمران ایک گروہ کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے اور ان میں سے چنے گئے ، آدم کو بھی اسی طرح ہو نا چاہئیے یعنی ان کے زمانے میں بھی وہ انسان کے جس پر ”عالمین “ کا اطلاق ہوتا ہے یقینا موجود تھے اور آدم (علیہ السلام) انہی میں سے چنے گئے تھے یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) روی زمین کے پہلے انسان نہ تھے بلکہ قبل ازیں بھی دوسرے انسان موجود تھے اور آدم (علیہ السلام) کا امتیاز وہی ان کا فکری اور روحانی ارتقاء و تکامل ہے کہ جس کے سبب وہ اپنے جیسے افراد میں سے چنے گئے ۔
اس نظریہ کے حامیوں نے کچھ اور آیات بھی ذکر کی ہیں کہ جن میں سے بعض مسئلہ تکامل سے بالکل ربط نہیں رکھیتیں اور ان کی تفسیر تکامل کے مفہوم میں کرنا زیادہ تر تفسیر بالرای بن جاتی ہے ۔
ان میں سے بعض آیات ایسی بھی ہیں کہ جو تکامل انواع کے مفہوم سے بھی مطابقت رکھتی ہیں ،ثبوت انواع سے بھی او رآدم (علیہ السلام) کی مستقل خلقت سے بھی ۔اسی بناء پر ہم نے بہتر سمجھا ہے کہ ان کے ذکر سے صرف نظر کیا جائے ۔
باقی رہا وہ اعتراض جو اس استدلال پر کیا جاسکتا ہے یہ ہے کہ ہے ’عالمین “ اگر معاصر لوگوں کے معنی میں ہو اور ”اصطفیٰ “ (چننا)یقینا ایسے ہی اشخاص میں سے ہو تو پھر یہ استدلال قابل قبول ہو سکے گا لیکن اگر کوئی کہے کے ”عالمین “ معاصرین اور غیر معاصرین سب کے لئے ہے تو اس صورت میں مندرجہ بالا آیت اس امر پر دلالت نہیں کرے گی جیسا کہ پیغمبر اسلام کی مشہور حدیث میں خاتون اسلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکی فضیلت میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
اماابنتی فاطمہ فھی سیدة نساء العالمین من الاولین و الاٰخرین
باقی رہی میری بیٹی فاطمہ تو وہ اولین و آخرین کے سب جہانوں کے عورتوں کی سردار ہے ۔
یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی کہے کہ کچھ لوگوں کو خدا نے تمام اور ادوار کے انسانوں میں سے چن لیا ہے اور ان میں سے ایک آدم ہیں اس صورت میں ضروری نہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانے میں دوسرے انسان بھی موجود ہوں کہ جن پر ”عالمین “ کا اطلاق ہو یا آدم ان میں سے چنے جائیں ، خصوصاً جبکہ گفتگو خدا کے چننے کے بارے میں ہے جو آئندہ آنے والی اوربعد کے زمانوں میں آنے والی نسلوں میں سے اچھی طرح آگاہ ہے ۔۱
۱۔یہ احتمال بھی ہے کہ ایک مختصر مدت میں اولاد آدم پر مشتمل ایک معاشرہ تشکیل پایا گیا ہو او ران میں سے آدم بر گزید ہ اور چنے ہوئے ہوں ۔
لیکن اہم ترین دلیل جو ثبو ت انواع کے حامیوں نے آیاتِ قرآن میں سے منتخب کی ہے وہ زیر بحث اور اس جیسی آیات ہیں کہ جوکہتی ہیں کہ خدا نے انسنا کو خشک مٹی سے پیدا کیا کہ جو سیاہ رنگ بد بو دار اور کیچڑ سے لی گئی تھی ۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ ”انسان“ کی خلقت کے موقع پر بھی یہ تعبیر استعمال ہوئی ہے :
لقد خلقنا الانسان من صلصال من حماٴٍ مسنون ( حجر:۲۶) ۔
نیزبشر کے بارے میں بھی یہ تعبیر آئی ہے :
و اذقال ربک للملائکة انی خالق بشراً من صلصال من حماٴٍ مسنون (حجر:۲۸) ۔
نیز یہ بھی ہے کہ فرشتوں نے خود ذات ِ آدم کو سجدہ کیا اس سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ( سورہ ٴ حجر کی آیات ۲۹ ،۳۰ اور ۳۱ جو سطور بالا میں ہم بیان کرآئے ہیں ان میں غور و فکر کیجئے ) ۔
پہلی نظر میں ان آیات مفہوم یہی نکلتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) پہلے سیاہ رنگ کے کیچڑ سے پیدا ہوئے ، اعضاء و جوارح کی تکمیل کے بعد ان میں خدائی روح پھینکی گئی اور اس کے ساتھ ابلیس کے سوا تمام فرشتے ان کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔
ان آیات کا طرز بیان نشاندہی کرتا ہے کہ آدم کی مٹی سے خلقت او ر موجودہ شکل و صورت پیدا ہونے کے درمیان دیگر انواع موجود نہ تھیں ۔بعض مندرجہ بالا آیات میں ”ثم“ کی تعبیر آئی ہے یہ لفظ لغت عرب میںفاصلہ ترتیب کے لئے استعمال ہوتا ہے یہ لفظ ہر گز لاکھوں سال گذر نے اور ہزاروںانواع کے موجود ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ کوئی مانع نہیں کہ یہ ایسے فاصلوں کی طرف اشارہ ہو جو آدم کی مٹی سے خلقت اور پھر خشک مٹی اور پھر روح الٰہی پھونکے جانے کے مراحل میں موجود تھے اسی لئے لفظ ”ثم“ عالم جنین میں انسان کی خلقت اور ان مراحل کے بارے میں آیا ہے کہ جو جنین یکے بعد دیگررے طے کرتا ہے ،مثلاً
یا ایھا الناس ان کنتم فی ریب من البعث فانا خلقناکم من تراب ثم من نطفة ثم من علقةثم من مضغة ثم لنخرجکم طفلاًثم لتبلغوا اشد کم ۔
اے لوگو!اگر تمہیں بعث اور قیامت کے بارے میں شک ہے (تو انسان کی خلقت کے بارے میں قدرت خداپر غور و فکر کروکہ)ہم نے تمہیں خاک سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھرمضغہ( گوشت کے جبائے ٹکڑے )سے پھر ہم تمہیں بچہ کی شکل میں باہر نکالتے ہیں پھر تم مرحلہٴ بلوغ تک پہنچتے ہو (حجر :۵)
آپ دیکھ رہےں کہ ضروری نہیں ہے کہ”ثم“ ایک طولانی فاصلہ کے لئے آئے بلکہ جیسے یہ ایک طولانی فاصلوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ویسے ہی مختصرفاصلوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔
جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے اس سے مجموعی طورپر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آگر چہ آیات قرآن نے براہ راست مسئلہ تکامل یا ثبوت انواع بیان نہیں کیا ۔ (لیکن بالخصوص انسان کے بارے میں )آیات کا ظاہری مفہوم مستقل خلقت سے زیاد ہ مناسبت رکھتا ہے اگر چہ اس کے بارے میں کامل صراحت نہیں ہے لیکن خلقت ِآدم سے متعلقہ آیات کا ظاہر زیادہ مستقل خلقت ِ آدم سے متعلقہ آیات کا ظاہر مستقل خلقت کے مفہوم کے گرد گر دش کرتا ہے البتہ دیگر جانوروں کے بارے میں قرآن خاموش ہے ۔

مفروضہ تکامل اور مسئلہ خدا شناسیسوره حجر / آیه 45 - 50
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma